مسلم اقلیتوں کو جتنا نقصان مسلم
اقلیتی اداروں نے پہنچایا ہے کسی اور نہیں پہنچایا
”اقلیت“ یہ لفظ جوں ہی زبان پر آتا ہے ذہن میں ایک ایسا معاشرہ یا قبیلے کی
تصویر بنتی ہے جس میں مذکورہ قبیلہ ،معاشرہ یا فرد واحد ترقی کے اس دور میں
پچھڑا ہو، چاہے وہ معاشی، سماجی یا تعلیمی ہی کیوں نہ ہو۔ حکومت ایسے افراد
قبیلہ یا معاشرہ کی معاشی، تعلیمی ، سماجی ترقی کو دور جدید کے تقاضوں کو
پورا کرنے کے ساتھ ساتھ شانہ بشانہ چلنے کے لئے ہر طرح کی امداد فراہم
کرواتی ہیں۔ یعنی اقلیتوں کو سطح غریبی سے اوپر لانے کے لئے، تعلیمی میدار
میں اعلی و ارفع کامیابیوں کیلئے دوسری اقوام اور برادیوں کے ساتھ ترقی کے
عمل میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنا زبردست روپیہ خرچ
کرکے کیا حکومت کو مطلابہ مقصد(آوٹ پٹ) حاصل ہوتا ہے۔ یقینا اس سوال کا
جواب” نہیں“ میں ہوگا۔حکومت کو اپنا مقصد مکمل طور پر کیوں حاصل نہیں ہوتا
غور طلب امر ہے۔
پنچ سالہ منصوبے میں اقلیتوں کے لئے بڑی بڑی اسکیمیں بلاسودی یا کم شرح سود
پر بڑے بڑے قرض اور خاص طو رپر حکومت کی تعلیم کے نام پر بیش بہاد ولت خرچ
کرنا اس بات کی غماز ہے کہ حکومت اقلیتوں کی ترق کے لئے سنجیدہ ہے۔۔ مگر
کیا یہ روپیہ اور پیسہ واقعی اقلیتوں پر خرچ ہوتا ہے؟ ابھی تک کتنے فیصد
اقلیتی سطح غرب سے اوپر اُٹھے ہیں؟ اب تک کتنی فیصد اقلیت تعلیم کے میدان
میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں؟ سچ تو یہ ہے مسلم اقلیت کو جتنا مسلم
اقلیتی اِداروں نے نقصان پہنچایا ہے کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے
کہ اقلیتی اداروں کے منتظمین حکومت کے پاس اقلیتوں کا رونا رو کر کروڑوں
روپے کی امداد وصول کرکے حکومت کو چونا لگا رہے ہیں۔ ان لوگوں سے حساب کتاب
پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اپنا من مانا کاروبار چلا رہے ہیں۔ ان کے منہ سے
نکلا ہوا لفظ ادرے میں ”حکم“ کا درجہ رکھتا ہے۔ اقلیتی ادارے جونیئر کے جی،
سینئر کے جی سے لے کر بی کام، ایم کام کے علاوہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ
کورسس چلاتے ہیں۔ اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو تمام عہدوں پر
منتظمین کے رشتے دار، دوست احباب ہی نظر آتے ہیں۔ حتی کہ اقلیتی اداروں میں
ملازمین بھی منتظمین کے رشتے دار اور اقربا ہی ملیں گے۔ سورج لے کر ڈھونڈنے
پر بھی کسی غریب (اقلیت) کا بچہ آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ کیونکہ یہاں خالی
اسامیاں اپنے رشتے داروں سے پہلے پُر کر لی جاتی ہے۔ بعد میں حکومت کی
آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اخبارات میں جب اشتہارات دے کر انٹرویوز کا
ڈرامہ کیا جاتا ہے۔ یہ تعلیمی مافیا حکومتی اسکیموں کو اقلیت کے نام پھر
وصول کرکے اپنا ذاتی فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ اقلیت کے
غریب بچے مزدوری کے ساتھ اپنی تعلیم کو جاری رکھ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ تو
ہوجاتے ہیں مگر نوکری کے نام پر موٹی رقم نہ ہونے کے سبب غربت سے نیچے آکر
ظالم پیٹ کے لیے مزدوری کرنے لگتے ہیں۔ اور اقلیتوں کے کروڑ پتی باپ کی
نکمی اولادیں اثر و رسوخ اور پیسوں کے بل پر بڑی بڑی ڈگریوں کو اپنے کاندھے
میں سجائے باپ داداؤ کے اقلیتی تاج محل میں داخل ہوکر شاہی فرمان تک جاری
کردیتے ہیں۔ ایک فقیر اللہ کے نام پر بھیک مانگ کر اپنا اور اپنے بچوں کا
پیٹ پالتا ہے۔ آپ تو اس سے بھی بدتر ہو کہ حکومت سے اقلیت کے نام پر بھیک
مانگ کر آپ اپنے ساتھ اپنی آل اولاد کو بھی کروڑ پتی بنا رہے ہو۔
کسی مسلم اقلیتی اِدارے میں آپ اپنے بچوں کا ایڈمیشن کروانے میں کامیاب
ہوگئے تو گویا دنیا میں ہی جنت حاصل کرلیا۔ کیونکہ جوں ہی بچوں کو لے کر آپ
اسکول پہنچتے ہیں فوراً آپ سے بلڈنگ فنڈ کے لیے، سیمنٹ کی بوری، سریہ، لوہا
کے گیج یا اسکول کی عمارت کے نام پر ہفتہ وصولی کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔
منتظمین پر منحصر ہے کہ آپ کو کتنا ذبح کرتے ہیں۔ کسی طرح اگر یہ مرحلہ
بخیریت و عافیت گزرا تو سالانہ فیس کی وصولی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ مرحلہ بھی
گزر گیا تو اسٹیشنری کے نام پر آپ کی بچی کچی پونجی بھی لوٹ لی جاتی ہے۔
اگر آپ کو اللہ نے طاقت اور حوصلہ دیا اور آپ نے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم
دلوانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر نوکری کے نام پر آپ سے لاکھوں روپیوں کی
حصولیابی کے لئے قصائی کی طرح منتظمین اپنے اپنے چھرے میں دھار لگانے لگتے
ہیں گویا آپ نے اپنے بچوں کواقلیتی ادارے سے وابستہ کرنے کے بعد لمحے کی
خطا کرکے صدیوں سزسا پانے کے مستحق ہوگئے۔ اب آپ کا آپ کا اپنا تعلیم یافتہ
بچہ آپ کوبچائے دادوتحسین سے نوازنے کے، آپ سے شکوہ شکایت کرتا ہے کہ آپ نے
مجھے تعلیم کیوں دلوائی؟ کاش میں محنت مزدوری میں آپ کا ہاتھ بٹاتا۔ یہ
المیہ ہے غریب گھرانوں کے روشن چشم چراغوں کا۔حکومت تعلیم کے نام پر کروڑوں
روپئے خرچ کر رہی ہے۔ اور یہ حرام خور مسلم اقلیت کے نام پر حکومت اور
اقلیتیں دونوں کو چاروں ہاتھوں پاووں سے لوٹ رہے ہیں۔
آخر کب بندگا اقلیتوں کو لوٹنے کا گورکھ دھندہ؟ آخر کب تک ہوتا رہے گا
اقلیتوں کا استحصال؟ آخر کب تک اقلیتوں کے نام پر حکومت کو چونا لگاتے رہیں
گے؟ آخر کب ملے گا اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق؟ کب بند ہوگا تعلیم مافیا کا
راج؟ کب تک چلے گی تعلیم مافیا کی غنڈہ گردی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر غریب
ہندوستانی سوچتا ہے مگر اس کاحل۔۔۔۔ندارد۔۔۔۔؟
ہونا تو یہ چاہئے جتنے مسلم اقلیتی ادارے حکومت کو لوٹ رہے ہیں ان کا حساب
کتاب سختی سے لیا جائے۔ اقلیتی اداروں میں جو حضرات براجمان ہیں ان کی
قابلیت، ان کی اقلیت نوازی ، ان کی اقرباءپروری کی جانچ کئے جائے، جو ادارے
گرانٹ پا رہے ہیں گرانٹس کا صحیح استعمال ہو رہا ہے یا نہیں؟ اس کا خلاصہ
کسی غیر جانبدار ایجنسی سے کروایا جائے۔ جو ادارے گرانٹ کا مطالبہ کر رہے
ہیں ان کا بھی محاسبہ کیا جائے کہ ان اداروں میں منتظمین کے رشتہ دار کتنے
ہیں؟ کیا یہ ادارے واقعی اقلیتوں کے تئیں ایماندار ہیں؟ حکومت کے بتائے
اصولوں پر کاربند ہیں؟ اگر ان تمام سوالوں کے جوابات مثبت ہیں تو یقینا ہم
ان مسلم اداروں کی اقلیت نوازی پر ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔بصورت دیگر
حکومت مہاراشٹر اور مرکزی حکومت کو اقلیتوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرنے والے
اداروں کو نہ صرف بند کر دیا جائے بلکہ ان کے منتظمین کو قرار واقعی سزا دے
کر تمام ہندوستانیوں کے لئے باعث عبرت بنا دیا جائے۔ تاکہ ایجنٹ مافیا کا
راج ختم ہو اور حکومت کی تمام اسکیموں کا سیدھا فائدہ اقلیتوں کو ملے۔ |