پاکستانی کرکٹ کا روشن ستارہ :محمد یوسف

محمد یوسف نے دورہ بھارت کے لئے نظر انداز کرنے کے بعد کرکٹ چھوڑنے کے بارے میں سوچنے پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔سینئر کھلاڑی کو ٹیم میں شامل نہ کرنے کی وجوہات انکی ناقص کارکردگی کو ظاہر کیا جا رہا ہے جب کہ درپردہ حقائق کچھ اور ہی ہیں۔یہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ ہے کہ عمدہ کارکردگی دکھانے والے کرکٹرز کو ہمیشہ اپنے چہیتے کھلاڑیوں پر فوقیت نہیں دی جاتی ہے اور ایسے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ یا ون ڈے کیپ دی جاتی ہے جو محض ایک سیریز کے چند میچوں کے بعد عالمی سطح کی کرکٹ پر نظر نہیں آتے ہیں جب کہ عمدہ کارکردگی دکھانے والے کرکٹرز مواقعے کی امید میں بوڑھے ہو جاتے ہیں اور پھر انکی عمر کو جواز بنا کر ٹیم میں شامل کرنے سے گریز کیا جاتا ہے،جیسا کہ ابھی محمد یوسف کے سلسلے میں کیا جا رہا ہے جبکہ ٹیم میں پہلے ہی مصباح الحق اور یونس خان جیسے کھلاڑی موجود ہیں اسی وجہ سے ایک اور سینئر کھلاڑی کو موقعہ نہ د ے کر نئے کھلاڑی کے لئے راستہ بنایا جا رہا ہے۔جبکہ دیگر کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں ہمیشہ نوجوان کرکٹرز کے ساتھ تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ برابر عالمی سطح پر کھیلنے کا موقعہ فراہم کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں دیگر شعبے کی مانند کرکٹ بورڈ میں بھی من پسند کھلاڑی کا چناﺅ اورسیاست کر کے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کا عمل رچ گیا ہے جس کی بناءپر کھلاڑیوں اورسلیکٹروں کی قوت ہر جگہ اپنا اثر ونفوذ دکھا جاتی ہے۔محمد یوسف بھی ایسے ہی کرکٹر ہیں جن کوآغاز سے ہی کرکٹ کھیلنے کے خاطر خواہ مواقع لاہور کی جانب سے کھیلنے کے فراہم نہیں ہو سکے تھے لیکن بعدازں بہاولپور اور انگلینڈ میں کھیلنے اور عمدہ کارکردگی نے پاکستانی ٹیم میں شمولیت کی راہ ہموار کردی۔

محمدیوسف پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا وہ روشن ستارہ ہیں جن کے بغیر پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ نامکمل تصور کی جائے گی۔اپنی بہترین بیٹنگ کی صلاحیتوں سے بار ہا پاکستانی ٹیم کو فتوحات سے ہمکنا ر کرانے والایہ کھلاڑی اب گذشتہ دو سال سے اپنے کیرئیر کے اختتام کی جانب زبردستی دھکیلا جا رہا ہے۔اگرچہ محمد یوسف میں ابھی بھی رنز کی بھوک باقی ہے مگر جیسا کہ پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ ہے کہ نامور کھلاڑی ہمیشہ سے بورڈ کے ہاتھوں تماشہ بن کر رخصت ہوتے ہیں ۔یہ عظیم ترین کھلاڑی بھی لگتا ہے کہ بورڈ کی بے حسی کا شکار ہو کر پاکستانی کرکٹ کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے کرکٹ کے میدان سے رخصت ہو جائے گا اور ہم اس کے کارناموں کو ایک سنہری یاد کے طور پر یاد رکھیں گے۔ اقبال قاسم صاحب کے بیان کے مطابق محمد یوسف ڈومیسٹک کرکٹ خاطر خواہ نہ کھیلنے کی وجہ سے اور فارم میں نہ ہونے کی وجہ سے دورہ بھار ت کے لئے قابل ترجیح نہیں ہونگے اور انہوں نے دورہ بھارت کے لئے منتخب نہ کرکے اپنی بات کو سچ کر دکھا یا ہے ۔حالانکہ سینئر کھلاڑی کو بھارت کے دورہ پر بھیجا جانا پاکستان کرکٹ اورٹیم دونوں کے لئے سود مند ثابت ہو سکتا تھا مگر یہ مستقبل کے لئے سوچ بچار کرنے کی بجائے وقتی چل چلاﺅ پر کام چلا یا جاتاہے ۔ایسے کرکٹرز کو ہزار ہا مواقعے دیئے جاتے ہیں جن جو کئی بار ناکام ہو چکے ہیں مگر سال میں رنز کے انبار لگانے والے محمد یوسف کو محض ذاتی عناد کے طور پر کرکٹ سے دور کیا جارہا ہے ۔جبکہ دوسری جانب بھارت سچن ٹنڈولکر کو ابھی تک کھیلا رہا ہے اور سچن بارہا ناکام ہونے کے بعد بھی بھارت کو ضرورت کے وقت عمدہ کارکردگی سے شکست سے دور لے جاتا ہے۔مگر ہمارا کرکٹ بورڈ نئے خون پر مشتمل کھلاڑی کو لانے کے بہانے سے سینئر کھلاڑیوں کو ریٹارمنٹ پر مجبور کرتا ہے، اب بورڈ ذرا یہ بتائے کہ کتنے کرکٹرز اس کی اس حکمت عملی کی بنا پر مستقل طور پر ٹیم میں شامل ہو چکے ہیں ماسوائے انکی جن کی بہترین صلاحیتوں نے از خود انکو ٹیم میں شامل کرنے پر مجبور کیا ہے۔

27اگست 1974 کو جنم لینے والے محمد یوسف جنکا نام اسلام لانے سے قبل یوسف یوحنا تھا نے اپنی ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف کیا تھا جس میں وہ خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر پائے۔یہ ٹیسٹ میچ 26فروری 1998کو ڈربن کے مقام پر کھیلا گیا تھا۔جبکہ اولین ون ڈے میچ زمبالوے کے خلاف 28مارچ1998کو کھیلا تھا۔پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے بہترین بلے باز اس وقت جس مقام پر ہیں وہاں تک رسائی بہت کم کرکٹرز کو حاصل ہو پائی ہے ابھی عمر کو اگر نہ دیکھا جائے تو سچن ٹنڈولکر کی مانند کھیل کر بہت سے کارنامے سرانجام دینے کے قابل ہیں ۔اسی لیے کرکٹ بورڈ کو انکو ضرور عالمی سطح پر کھیلنے کے مواقعے فراہم کرنے چاہیں ۔یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ لاہور لائنز کی کپتانی بھی چھین کر محمد حفیظ کو دی جا رہی ہے کہ وہ چونکہ قومی ٹیم کے کپتان ہیں تو وہ لاہور لائنز کی کپتانی کرنے کے ذیادہ مستحق ہیں اگر لاہور لائنز نے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ جیت لیا ہے اور محمد حفیظ کی بھی واہ واہ ہو گئی ہے ۔ جو سلوک ایک سینئر کھلاڑی کے ساتھ کیا گیا ہے وہ کسی طور داد کے لائق نہیں ہے؟
 

image

آخر کب تک بورڈکے کرتا دھرتا نئے خون کو لانے کے بہانے سے اپنی من مانی کر کے ہمارے قومی ہیروز کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کرتے رہیں گے؟جبکہ ہمارے پاس باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی بھی نہیں ہے اس کی ایک مثال محمد آصف کی ہے جس نے تن تنہا عالمی سطح پر سنوکر کا عالمی کپ جیت کر دکھایا ہے؟ اور ہماری بلائنڈ کرکٹ ٹیم بھی نت نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے جب کہ ہمارا بورڈ سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے ریکارڈز قائم کر رہا ہے۔کرکٹ بورڈ کے چیئرمین زکاءاشرف صاحب کو چاہیے کہ ایک واضح حکمت علمی ترتیب دیں جس کے تحت محض عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ ڈومیسٹک کرکٹ کرنے والے کھلاڑیوں کو ہی سینئر کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں یا پھر انکو سیریز میں سینئرکھلاڑیوں کو آرام کا موقعہ دے کر آزمایا جائے تاکہ انکی دل شکنی بھی نہ ہو اور پاکستانی کرکٹ بھی پھلتی پھولتی رہے ؟سینئر کھلاڑی سے جونیئر کرکٹرز بہت کچھ سیکھ سکتے ہیںاگر سینئر کھلاڑیوں کو ہی ذاتی عناد کی بنائر پرکرکٹ سے دور کیا جائے گا تو ایک وقت آئے گا کہ جیسے سکوائش کے کھیل میں عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والا کوئی نہیں ہے اسی طرح کرکٹ کے کھیل میں بھی زوال دیکھنے کو مل سکتا ہے۔آخر میں محمدیوسف کے کیریئر کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے جس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ ہمارے اس قومی ہیرو نے کس قدر ملک کو عزت دی ہے اور ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کر کے کرکٹ کے دیوانوں کو اس کے کھیل دیکھنے سے محروم کر رہے ہیں؟
 
  فرسٹ کلاس ٹیسٹ کرکٹ ون ڈے ٹی ٹونئٹی
کل میچ 141 90 288 3
کل رنز 10505 7530 9720 50
اوسط 4796 5229 4171 1666
سنچری /نصف سنچری 51/30 24/33 15/64 --/--
بہترین سکور 223 223 141* 26
کیچز/سٹمپ --/84 --/65 --/58 --/1

اور آخر میں یہاں قارئین کی دلچسپی کے لئے محمد یوسف کے چند ریکارڈز بتاتا چلوں کہ محمد یوسف نے دورہ ویسٹ انڈیز میں 2006کی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 665رنز اسکور کر دیئے تھے۔جس کی بدولت وہ سرڈان بریڈمین 825اور کلائڈ والکاٹ806کے بعد ایک سیریز میں ذیادہ سے ذیادہ اسکور کرنے والے تیسرے کرکٹر بن گئے ۔مگر یہ بات آپ کے لئے شاید فخر کا سبب بن جائے کہ ہمارے اس قومی ہیرو نے محض تین ٹیست میں یہ اسکور کر دکھا یا تھا جبکہ دیگر دو کرکٹ لیجنڈز نے پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں رنز کا پہاڑ بنا لیاتھا۔جب کہ محمد یوسف نے پانچ ٹیسٹ میچز میں چھے سنچریوں کا کارنامہ سرانجام دے کر سرڈان بریڈ مین کا چھے میچز میں چھے سنچریوں کا ریکارڈ بھی توڑ کر اپنے نام کیا ہوا ہے۔

محمد یوسف نے 2006کے سال میں ویوین رچڑز کا1710ٹیسٹ رنز جو انہوں نے ایک سال میں بنائے تھا کا ریکارڈ بھی اپنے نام 1788اسکور کر کے اپنے نام کر لیا جو کہ ابھی تک برقرار ہے۔اسی سال نو سنچریاں کرنے کا نیا ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔جبکہ محمد یوسف ٹیسٹ کرکٹ میں چار بار ڈبل سنچری کرنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں اور واحد کرکٹر ہیں جو کہ 190تک پہنچ کر تین بار آوٹ بھی ہو چکے ہیں۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522895 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More