احکام شریعت (مسائل اور جوابات) نکاح سوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثر یت احادیث طیبات کو امام اعظم امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی
تشریحات کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور فقہ حنفی سے منسلک ہیں بلکہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت بھی فقہ حنفی سے ہی تعلق رکھتی ہےجبکہ بعض ممالک میں فقہ شافعی اور فقہ حنبلی و مالکی کے متعلقین کی ہیں اور چاروں ہی مسالک حق پر مبنی ہیں ان کے آپس کے اختلافات فروعی حد تک ہیں اور ہر امام کے پاس اپنے مسلک پر قرآن واحادیث سے دلائل موجود ہیں اور چونکہ ہماری ویب بھی پاکستانی سائٹ ہے اور اس سائٹ کے آرٹیکل کے قارئین کابالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق برصغیرپاک و ہند سے ہےلہذا اس کالم میں فقہ حنفی کی رو سے شریعت مطھرہ کے مسائل ذکر کیے جاتے ہیں لہذا اگر کوئی مسلمان کسی اور فقہ سے تعلق رکھتا ہو یا فقہ حنفی کے مسائل سے اختلاف رکھتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ اس مقام پر اختلافی مسائل کو ذکر نہ کرئے کیونکہ اس مقام پر طرفین سے اپنے موقف پر دلائل کے انبار لگانا اوربحث و مباحثہ کرنا یہ عوام الناس کومسائل سیکھنے کے بجائے الجھانے کے مترادف ہے جس کا یہ محل نہیں ہے اور ویسے بھی ہمارا مقصد کسی سے بحث و مباحثہ کرنا اورکسی کو نیچا دیکھانا نہیں ہے بلکہ حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھائیوں تک علم دین کے مسائل آسان طور پرپہنچانا ہے۔ اللہ تبارک وتعالی ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے ۔آمین

اور اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی سائل محترم کسی ایسے مسئلہ کے بارے میں استفسار کرئے کہ جوچاروں مسلک کے فقہائےکرام کے مابین اختلافی ہو تو اس مسئلے کا جواب فقہ حنفی کی رو سے دیا جائے گا۔

اصطلاحات:
خلوت صحیحہ: یعنی میاں بیوی ایسے مکان میں ہوں جہاں ہمبتری کرنے سے کوئی چیز رکاوٹ نہ ہو
اگر شوہر بیمار ہو یا بیوی ایسی بیمار ہے کہ آپس کے تعلقات قائم کرنے سے ضرر کا صحیح اندیشہ ہو۔
یا پھر عورت کے ایام ماہواری جاری ہو یا زوجین میں سے کوئی حالت احرام میں ہو یا پھر کوئی تیسرا فرد وہاںموجود ہو کہ جس کی وجہ سے ہمبستری کرنا ممکن نہ ہو تو خلوت صحیحہ نہیں ہوگی ۔

مہر مثلی : یعنی اس لڑکی کے خاندان میں جو لڑکیاں اخلاق وعادات اورحسن وجمال اور عمر میں میں اس لڑکی کی مثل ہونگی ’’مثلا اس کی اپنی بہنیں یا چچا تایا کی بیٹیاں ‘‘تو جتنا حق مہر ان کاطے ہوا ہوگا اتناہی یہاں اس لڑکی کا بھی ہوگا۔

دس درہم : یعنی موجودہ دور کے ترازو کے حساب سے 30.618گرام(2.625تولہ) چاندی ہے۔

سوال نمبر۱: مہر معجل اور مہر موجل سے کیا مراد ہے
جواب:مہر کی دو قسمیں ہیں (۱) معجل (۲) مؤجل۔
مہر معجل کامطلب ہے کہ جس کی ادائیگی نکاح میں فی الفورٹھہری ہو(یعنی پیشگی مہر دینا قرار پایاہو) اوراس صورت میں عورت کو مہر کے مطالبہ کا حق حاصل ہوتاہے اور اسکی عدم ادائیگی کی صورت میں عورت شوہرکواپنے قریب آنے سے روک سکتی ہے۔

مہرمؤجل کامطلب ہے کہ جس کی ادائیگی کی کوئی مدت بیان کی جائے مثلاًپانچ ،دس،بیس سال یاجوبھی میعاد ذکرہو ،لہذاجب وعدے کا وقت آجائیگا اس وقت واجب الادا ہو گا،یعنی اس سے پہلے عورت اسکا مطالبہ نہیں کرسکتی شوہر کی مرضی پر ہے کہ وہ جب چاہے ادا کرئے،اوراگرکوئی میعادمقررنہ ہوتو یہ مہرموت یاطلاق کی صورت میں ہی واجب الاداہوتاہے لیکن اگر پہلے ادا کردیا جائے تو یہ بھی درست ہے۔

سوال نمبر۲: اگر کسی نے اپنی بیوی کا حق مہر ادا نہیں کیا اس صورت میں شوہر کا یا بیوی کا انتقال ہو جائے تو کیا حق مہر معاف ہوجائے گا؟
جواب :زوجین میں سے کسی ایک کے انتقال سے حق مہر ساقط نہیں ہوتا ہے بلکہ انتقال زوجین سے تو مہر لازم ہوجاتا ہے اگرچہ زوجین کے مابین میاں بیوی والے تعلقات قائم نہ بھی ہوئے ہوں جتنا مہر مقرر کیا تھا تمام کا دینا ضروری ہوجاتا ہے اور اگر مہر ادا کرنے کی کوئی مدت مقرر تھی تو اگرچہ وہ ابھی نہ آئی ہو موت کے بعد مہر فورا ادا کرنالازم ہوجاتا ہے تو شوہر کی موت کی صورت میں شوہر کے مال سے تجہیز وتکفین کے بعدیعنی میت کو غسل ،کفن دفن دینے کے بعد قرضہ اورعورت کا مہر ادا کیا جائے گا پھر اگر کسی غیر وارث کے لئے وصیت ہو تو اسکو تہائی مال میں سےنافذ کریں گے پھر وارثین میں میراث تقسیم ہوگی۔

اور عورت کی موت کی صورت میں شوہر عورت کے وارثین کو حق مہر کی رقم ان کے حصے کے مطابق ادا کرئے گا ۔

سوال نمبر۳: اگر کسی نے شریعت محمدی کے حساب سے حق مہر مقرر کیا تو اس کو کتنا حق مہر ادا کر نا ہوگا؟
جواب:اگر بوقتِ نکاح یہ کہا کہ حق مہر ’’شرع محمدی ‘‘ہوگا تو پھران لوگوں کے عرف کو دیکھا جائے گا کہ شرع محمدی سے وہ کس مہر کا ارادہ کرتے ہیں اگر تو ان کی اس سے مراد مہر کی کم ازکم مقدار دس درہم چاندی ہو جوکہ موجودہ دور کے ترازو کے حساب سے 30.618گرام(6252.تولہ) چاندی ہے تو پھر اسی کا اعتبار کیا جائے گا اور یہی حق مہر سمجھا جائے گا

اور اگران لوگوں کی اس سے مراد سیدہ فاطمہ زہرہ کا مہر ہو تو پھر چارسومثقال یعنی (150)تولہ چاندی حق مہر ہوگا
اور اگر حق مہر طے کر تے وقت ان میں سے کوئی مقدارفریقین کے ذہنوں میں نہیں تھی تو پھر لڑکی کے خاندان میں جو لڑکیاں اخلاق وعادات اورحسن وجمال اور عمر میں میں اس لڑکی کی مثل ہونگی ’’مثلا اس کی اپنی بہنیں یا چچا تایا کی بیٹیاں ‘‘تو جتنا حق مہر ان کاطے ہوا ہوگا اتناہی یہاں اس لڑکی کا بھی ہوگا۔

سوال نمبر۴: اگر حق مہر ر مقرر کرنا کسی وجہ سے نکاح میں رہ جائے تو کیا نکاح پر کوئی اثر واقع ہوگا یا نہیں نیز ایسے میں میاں بیو ي کا آپس میں تعلقات رکھنا شرعا درست ہے یا ناجائز ہے ؟
جواب :نکاح ہوجائے گا نکاح پر کسی طرح کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور زوجین کا آپس میں تعلق رکھنا بھی ناجائز نہیں ہے اور بعد خلوت صحیحہ یا ہمبستری یا وفات کے بعد مہر مثلی دینا لازم ہے یعنی اس لڑکی کے خاندان میں جو لڑکیاں اخلاق وعادات اورحسن وجمال اور عمر میں میں اس لڑکی کی مثل ہونگی ’’مثلا اس کی اپنی بہنیں یا چچا تایا کی بیٹیاں ‘‘تو جتنا حق مہر ان کاطے ہوا ہوگا اتناہی یہاں اس لڑکی کا بھی ہوگا۔

سوال نمبر۵: مہر مقرر نہیں تھا اور ہمبستری اور خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق دیدی تو کیا مہر دیا اب بھی لازم ہوگا؟
جواب: اس صورت میں عورت کو ایک جوڑا کپڑا یعنی کرتا ، پاجامہ اور دوپٹادیاجا ئے گا جن کی قیمت مہر مثلی کے نصف یعنی آدھے سے زائد نہ ہو اور اگر ان کی قیمت زائد ہو تو پھر مہر مثل کی نصف قیمت دیدی جائے گی۔

سوال نمبر۶: جس عورت کا مہر دس درہم چاندی کی قیمت سے کم ہو تو کیا یہ مہر درست ہے مثلا فی زمانہ اگر کسی نے ۲۰۰۰ ہزار روپے مہر مقرر کیا تو شرعا کیا حکم ہے ؟
جواب: کیونکہ فی زمانہ دس درہم چاندی کی رقم دو ہزار سے زائد ہے لہذا اگر کسی نے دس درہم چاندی کی رقم سے کم مہر مقرر کیا جیسا کہ فی زمانہ دوہزار روپے تو ایسی صورت میں مہر دس درہم کی قیمت کا مہر ادا کرنا ہوگا جو کہ 30.618گرام((2.625تولہ) چاندی ہے.

قاعدہ کلیہ
مہر یا تو مقرر شدہ ہوگا یا پھر نہیں
(1) پھراگر مہر مقرر ہے مگر دس درہم سے کم تو پھر اسکو دس درہم ہی شمار کیا جائے گا
تو اگر مہر مقرر ہے تو خلوت صحیحہ یاہمبستری کے بعد طلاق دے یازوجین میں کسی ایک کی وفات ہوجائے تو جو مقرر ہوا وہ پورا دینا ہوگا ۔ اور دس درہم سے کم مقرر کی صورت میں پورے دس درہم دینے ہونگے۔
اور اگر ہمبستری اور خلوت صحیحہ سے پہلے ہی طلاق دیدی تو جو مہر مقرر کیا تھا اس کا آدھا دینا ہوگا۔
اور دس درہم سے کم مقرر کی صورت میں پانچ درہم ۔

(2) اور اگر مہر مقرر نہیں تھا
تو خلوت صحیحہ یاہمبستری کے بعد طلاق دے یازوجین میں کسی ایک کی وفات ہوجائے تو مہر مثلی دینا ہوگا۔
اور اگر خلوت صحیحہ یاہمبستری سے قبل طلاق دیدی تو اس صورت میں عورت کو ایک جوڑا کپڑا یعنی کرتا ، پاجامہ اور دوپٹادیاجا ئے گا جن کی قیمت مہر مثلی کے نصف سے زائد نہ ہو۔

سوال نمبر۷: حق مہر آج سے تقریبا ۳۰ سال پہلے ۵۰۰ روپے مقرر ہوا تھا اب شوہر کا انتقال ہوگیا ہے تو بیوی کو حق مہر کس حساب سے ملے گا؟
جواب: جو مہر مقرر کیا تھا وہی دیا جائے گا البتہ احتیاط کی صورت یہ ہے کہ جب نکاح کیا جارہا ہو تو مہر میں قیمت مقرر کرنے کے بجائے سونا چاندی رکھاکیا جائے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ اگر کرنسی کی ویلیو کم بھی ہوجائے تو عورت کو ضرر نہ ہو۔

سوال نمبر ۸:اگر شوہر بیوی سے حق مہر معاف کرالے تو کیا معاف ہوجائے گا کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ خاندان کے بڑے دلہن پر یہ زور دیتے ہیں کہ حق مہر معاف کردینا اور شوہر کو بھی یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ حق مہر معاف کروالیناان کا شرعا ایسا کرنا کیسا ہے؟
جواب : اگرعورت اپنی رضامندی سے کل مہریااس کاکچھ حصہ شوہرکومعاف کردے تووہ معاف ہوجاتاہے لیکن اسے اس بات پرمجبورکرناکہ مہرمعاف کردے یہ سراسرظلم اورناانصافی ہے۔اللہ تعالی ارشادفرماتاہے:
’’وَآتُواْ النَّسَاء صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً‘‘
ترجمہ کنزالایمان:’’اورعورتوں کے ان کے مہرخوشی سے دو پھراگروہ اپنے دل کی خوشی سے مہرمیں تمہیں کچھ دے دیں تواسے کھاؤرچتاپچتا‘‘۔ [النساء:۲۴]۔
صدرالافاضل سید محمدنعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:’’عورتوں کواختیارہے کہ وہ اپنے شوہروں کومہرکاکوئی جزوہبہ کریں یاکل مہر،مگربخشوانے کے لئے انہیں مجبورکرناان کیساتھ بدخلقی کرنانہ چاہئے کیونکہ اللہ تعالی نے’’ طِبْنَ لَکُمْ‘‘فرمایاجس کے معنی ہیں دل کی خوشی سے معاف کرنا‘‘۔
ایک اورمقام پرارشادباری تعالی ہے :
’’ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیْضَۃً وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْْتُم بِہِ مِن بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْماً حَکِیْماً‘‘
ترجمہ کنزالایمان:’’توجن عورتوں کونکاح میں لاناچاہوان کے بندھے ہوئے مہرانھیں دو اورقراردادکے بعداگرتمہارے آپس میں میں کچھ رضامندی ہوجائے تواس میں گناہ نہیں،بے شک اللہ علم وحکمت والاہے‘‘ ۔[النساء:۲۴]۔
صدرالافاضل سید محمدنعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:’’خواہ عورت مہرمقررہ شدہ سے کم کردے یابالکل بخش دے یامردمقدارمہرکی اورزیادہ کردے‘‘۔

حدیث پاک میں ہے کہ
وأيما رجل تزوج امرأة على صداق ولا يريد أن يعطيها فهو زان
جو شخص کسی عورت سے نکاح کرئے اور نیت یہ ہو کہ عورت کو مہر نہ دیگا تو وہ زانی ہے
السنن الکبری للبیہقی

خلاصہ کلام یہ کہ خاندان کی بڑی عورتوں کایہ طریقہ بالکل غلط اوراس بننے والی دلہن کیساتھ سراسرظلم وناانصافی ہے کیونکہ حق مہراس عورت کاحق ہے اس کی مرضی چاہے تووہ کل معاف کرے یاکچھ حصہ یابالکل ہی نہ کرے لیکن اسے اس بات پرکوئی مجبورنہیں کرسکتا ،ہاں اسے مشورہ دے سکتے ہیں،لہذا خاندان کے مردوں اورعورتوں پرلازم ہے کہ اس غلط رواج کاخاتمہ کریں ۔واللہ تعالی اعلم بالصواب
mufti muhammed bilal raza qadri
About the Author: mufti muhammed bilal raza qadri Read More Articles by mufti muhammed bilal raza qadri: 23 Articles with 71720 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.