امریکہ اور یورپ کے پیٹ میں
اُٹھنے والے نئے اور شدید ترین درد کو ہم آپ چین کے نام سے جانتے ہیں!
امریکی دانش وروں، پالیسی میکرز اور حکمرانوں کو اپنے مسائل پر توجہ دینے
سے زیادہ یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ چین اپنے بیشتر مسائل کِس طور حل کرکے
آسانی اور روانی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ خوش حالی کی طرف بڑھ رہا ہے!
چین نے جب خوش حالی کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا تو پیداوار بڑھانے پر خاص
توجہ دی۔ دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اُس نے حیرانی کی پیداوار بھی
بڑھادی! تین عشروں کے دوران چین نے امریکہ اور یورپ کو تواتر سے حیرانی میں
مُبتلا رکھا ہے۔ اہل مغرب آبادی کے حجم میں اِضافے کو بوجھ گردانتے ہیں مگر
چینیوں نے ثابت کردیا ہے کہ پھیلتی اور بڑھتی آبادی کبھی ترقی کی راہ میں
رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ آبادی میں اضافے کو اہل مغرب لعنت گردانتے ہیں اور
چینیوں نے مغرب کی لعنت کو اپنے لیے رحمت اور برکت میں تبدیل کیا ہے! سیدھا
اور سادہ اُصول ہے کہ کشادہ دِلی اور خندہ پیشانی سے کام کرتے رہیے اور
زندگی آسان بنائیے۔ ہر طرح کی پس ماندگی کو خیرباد کہتے ہوئے چینیوں نے
ثابت کیا ہے کہ وہ مغربی طاقتوں کو مُنہ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
اور اِس صلاحیت کا اظہار دیکھ کر امریکہ و یورپ اپنے سے مُنہ لیکر رہ گئے
ہیں!
ایک ارب تیس کروڑ نفوس پر مشتمل ملک کو کنٹرول کرنا، حکمرانی کا اعلیٰ
معیار برقرار رکھنا، کرپشن کی روک تھام یقینی بنانا اور ترقی کی راہ ہموار
کرتے رہنا مذاق ہے نہ بچوں کا کھیل۔ چینیوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے
اور دُنیا کو بتا اور جتا دیا ہے کہ
دیکھو، اِس طرح سے کہتے ہیں سُخن وَر سہرا!
چینی بھی بڑے ظالم ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اُنہوں نے مغرب کے سیاست دانوں،
پالیسی میکرز اور عوام کو سُکھ کا سانس نہ لینے دینے کی قسم کھا رکھی ہے!
معاملہ یہاں تک آ پہنچا ہے کہ چینیوں کی ہر بات امریکہ اور یورپ میں بسنے
والوں کے پیٹ میں مروڑ پیدا کر رہی ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ عالمی
ادارہ خوراک نے چائے کی چُسکیاں لینے کے انداز سے بتایا ہے کہ چین کے
باشندوں نے چائے پینے کے معاملے میں بھی سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے یعنی ہر
سال دس لاکھ ٹن چائے پی جاتے ہیں! دوسرے نمبر پر بھارت کے لوگ ہیں جو ہر
سال آٹھ لاکھ اٹھائیس ہزار ٹن چائے پی جاتے ہیں۔
چین عالمی منڈیوں میں شیر، بلکہ شیروں کے مُنہ سے نِوالے چھیننے میں مصروف
ہے اِس لیے نِوالوں سے محروم ہونے والے شیروں کا دَہاڑنا حیرت انگیز نہیں۔
مگر صاحب، شیر اگر واقعی شیر ہیں تو اُنہیں رونا پیٹنا ہرگز زیب نہیں دیتا!
اگر کِسی سے مخاصمت ہے بھی تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُس کے کھانے
پینے پر بھی نظر رکھی جائے! ایک ارب تیس کروڑ نفوس پر مشتمل مُلک کیا سال
بھر میں دس لاکھ ٹن چائے بھی نہیں پیئے گا؟ چین کے کھانے پینے کا حساب
رکھنے کا سلسلہ جاری رہا تو ہم خبردار کئے دیتے ہیں کہ حساب کتاب رکھنے
والوں کے سَروں پر اعداد و شمار یونہی ٹن ٹناٹن برستے رہیں گے!
اہل مغرب چین سے یونہی چڑتے رہے تو کل کو حساب لگایا جائے گا کہ چین کے
باشندے ہر سال اِتنے ارب گیلن پانی پی جاتے ہیں یا اتنے کروڑ ٹن اناج کھا
جاتے ہیں! اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کل کو اعداد و شمار پیش کئے جائیں کہ
چینی باشندے سال بھر میں عالمی سطح پر پائی جانے والی آکسیجن کا بڑا حصہ
اپنے پھیپھڑوں میں بھر لیتے ہیں اِس لیے اُنہیں سانس لینے سے روکا جائے
کیونکہ دوسری اقوام کو آکسیجن نہیں مِل پارہی!
چین کے باشندے کیا کھاتے ہیں اور کیا پیتے ہیں، اِس کا حساب رکھنے سے کہیں
بہتر ہے امریکہ اور یورپ یہ دیکھیں کہ اُنہوں نے کب کب کِس کِس کو کھایا
اور پیا ہے، بلکہ ڈکار گئے ہیں! دو صدیوں سے بھی زائد مُدت تک یورپ کی
سامراجی قوتیں افریقہ، مشرقی وُسطیٰ، ایشیائے کوچک اور جنوبی ایشیا کو جی
بھر کے کھاتی پیتی، بلکہ نوچتی اور بھنبھوڑتی رہی ہیں! کمزور ممالک کے
لاشوں پر اپنا شیش محل تعمیر کرنے سے یورپ کی سامراجی قوتوں نے کبھی گریز
اور دریغ نہیں کیا۔ دوسروں کے مال سے اپنی جیب بھرنے اور دوسروں کو پس
ماندہ رکھ کر ترقی کی منازل طے کرنے والوں کے ہاتھ سے ایک دن سب کچھ اِسی
طور چلا جاتا ہے۔ افیون کے نشے میں غرق ہوکر انٹا غفیل ہو رہنے والی چینی
قوم نے اب اپنی کاہلی کو انٹا غفیل کیا ہے تو اُنہیں پریشانی لاحق ہوگئی ہے
جو اب تک عالمی برادری کے چوہدری کا کردار ادا کرتے آئے ہیں! اِس میں حیرت
کی کیا بات ہے؟ دُنیا کا دستور یہی ہے۔ اِسی کو پنجابی میں کہتے ہیں چور
نُوں پے گئے مَور! |