محترم قارئین ۔۔۔۔آپ اور میں ہم
سب جب تنہائی میں بیٹھتے ہیں تو جہاں اپنی اچھائیاں نظر آتی ہیں وہاں اپنے
غلطیوں کی جانب بھی ذہن جاتاہے ۔فلاں جگہ میں نے یہ کیا فلاں جگہ یہ ۔۔آہ !اب
کیا ہوگا۔میری دنیا بھی گئی آخرت بھی گئی ۔۔۔اف میرے مالک !!!!!اب
میراکیاہوگا۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔مانا کہ ایک طبقہ بالکل باغی ہوچکاہے ۔جسے
برائی برائی ہی نہیں لگتی بلکہ وہ اپنے زعم میں چالاک ،تیز اور
ہوشیارہے۔لیکن ایک وہ طبقہ بھی ہے جسے اپنے کیے پر ندامت و پشیمانی بھی ہے
۔اور اس پر کڑتے و گریہ وزاری بھی کرتے ہیں ۔ہم انہی کی بات کرتے ہیں ۔ایک
مرتبہ درود پاک پڑھ لیجیے ۔۔تاکہ درود پاک کی برکت سے ہمارے سینہ کازنگ دور
ہوجائے اور حق و صداقت کی بات ہمارے دل میں گھر کرجائے ۔چنانچہ سرکارِمدینہ،
راحتِ قلب وسینہ، صاحبِ معطَّرپسینہ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ
وَسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''اے لوگو! بے شک بروزِ قِیامت اسکی دَہشتوں
اورحساب کتاب سے جلد نَجات پانے والا شخص وہ ہوگا جس نے تم میں سے مجھ پر
دنیا کے اندر بکثرت دُرود شریف پڑھے ہوں گے ۔'' (فردوسُ الْاخبار ج ٢ص٣٧٥
حدیث ٨٢١٠، دارالکتاب العربی بیروت)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ
اِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ترجمہ کنزالایمان : اور بیشک تاکید فرما
دی ہے ہم نے ان سے جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے
رہو۔ (پ٨،النساء : )١٣١)
قارئین کرام : خوفِ خدااک نعمت ہے ۔جس میں بھلائی ہی بھلائی اور سکوںہی
سکوں ہے ۔جس جس نے جرم تو کیا لیکن پھر اپنے کریم کی بارگاہ میں خوف سے
حاضری دی ۔قبولیت کی معراج کو پہنچ گیا۔چنانچہ تنبیہ الغافلین میں مذکورہے
کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک دن مضافاتِ کوفہ سے گزر
رہے تھے ۔ان کا گزر فاسقین کے ایک گروہ پر ہوا، جو شراب پی رہے تھے ۔ زاذان
نامی ایک گوّیا ڈھول پر ہاتھ مار مار کر انتہائی خوبصورت آواز میں گا رہا
تھا ۔آپ نے سن کر کہا : ''کتنی خوبصورت آواز ہے کاش!کہ یہ قرآن کریم کی
تلاوت میں استعمال ہوتی ۔''اورسر پر چادر ڈال کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔زاذان
نے جب آپکو دیکھا تو لوگوں سے پوچھا : ''یہ کون ہیں؟''لوگوں نے بتایا :''
حضورنبی رحمت اکے صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔''اس
نے پوچھا : ''انہوں نے کیا کہا ۔''بتایا گیا کہ انہوں نے کہا ہے کہ : ''کتنی
میٹھی آواز ہے، کاش کہ قرأت قرآن کے لیے ہوتی ۔''یہ بات سنتے ہی اس کے دل
پر رعب سا چھا گیا ۔اپنے بربط کو زمین پر پٹخ کر توڑ دیا ۔کھڑا ہوا اور
جلدی سے انہیں جا لیا۔ اپنی گردن میں رومال ڈالا اور حضرت ابن مسعود کے
سامنے رونے لگ گیا ۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے گلے سے لگایا
اور دونوں رونا شروع ہو گئے اور آپ نے فرمایا :''میں ایسے شخص کو کیوں نہ
محبوب سمجھوں جسے اللہ عزوجل نے محبوب بنا لیا ہو ۔''سیدنا زاذان نے گناہوں
سے توبہ کی اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحبت اختیار کر لی۔
قران کریم اور دیگرعلوم سیکھے ۔حتی کہ علم میں امام بن گئے ۔(تنبیہ
الغافلین ،باب آخرمن التو بۃ ، ص٦٣)
جب خوف خدا انسان کو نصیب ہوجائے تو رحمت کے دریچے واہ ہوجاتے ہیں کامیابی
و کامرانی بڑھ کر استقبال کرتی ہے ۔بگڑی سنورجاتی ہے ۔اس حقیقت سے کسی
مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا کہ مختصر سی زندگی کے ایام گزارنے کے بعدہر
ایک کو اپنے پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہوکر تمام اعمال کا حساب
دینا ہے۔جس کے بعد رحمتِ الٰہی عزوجل ہماری طرف متوجہ ہونے کی صورت میں جنت
کی اعلیٰ نعمتیں ہمارا مقدر بنیں گی یا پھر گناہوں کی شامت کے سبب جہنم کی
ہولناک سزائیں ہمارا نصیب ہوں گی۔ (والعیاذ باللہ )
لہذا !اس دنیاوی زندگی کی رونقوں،مسرتوں ،اوررعنائیوں میں کھوکر حساب آخرت
کے بارے میں غفلت کا شکار ہوجانا یقینا نادانی ہے ۔یاد رکھئے! ہماری نجات
اسی میں ہے کہ ہم رب ِ کائنات عزوجل اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنے لئے نیکیوں کا ذخیرہ
اکٹھا کریں اور گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کریں۔اس مقصدِ عظیم میں کامیابی
حاصل کرنے کے لئے دل میں خوفِ خدا عزوجل کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے ۔
کیونکہ جب تک یہ نعمت حاصل نہ ہو ' گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار
تقریباً ناممکن ہے۔ اس نعمتِ عظمیٰ کے حصول میں کامیابی کی خواہش رکھنے
والے ابھی اور اسی وقت رابطہ کرلیں اس کرم فرمانے والے ربّ سے جواپنے بندوں
سے پیار کرنے والاہے ۔آپ مجرم ہیں حقو ق اللہ کہ تو لو لگالیجے اپنی کریم
سے اور روروکر اس سے اپنی بخشش کابھیک مانگیے اور اگر مجر م ہیں حقو ق
العباد کے تو پھر اس کے بندوں سے معافی مانگ کر عظیم انسان ہونے کا ثبوت
دیجیے ۔آپ عظیم ہیں کہ آپ نے معافی مانگ کر جہنم کی آگ سے بچنے اور جنّت کی
بہاروں کا انتخاب کیا۔تو پھر آج ہی سے یہ عزم کرلیجے کہ ہمیشہ برائیوں سے
بچتے رہیں گئے اور دوسروں کو اس کی تلقین کرتے رہیں گئے ۔اپنے کریم سے توبہ
و استغفار کا رشتہ قائم رکھیں گئے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔ |