ماہِ صفرالمظفر کے آخری چہار
شنبہ(آخری بدھ)سے متعلق عوام میں بہت سے غلط رجحانات اور توہمات پائے جاتے
ہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دن آفات و بلیات کا دن ہے،کچھ لوگ اس دن کے
بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ اس دین آقاے دوجہاں روحی فدا صلی اﷲ علیہ
وسلم نے مرض سے شفا پائی تھی اسی لیے اس دن سیر و تفریح کی جاتی ہے،اس
مہینے میں نکاح و شادی کو بُرا جانا جاتاہے،وغیرہ وغیرہ۔حال آں کہ اسلامی
نقطۂ نظر سے ان کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ متعدد علماومشایخ نے ان نظریات کی
تردید کی ہے۔امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں:’’صفر کے مہینے کے آخری بدھ کی اسلام میں کوئی خصوصیت نہیں۔‘‘(فتاویٰ
رضویہ جلد ۱۰۔بحوالہ غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح،ص۔۱۳۶۔از:مولاناتطہیر
احمدرضوی بریلوی)ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں:نکاح (محرم و صفر یا)کسی
مہینے میں منع نہیں یہ غلط مشہور ہے۔(کہ ان مہینوں میں نکاح کرنا منع
ہے)(الملفوظ،ص۔۳۶)
مذکورہ باتوں سے آخری بدھ کی شرعی حیثیت واضح ہوجاتی ہے……ماہِ صفر کے آخری
عشرے سے متعلق چند سطور پیشِ قارئین ہیں…… اس ماہ کے آخری عشرے کو ان دو
عظیم المرتبت شخصیات سے نسبت و تعلق ہے جن کی مجاہدانہ،عالمانہ،مصلحانہ اور
مجددانہ خدمات کا سکہ آج بھی عالَمِ اسلام میں چل رہا ہے،جنہوں نے تاریخ
اور زمانے پراپنے اثرات مرتب کیے،اربابِ اقتدارکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کرکلمۂ حق بلند کیا،اشاعتِ اسلام کے لیے جنہوں نے ناقابلِ فراموش کارنامے
انجام دیے،عوام و خواص کی اصلاح کی،دین کی اعلیٰ ترین قدروں کی حفاظت
کی،اسلامی افکار و نظریات پر خارجی حملوں کادنداں شکن جواب دیا،جنہوں نے
اسلام کی اعتقادی اور فکری سرحدوں کی پاس بانی و نگہ بانی کی،جن کے بارے
میں اقبالؔ نے کہا تھا
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہ باں
اﷲ نے بر وقت کیا جس کو خبر دار
جن کی زندگیاں رضاے الٰہی عزوجل اور رضاے مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے
وقف تھیں،اور اس شعر میں ان کے کردار و عمل اور افکار کو محسوس کیا
جاسکتاہے
کام وہ لے لیجیے تم کوجو راضی کرے
ٹھیک ہو نامِ رضاؔ تم پہ کروروں درود
دونوں شخصیات اسلامی تاریخ اور اسلام کے معتقدات کے ضمن میں’’یقین کے دو
ماہِ مبیں‘‘کی حیثیت رکھتی ہیں۔ایک ذات گرامی کو دنیا آج مجدد الف ثانی شیخ
احمد فاروقی سرہندی اور دوسری ذات گرامی کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ محدث
بریلوی کے نام سے یاد کرتی ہے۔(علیہماالرحمہ)……دونوں شخصیات کی حیات و
کارنامے اور دینی و علمی خدمات کواسلامی تاریخ کابڑا ہی روشن باب
کہاجاسکتاہے۔ان کے احسانات سے مسلمان سر نہیں اُٹھا سکتے،سمتوں میں پھیلی
ان کی خدمات سے ہمیشہ فیض حاصل کیا جاتا رہے گا۔
حضرت مجدد الف ثانی کی تاریخِ وصال ۲۸؍ صفرالمظفر ۱۰۳۴ھ ہے اور امام احمد
رضاؔ کی تاریخِ وصال ۲۵؍ صفرالمظفر۱۳۴۰ھ ہے…… دونوں میں قدرِ مشترک کے طور
پر کئی باتیں پائی جاتی ہیں مثلاً دونوں کے اسماے گرامی ’’احمد‘‘ ہیں۔مجدد
الف ثانی کی ولادت۹۷۱ھ میں ہوئی جبکہ امام احمد رضاؔ ۱۲۷۲ھ میں
پیداہوئے۔اسی طرح دونوں کے سن وصال میں۰،۱،۳ اور ۴ مشترک ہے۔دونوں نے بدعات
کا رد کیا،مسلک اہل سنت کے عقاید و نظریات کی حمایت میں کتب و رسائل تصنیف
کیے۔مکاتیب کے ذریعے عوام و خواص کی اصلاح کی۔ مکتوباتِ امامِ
ربانی۔از:مجدد الف ثانی کی تین جلدیں ہیں اور کلیاتِ مکاتیبِ رضاؔ کی بھی
تین جلدیں ہیں۔مجدد الف ثانی کو سب سے پہلے ’’مجددِ ہزارۂ دوم‘‘یعنی ’’مجدد
الف ثانی‘‘حضرت مولانا محمد عبدالحکیم سیال کوٹی نے کہا تھااور ان کے نبیرہ
حضرت مولانا محمد ضیاء الدین مہاجر مدنی امام احمد رضاؔ کے ارشد خلیفہ
ہیں۔دونوں نے دہریت کا رد کیا، دونوں نے عظمت توحید اجاگر کی، دونوں نے
عظمت رسالت کے لیے اعلیٰ مواد پیش کیے۔
اب ضرورت ہے کہ ان مجددین کی تعلیمات پر عمل کی تحریک پیدا کی جائے۔ ان کی
تعلیمات میں بڑی جامعیت اور گہرائی و گیرائی ہے۔ |