دور طالب علمی میں سناکرتے تھے
کہ پڑھو لکھو بنو گے نواب کھیلو کودو ہوگے خراب پڑھنا لکھنا پڑھنا ہم سے
ہوتا نہیں تھا اور کھیلنے کودنے سے گھر والے منع کرتے تھے اس لئے ہم کچھ نہ
بن سکے -پھر ایک دور آیا جب ہر کوئی سنا تھا کہ پڑھو گے لکھو ہوگے خراب
کھیلو کودو گے بنو گے نواب اور ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ ہمارے ہاں نواب
زیادہ بن گئے کھیل کے میدان سے بننے والے ان نئے بننے والے نوابوں نے اپنے
عادات بھی نواب جیسے بنا لئے جس کی وجہ سے "جواری"بن گئے اور ملک کے نام کو
داغدار کر گئے شکر ہے کہ پکڑے جانیوالے نوابوں کوگوری چمڑی والوں نے پکڑا
ہوا تھا ورنہ ہماری طرح کالے چمڑی والے پکڑتے تو "ایزی لوڈ"کرکے نکل جاتے
اور ملک کی خدمت"کھیلوں کے میدان"میں کرتے اور جذباتی قوم ان کیلئے زندہ
باد کے نعرے لگاتی خیر وہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ان لوگوں کے کئے گئے "کارناموں"
سے لوگ اب ان پر اعتبار نہیں کرتے-
جس طرح کا اعتبار فیصل آباد سے آنیوالی ایک جوجستو کی ایک خاتون کھلاڑی پر
کوئی نہیں کررہا اپنی اس بے اعتباری کو ختم کرنے کیلئے متعلقہ کھلاڑی نے اب
کھیلوں کی وزارت سمیت ہمارے بابو جی اور دیگر اداروں کے رہنمائوں کو
درخواست دی ہیں جس میں انصاف کا مطالبہ کیا گیا ہے موصوفہ کا تعلق جوجستو
کے کھیل سے ہے بقول اس کے لاہور میں منعقدہ پنجاب یوتھ گیمز کے نیشنل
جیوجٹسو ٹورنامنٹ میں فاٹا اولمپک ایسوسی ایشن کا سیکرٹری جنرل نے اسے
کہاکہ آپ فاٹا کی نمائندگی کرو،اگر میڈلزجیت جائوںگی تو جسطرح فاٹا کے
دوسرے کھلاڑیوں کو انعامی رقم ملے گی ،اس طرح آپ کو بھی انعامی رقم دی جائے
گی ۔مذکورہ کھلا ڑی کے مطابق میں نے مذکورہ ٹورنامنٹ میںفاٹا کی نمائندگی
کرکے دو برائونز میڈلز جیتے ۔اور جب میں نے لاہورمیں ایونٹ کے اختتام پر
انعامی رقم کا مطالبہ کیا تومجھے کہاگیاکہ میں آپ کو بتادوں گا۔لیکن بعد
میں پتہ چلا کہ اسلام آباد میں ایک پروگرام ہوا جسمیں فاٹا کے کھلاڑیوں کو
پیسے دیئے گئے اور میرا انعام ایک اور ایک لڑکی کو دیدیا گیا۔اور جب میں نے
متعلقہ سیکرٹری کو فون کیاکہ میرانعامی رقم کب ملے گا تو انہوں نے مجھے
پشاور آنے کو کہاکہ اور اسکے کہنے پر انعامی رقم لینے فیصل آباد سے پشاور
پہنچی، تومیں سمجھی کہ میں پشاور کے خواتین سپورٹس ہاسٹل میں قیام
کروںگی،لیکن مجھے باڑہ روڈ صدر کینٹ میں واقع خیبر سپر مارکیٹ میں ایک
پرائیویٹ فلیٹ پر لیکر گیااور کہاکہ ہم فاٹا کی خواتین کھلاڑیوں کویہی قیام
کراتے ہیں ۔اور اسی جگہ مجھ پر ہاتھ ڈالا اور بدتمیزی کرنے لگا اور میری
مزاحمت کرنے پر مجھے دھمکیاں دینے لگا اور بولا کہ تم یہاں سے زندہ نہیں
جائوگی-متعلقہ خاتون کھلاڑی نے اپنی درخواست میں بہت کچھ لکھا ہے اور اس نے
اپنی درخواست کی نقول بہت ساروں کو بھیج دی ہیں - متعلقہ ادارے اس حوالے سے
کیا کرتے ہیں ہمیں پتہ نہیں لیکن حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ فاٹا کے
کھلاڑی کے نام پر دوسرے صوبے کے کھلاڑی کوکس طرح شامل کیا گیالیکن اس
معاملے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس معاملے میں سب اندر سے ملے ہوئے ہیں
- قبائلی علاقہ تو ویسے بھی دہشت گردی کے حوالے سے بدنام ہے اب اگر ایسی
صورتحال رہی تو پھر ہمارے فاٹا سے کوئی پاگل ہی کھیل کے میدان کیلئے نکل
سکتا ہے -
کسی زمانے میں راقم کو کھیلوں کی رپورٹنگ کا بڑا شوق تھا اس دوران اس شعبے
کو اندر سے دیکھ کر افسوس ہوا کہ اس شعبے کو نہ صرف میدان سیاست کے لی ڈروں
نے تباہ حال کردیا بلکہ مختلف ایسوسی ایشن کے نام نہاد "مشران "جنہیںاور تو
کچھ نہیں آتا لیکن عہدوں کیلئے بھاگ دوڑ کرنا خوب آتی ہے- کچھ لوگوں کے پاس
اعلی سرکاری عہدے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے مختلف ایسوسی ایشن کے عہدے
سنبھالے ہوئے ہیں کبھی ایک ایسوسی ایشن اور کبھی دوسرے ایسوسی ایشن کے ساتھ
ان کے نام دیکھے جاسکتے ہیں کچھ ایسے ایسوسی ایشن بھی ہیں جن کے مشران کو
اور تو کچھ نہیں آتا ہاں انہیں مکھن لگانے کا فن آتا ہے اور اسی فن کے
ذریعے کھیلوں کے نام پر صرف اپنی اور اپنے مخصوص لوگوں کی پرموشن میں مصروف
رہتے ہیں اور ملک بھر اور غیر ممالک کا دورہ کرتے رہتے ہیں حالانکہ ان کے
مکھن لگانے کے فن کو دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ بازاروں میں پراٹھے فروخت
کرنے والے کیسے ایسوسی ایشن چلاتے ہیں -سب سے عجیب بات کہ اس شعبے پر جس
طرح مخصوص لوگوں کا گروہ قابض ہے اس طرح ہمارے ہی شعبے سے وابستہ کچھ صحافی
جن میں بڑے نامور لوگ شامل ہیں کھیلوں کے ایسوسی ایشنز پر قابض ان لی ڈروں
کے "چمچے"بنے ہوئے ہیں اور کھیل کے پروموشن کے نام پر آنیوالے فنڈز میں
صحافی بھی اپنا حصہ وصول کرکے صوبہ پختون خوار میں کھیلوں کی پروموشن کرنے
میں مصروف عمل ہیں-
کھیلوں کی پروموشن کیسے ہورہی ہیں اس کا اندازہ صرف ایک ہی پروگرام سے
بخوبی کیا جاسکتا ہے اور دو ٹکے کے عوام کے ٹیکسوں سے لیا جانیوالا پیسہ کس
بے دردی سے استعمال ہورہا ہے جاپان سے تعلق رکھنے والے انوکھی پہلوان نے
گذشتہ دنوں پشاور کادورہ کیا اپنے دورے کے دوران ریسلنگ امن فیسٹیول بھی
پشاور کے قیوم سپورٹس سٹیڈیم میں منعقد کرایا گیا صرف اس ایک مقابلے کی
پروموشن کیلئے تقریبا80ہزار روپے ایک گلائیڈر )ہوائی جہاز(کرائے کے مد میں
دئیے گئے جس میں ان مقابلوں کے حوالے سے پروموشنل بروشرز فضا سے گرائے جانے
تھے پتہ نہیں گلائیڈر سے وہ پرموشن بینرز کہاں پر گر گئے کہنے والے تو یہاں
تک کہتے ہیں کہ پشاور کے چاروں اطراف میں جہاز سے بینرز گرائے گئے لیکن خدا
گواہ ہے کہ رنگ روڈ پر شہریوں کو اس مقابلے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا
حالانکہ اس حوالے سے شہریوں میں معلومات فراہم کیلئے مخصوص صحافیوں کے "جیب
بھی گرم"کئے گئے لیکن خیر خیریت رہی دوسری طرف پی کے 4کے چوبیس سکولوں کے
بچوں کو بلوایا گیا اور ان سرکاری تعلیمی اداروںکے سربراہان کو پچاس روپے
فی طالب علم پیسے دئیے گئے کہ وہ "تالیاں"بجانے کیلئے سکول کے بچوں کو لے
آئیں اب اللہ ہی جانے کہ کس نے کتنی رقم استعمال کی -
ان چند سطروں کے ذریعے ہم کھیل کے میدان پر مسلط لی ڈروں سے التماس کرتے
ہیں کہ خدارا ایسے مرد و خواتین انسٹرکٹرز جن کی واقعی سپورٹس کے شعبے میں
نمایاں کارکردگی ہو انہیں کھیلوں کے میدانوں میں آگے لایا جائے جو سکولوں
میں نرسری سطح پر بچوں کو مختلف کھیلوں میں تربیت دے اور انہیں ملکی سطح کے
مقابلوں کیلئے تیار کرے انہی سطور کے توسط سے ہم اپنے چند ساتھیوں کو بھی
گزارش کرتے ہیں کہ خدارا بہت کما لیا ہے جس کی وجہ سے آپ لوگوں کے پیٹ بھی
نکل گئے ہیں اورکچھ نے تو بنگلے بھی خرید لئے ہیں کچھ قلم کی حرمت کا خیال
کریں کیونکہ ذات باری تعالی یہ بھی پوچھے گا کہ " بے حیثت"انسان میں نے
تمھیں وہ قلم جس کی میں نے قسم کھائی ہے لوگوں کی مداح سرائی اور اپنے ذاتی
مفادکیلئے نہیں دی تھی- |