بچوں میں نافرمانی کا رجحان اور سدِباب

شعبہ ابلاغِ عامہ
فیڈرل اردو یونیورسٹی

بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے غفلت برتنا ایک سنگین معاشرتی جرم ہے

بچوں میں ضد اور ہٹ دھرمی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ والدین کی بات کو نہ ماننا ایک روّیہ بنا گیا ہے۔ عموماًبچے والدین کے باربار منع کرنے پر بھی شرارتیں کرنے، دوسرے بچوں کو تنگ کرنے ،مہمانوں کے سامنے بدتمیزی کرنے سے باز نہیں آتے۔

بچے بلاوجہ رونے لگیں، منہ پھیر کر لیٹ جائیں، جگہ چھوڑ کر چلیں جائیں یا منہ بسور کر بیٹھ جائیںتو فوراًپتا چل جاتا ہے کہ وہ غصے میں ہیں اور ان میں موجود غصہ والدین کی نا فرمانی کی وجہ بنتا ہے۔

ان حالات میں والدین کو طیش میں آّنے کی بجائے ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ آخر بچے ایسا کیوں کرتے ہیں۔ صرف اس صورت میں بچوں کی نافرمانی کی اصل وجہ اور تہ تشین محرکات کا پتہ چل سکتا ہے۔ ورنہ نافرمانی کا جواب غصے سے دینا حالات کو پیچیدہ بناتا ہے۔

وجوہات:
٭ ہمارے بچوں میں بڑھتی ہوئی نافرمانیوں کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں جاری مسلسل تبدیلیاں اور عمومی طرز زندگی میں بدلاﺅ ہے۔
٭ اس تیز رفتار زندگی میں والدین کے پاس بچوں کو دینے کے لئے معیاری وقت کی کمی ہے جس کی وجہ سے والدین اور بچوں کے درمیان بہترین تعلق اور اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہوپاتا۔ اور اس اعتماد کی کمی کے باعث وہ والدین کی باتوں کو رد کیے جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ نافرمانی کی عادت پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔
٭ ساتھ ہی بیرونی اثرات بچے کی صحبت بھی اس ضمن میں ایک وجہ ہے۔ عموماً والدین یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کے بچوں کے ساتھی کس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔
٭ والدین کی بچوں کے معاملات میں فعال دلچسپی میں کمی اس نافرمانی کا نتیجہ ہے۔
٭ اس کے علاوہ اعلیٰ درجے کے اسکولوں کا تجارتی بنیادوں پر کام اس کی بڑی وجہ بنتا ہے جہاں تربیت پر توجہ کم ہی دی جاتی ہے۔
٭ الیکٹرانک میڈیا بھی بچے کے اوپر اپنے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
٭ نا سازگار خاندانی حالات بھی بچے کے رویےّ کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔ بچے کے گِردوپیش کے معاشرتی حالات ، اس کا درونِ خانہ افراد سے تعلق میں بگاڑ۔ اس کی وجہ بنتے ہیں اگر بچے کے گھر گلی مدرسے کے اکثر لوگ لڑائی جھگڑوں اور فساد وغیرہ میں الجھے رہتے ہوں تو اس میں سرکشی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
٭ بنیادی مادی ضرورتوں کا پورا نہ ہونا بھی بچے کے رویےّ پر اثر انداز ہوتا ہے۔

بچوں کا گھر کے لوگوں ، محلے کے بچوں اور اسکول کے ساتھیوں سے ہر وقت الجھنا تشویش ناک ہے۔ جو کہ ان کے جذباتی عدم توازن اور جذباتی صحت سے محرومی کا واضح ثبوت ہے۔ بچے کی تربیت میں والدین کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ بچے کا گھر میں جو وقت گزرا ہوتا ہے اس کے اثرات عمر بھر اس کی شخصیت پر حاوی رہتے ہیں۔ لہذا بچوں کے کردار کو صحیح خطوط پر استوار کرنے اور نافرمانی کے رویےّ کو ختم کرنے کے لئے زیرِ نظر تجاویز نہایت مفید ہیں ۔

تجاویز:
بچّہ عمرِ طفولیت سے بلوغت تک نشونما کے مختلف منازل سے گزرتا ہے۔ ہر منزل کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ماہیرن کی رائے کے مطابق طرزِعمل اختیار کرکے رویّوں میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

٭ابتدائی عمر دو سے چھ سال تک کا عرصہ ہوتی ہے۔ یہ دور گھریلو ماحول اور اہل خانہ تک محدود ہوتا ہے۔ بچّہ عموماً ایسے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جو دوڑنے اور بھاگنے والے ہیں۔ وہ ایک جگہ خاموش بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ بہت جلد اکتاہٹ اور بوریت محسوس کرتا ہے۔ اس دور میں بچے کو کنٹرول کرنا خاصہ مشکل ہے۔ ضرورت ہے کہ بلا وجہ روک ٹوک نہ کی جائے۔ اس طرح خاص طور پر اس عمر کے بچوں میں ضد کا رجحان بڑھتا ہے۔

بچے کو کھیل میں مشغول رکھ کر نظم و ضبط کے ساتھ کچھ آزادی دی جائے۔ چونکہ بچے کی شخصیت کی تعمیر اس عمر میں بہت تیزی سے ہوتی ہے لہذا محبت میں اعتدال ، نیند اور خوراک کا خیال رکھنا نہیایت ضروری ہے۔ شروع دن سے ہی بچّے کے دل میں نصب العین پیدا کرنا اہم ہے۔

٭درمیانی عمر میں سات سے بارہ سال کے بچے شامل ہیں اس عمر میں بچّہ دنیا سے متعلق واضح فہم حاصل کرلیتا ہے۔ بے تحاشہ سوالات کر کے ہر چیز کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ والدین اکثر تنگ آکر بچے کو جھڑک دیتے ہیں جس کے ردِعمل کے طور پر بچہ والدین کی بات بھی سننے سے انکاری ہوجاتا ہے۔

اس عمر میں گھریلو ماحول ، کھیل کود کے ساتھی اور اسکول اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہذا نگرانی نہایت اہم ہے۔ اسکول اور اساتذہ کے کام کا دائرہ اور ان سے رابطہ ضروری ہے تاکہ یہ باہمی تعاون بچے کی انفرادی مسائل الجھنوں کو سمجھنے اور باہمی مشوروں سے ان کو حل کرنے کی کوشش کی جاسکے لیکن یہ عمل تقریباً ناپید ہو چکا ہے۔ والدین کا اساتذہ سے رابطہ ہی نہیں ہوتا۔ والدین فیس جمع کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سبگدوش ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی صحبت ، دوست ، احباب اور ہم جماعت کے اثرات سے بچانا ضروری ہے۔

(بچے کو گھر اور تعلیمی ادارے میں ایسی خوشگوار فضا ملنی چاہےے جو بچے کو مسرت اور شادبانی توازن اور مطابقت سے ہمکنار کردے۔)

٭قربِ بلوغت کا عرصہ تیرہ سے سترہ سال کا ہوتا ہے۔ یہ ذہنی پختگی کا دور ہے اس میں بچے بہت جذباتی ہوتے ہیں۔ معمولی نوعیت کی معاشرتی بے اعتدالیاں ، نا انصافیاں شدید ردِعمل پیدا کردیتی ہیں۔ اس عمر میں خاص طور پر بچے کی عزت نفس کو مجروح کرنے سے گریز کیا جائے۔ اس دور میں بچوں کو خاص طور پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ پریشان نہ ہوں اور منفی سوچوں سے بچے رہیں۔ ان کی تخلیقی قوتوں کو سائنس ، مصوّری اور موسیقی جیسے وسیع میدانوں میں مصروف کر دینا چاہیے تاکہ خلافِ معاشرہ حرکات کے لئے ذہن بے کار نہ رہے۔ یاد رکھےے بلوغت کا وقت بہت حساس ہوتا ہے۔ اس میں بچوں کی خاص طور پر باپ سے دوستی اور رہنمائی بہت ضروری ہے ۔ تاکہ اس دوستی کی بنیاد پر بچے والدین کی باتوں کو رَد نہ کریں۔

عمومی اقدامات:
بچے چاہے جس عمر سے تعلق رکھتے ہوں چند عمومی اقدامات ایسے ہیں جن کا مشترکہ طور پر اپنا یا جانا ضروری ہے۔ معمولی باتوں میں بچے کو انتخاب کی آزادی اور فیصلے کا شعور دینا چاہیے۔ رہنمائی کرنے والوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنا فیصلہ بچے پر مسلط کریں۔ فیصلوں اور نتائج کے بارے میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا پہلا قدم ہے تاکہ خود اعتمادی پیدا کی جا سکے۔ جب روزِ اوّل سے بچوں میں صحیح اور غلط کا شعور پیدا کر دیا جائیگا تو اپنے غلط اقدام پر ان میں شرمندگی بھی پیدا ہوگی۔ بچوں کو بتایا جائے کہ معاشرتی اقدار کیا ہیں تربیت سے اُسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور اپنے کردار کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو جائیں۔

مثبت سرگرمیوں کی تلاش، منفی سرگرمیوں سے با خبر رہنا اور منفی سرگرمیوں کی مُذّمت کرنا والدین کا فرض ہے بچے کی جذباتی تعلیم و تربیت اور فرمانبرداری کا جذبہ پیدا کرنے کا ایک سنہری اصول یہ بھی ہے کہ والدین اور اساتذہ خود اپنی جذباتی زندگی میں صحت اور توازن کا ہمہ وقت خیا ل رکھیں۔ اگر رہنمائی کرنے والوں کی اپنی زندگی خلش ، اضطراب ، محرومیت ، تلخ کلامی ، لڑائی جھگڑوں اور بد مزگیوں سے پاک ہوگی تو بچے کی جذباتی زندگی میں بھی صحت اور توازن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اختتامیہ:
بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے غفلت برتنا ایک سنگین معاشرتی جرم ہے اگر ان پر بر وقت توجہ نہ دی جائے تو وہ بڑے ہو کر اپنی ذات ، اپنے خاندان ، سارے معاشرے بلکہ بسا اوقات پوری دنیا کے لیے باعثِ زحمت بن جاتے ہیں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 312007 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.