چوہے اور استاد دامن(مرحوم)

ہمارے ہسپتالوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں مریضوں کو تو کھانے کو کچھ کم ہی ملتا ہے مگر بلیوں ، چوہوں اور کیڑے مکوڑوں کو خوراک کی فراہمی بہت وافر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہسپتالوں کی بلیاں شیر کی خالہ کم اور مائیں زیادہ محسوس ہوتی ہیں۔ سرکاری مال ِ مفت پر بلنے والے چوہے پہلی نظر میں چوہے کم اور بلی زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ وارڈ کی کسی الماری پر کھڑا چوہا تو بڑی توند والا سرکاری افسر محسوس ہوتا ہے۔ ہسپتالوں کی خوراک پر پھلنے پھولنے والے یہ چوہے ہر ہسپتال میں بغیر روک ٹوک آزادانہ گھومتے اوروارڈوں میں ہلہ گلہ کرتے عام نظر آتے ہیں۔ یہاں کے ماحول میں پلنے والے کیڑے مکوڑے بھی اس قدر بگڑے ہوتے ہیں کہ کوئی کیڑے مار دوائی اُن پر اثر نہیں کرتی بلکہ اُن کی بہتر صحت کی ضامن ہوتی ہے۔

کچھ دن ہوئے راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں ایک چوہے نے ایک نومولود کو کاٹ لیا جس سے وہ ننھا بچہ زخمی ہو گیا۔ گو چوہے کی یہ گستاخی ہسپتال کے روزمرہ معمول کا ایک مستقل حصہ تھی مگر اس بات کی خبر میڈیا پر آگئی۔ فوری طور پر مرکزی اور صوبائی حکومتیں الیکشن ضروریات کے تحت حرکت میں آئیں۔ وزیر اور مشیر دوڑے اور انہوں نے بچے کے والدین کی دلجوئی اور میڈیا میں فوٹو سیشن میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کوئی بڑا واقعہ ہو تو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ خود تشریف لاتے اور میڈیا کے لیے فوٹو سیشن کا اہتمام کرتے ہیں۔ مگر چھوٹے چھوٹے مسائل کے لیے یہ وزیر اور مشیر ہی کافی سمجھے جاتے ہیں۔ بس اشارہ ملا تو یہ لوگ خوشی سے جھومتے میڈیا کے سامنے ۔ ویسے بھی اشاروں کے محتاج یہ لوگ جی حضوری کے علاوہ کوئی فہم و ادراک نہیں رکھتے اور ہرکارے کے طو رپر بہت موزوں ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں میں روزانہ کا معمول یہ معمولی واقع سرکاری مداخلت کی وجہ سے ایک بڑے سانحے کی شکل اختیار کر گیا۔ اس واقعے سے اگر عوامی پذیرائی کا کوئی پہلو نکل سکتا تو یقینا پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف جو ”ڈینگی مکاﺅ مہم “ کے بعد محکمہ صحت کے حوالے سے آج کل فارغ ہیں ”چوہے مکاﺅ مہم “ پر زور و شور سے کام کر رہے ہوتے کیونکہ وہ کام کم کریں یا زیادہ ، زور بھی بہت لگاتے ہیں اور شور بھی بہت۔

دل کا روگ بڑی عجیب چیز ہے۔ کوئی شخص بھی اس روگ کا شکار نہیں ہونا چاہتا مگر یہ ہوجاتا ہے۔ بن بتائے اور بن چاہے۔ پچھلے دنوں مجھے صبح کے وقت سینے میں درد محسوس ہوئی اور میرا بیٹا مجھے لے کر فوراً انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف چلا۔ راستے میں درد کی شدت سے میں بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو ڈاکٹروں نے مبارکباد دی کہ بہت ٹھیک وقت پر پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر ہو جاتی تو نقصان کا اندیشہ تھا۔ اُس کے دو دن بعد انجیو گرافی اور پھر پانچ دن بعد انجیو پلاسی۔ یوں تقریبا ایک ہفتہ وہیں CCUمیں گزرا۔ جہاں اچھے اور فرض شناس ڈاکٹروں سے ملاقات ہوئی۔ مستعد اور مددگار عملے سے پالا پڑا۔ وہیں چوہے ، بلیوں اور کیڑے مکوڑوں سے بھی واسطہ رہا۔ کمال یہ تھا کہ وہاں کی بلیاں چوہوں کو کچھ نہ کہتی تھیں۔ چوہے جب بلی کے ارد گرد ناچ رہے ہوتے تو یوں لگتا کہ بلی شفقت کا مظاہرہ کر رہیے اور چوہے پیار اور احترام کے جذبے سے سرشار ہیں۔ جب کھانے کو اتنا کچھ ہو تو بلی چوہے کا شکار کر کے ماحول کو خراب کیوں کرے۔

CCUمیں جو چیز سب سے تکلیف دہ تھی، وہ ہزاروں کی تعداد میں کاکروچ کی موجودگی تھی۔ لوگ کثرت سے کیڑے مار دوائیں لا کر اُنہیں ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کرتے مگر کچھ نتیجہ نہیں نکلتا تھا۔ نرسیں ہنس کر بتاتیں کہ یہ ختم نہیں ہو سکتے۔ دوائی تو ان پر اثر نہیں کرتی کیونکہ یہ دوائیاں کھا کر ہی تو جوان ہوئے ہیں۔ جوتیوں سے مارو تو مر جاتے ہیں مگر اتنے ہی چھت سے اترتے آتے ہیں۔ اصل میں چھت اور مصنوعی چھت کے درمیان ان کا اصل مسکن ہے جہاں ان کی افزائش ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے۔ اور سلسلہ تسلسل سے چلتا رہتا ہے۔ اس لیے گزارا کر رہے ہیں۔ جب تک یہ مصنوعی چھت ہے یہ ختم نہیں ہو سکتے۔ سوچتا ہوں کہ کبھی کسی کاکروچ کی وجہ سے کسی مریض کو کچھ ہوا تو شاید کا”کروچ مکاﺅ مہم “ شروع ہو۔ مصنوعی چھت اتاری جائے تو لوگوں کو اس عذاب سے نجات ملے۔

چوہوں کا ذکر چلا تو پنجابی کے مشہور شاعر اور فلسفی استاد دامن (جنہیں مرے 28سال ہو چکے ہیں) کا ایک واقعہ یاد آیا۔ میرے ایک عزیز اُن کے کمرے میں اُن کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اُن کا ایک چاہنے والا اُن کے لیے دیسی گھی میں پکے دو پراٹھے لے کر آیا۔ استاد دامن نے پراٹھے ایک طرف رکھے اور اُٹھ کر ایک بڑا سا پیالہ لیا جس میں چینی ڈالی۔ ایک پراٹھے کو توڑا اور پیالے میں ڈھیر ساری چوری بنا لی۔ پھر اُٹھے اور کمرے کے چاروں کونوں میں وہ چوری زمین پر ڈال دی اور واپس بیٹھ کر مہمان کو کہا کہ لو ایک پراٹھا مل کر کھائیں۔ مہمان پریشانی سے زمین پر گری چوری پر نظریں مرکوز کیے تھا کہ اچانک بڑے بڑے سائز کے بتہ سے چوہے کونوں کھدروں سے نکلے اور تیزی سے چوری کھانے لگے۔ مہمان نے حیران ہو کر پوچھا کہ استادمحترم یہ کیا۔ہنس کر جواب دیا چوری ہے اور چوہے کھا رہے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ میرے کمرے کے چاروں طرف دیکھو۔ میری ساری عمر کی کمائی۔ میرا خزانہ میری کتابیں تمہیں ہر طرف نظر آئیں گی۔ چوہے خوش ذائقہ چوری کے عادی ہیں۔ ان کو اب کتابوں کے کاغذوں کا بے مزہ ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے چوہوں کو چوری کھلانے کا فائدہ یہ ہے کہ میری کتابیں محفوظ ہیں۔میرا خزانہ محفوظ ہے۔ تم بھی اگر اپنے کسی بھی خزانے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اردگرد چوہوں کا خیال رہو۔ انہیں چوری ڈالتے رہو۔ سدا سکھی رہو گے۔ پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد استاد نے مہمان سے مخاطب ہو کر پھر کہا ۔ زندگی بھر کے لیے ایک بات یاد رکھ۔ رب العزت زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں کچھ دے۔ اُس میں سے کچھ حصہ اپنے اردگرد موجود چوہوں کو ضرور بانٹ دیا کرو ۔ کیونکہ چوہوں کی ہر اُس چیز پرنظر ہوتی ہے جو تمہارے پاس آتی ہے۔ یہ چوہے کوئی اور نہیں تمہارے قریبی عزیز اور اچھے دوست ہیں۔ ان کا خیال رکھنا تمہارا اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔ گو چوہوں کے حوالے سے سہی مگر استاد دامن کا یہ پیغام بہت سچا اور خوبصورت ہے ۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500559 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More