آندھی ائی ، طوفان آیا ، سیلاب
آیا ، زلزلہ بھی آگیا جمہوریت کے نام پرعوام کو کئی جھٹکے دئیے گئے مگر ۔ ۔
۔ ۔ صبر و استقلال کی پیکر یہ پاکستانی قوم نہ ٹوٹی نہ بکھری بلکہ جب جب
وقت آیا اپنی تمام تر مصروفیت چھوڑ کر پاکستان کے نام پر ایک ہو ہی گئی اور
اپنے وطنِ عزیز سے محبت کا اظہار کیا مگر ۔ ۔ ۔ ۔ دشمنانِ پاکستان کو یہ
بات بالکل پسند نہیں کہ ہم ایک ہو کر رہیں وہ ہمیں توڑنے کی ناپاک سازشیں
کرتا ہی رہتا ہے کبھی لسانیت کے نام پر لڑواتا ہے تو کبھی مذہب کے نام پر
یہ مسلک اور مذاہب پہلے بھی تھے مگر حالات ایسے خراب نہیں ہوا کرتے تھے مگر
جوں جوں وقت گزر رہا ہے توں توں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں منفارت کی ایک
فضا ایسی قائم کردی گئی ہے کہ اب کوئی ایک دوسرے کا غمگسار نہیں بنتا بلکہ
بھائی بھائی کا خون پی رہا ہے گویا۔۔۔۔
انسان انسان کو ڈس رہا ہے
سانپ دیکھ کر ہنس رہا ہے
ان نامساعد حالات میں بھی آج وہ سندھی ہے ، وہ پنجابی ہے ، وہ پٹھان ، وہ
بلوچ ہے ، وہ مہاجر تو ہے مگر آج کوئی پاکستانی نہیں کہتا اپنے آپ کو
۔۔۔۔۔۔ کیا دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے ؟ ذرا سوچئیے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سن 1947 میں ایک قوم کو ایک وطن کی ضرورت تھی مگر آج ایسا وقت آگیا ہے کہ
ایک وطن کو ایک قوم کی ضرورت ہے ۔۔۔
ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کو معرضِ وجود میں لانے کی کوششیں کرنے والے اور
قربانیاں دنیے والے اگرچہ سندھی پنجابی پٹھان بلوچ مہاجر اور دیگر زبانوں
سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کا مشن صرف ایک وطن تھا لہٰذا وہ اس میں کامیاب
ہو گئے-
خان لیاقت علی خان نے اپنے آخری وقت میں جو الفاظ کہے تھے (اللہ پاکستان کی
حفاظت فرمائے ) لگتا ہے کہ وہ قبولیت کی گھڑی تھی اور وہ دعا قبول ہو گئی
ہو گی جبھی تو آج ان حالات میں بھی پاکستان قائم ہے کیونکہ اس ملک کو اللہ
اور اس کے رسول کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ( گو کہ ابھی تک یہاں ایسا کچھ
ہوتا نظر نہیں آرہا مگر پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ )اگر کوئی اور ملک
ہوتا تو کب کا ختم ہو چکا ہوتا ۔
اب ہمیں چاہئے کہ ہم ایک قوم بن کر پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا
کریں اور اس میں اپنا کوئی نفع نقصان پیشِ نظر نہ رکھیں -
جس کا عمل ہو بے غرض
اس کی جزاء کچھ اور ہے |