بدلتی ہوئی دنیا اور ہمارا نوجوان

کہتے ہیں کہ بہتا پانی کچھ عرصے بعد بہتے بہتے اپنا راستہ بدلتا ہے اور دریا میں کئی قسم کی تغیرات اور تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔دریا ارتقائی منازل طے کرتا ہوا اپنا راستہ بدلتا ہے اور اس میں کئی قسم کے کٹاؤ دیکھنے میں آتے ہیں جیسے کہ تاریخ بیان کرتی ہے کہ کبھی لاہور کے شاہی قلعے کی فصیلوں اور چوبرجی کے ایک مینا ر سے دریا گزرتا تھا اور بعدازاں آہستہ آہستہ دریا نے اپنا رُخ بدلا اورشہر سے دور ہوتا چلاگیا۔دریا کا کٹاؤ اور راستہ بدلنے کے بارے میں درست طور سے تو ماہرین بیان کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں اور کس وجہ سے ہوتا ہے؟لیکن ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ دریا بھی یہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ’’ کب اور کن حالات میں میری زندگی کا سفر مشکلات سے دوچار ہوگا؟اس لیے میں نے خود ہی اپنا راستہ تلاش کرنا ہے‘‘۔

قارئین ! یہ کہانی ناصرف دریا کی ہے بَلکہ اس قصّے میں انسان کا ارتقاء اور شکست و ریخت بھی کہیں نہ کہیں پنہاں ہے۔انسان جب سے وجود میں آیا ہے‘اُس وقت(ماضی) سے لے کر اَب تک(حال) اوراَب(حال)سے لے کر آئندہ کل(مستقبل)تک اِرتقائی منازل طے کر رہا ہے ۔بقول ہمارے استادِمحترم شیخ خالد محمود کہ:
’’پہلے پہل تو انسان کو اس جہان میں دھوپ بارش اور طوفانوں سے بچنے اور موسموں کے تغیّرسے محفوظ ہونے کے لیے کئی جتن کرنے پڑے پھر جب اس کو محفوظ مقام میّسر آ گیاتب انسان ’’محوِحیرت‘‘ کے دور میں داخل ہوا۔جب اُسے ہر شے کی تخلیق سے لے کر وجہِ تخلیق کی تلاش اورجستجو ہوئی۔اُسے حیرانگی ہوئی کہ پودے کس طرح اُگتے ہیں؟اور جنگل کو کس طرح آگ لگی؟پھر ’’محوِحیرت‘‘ کے سوالیہ دور سے نکل کر وہ خوف اور شدتِ غم و تنہائی کے دور میں داخل ہوا۔الغرض انسانمیں آج تک محوِ حیرت‘ خوف ا ور شدّتِ غم و تنہائی بھی کہیں نہ کہیں مضمر ہیں لیکن اُس کے ساتھ ساتھ وہ ارتقاء اور تغیر کی طرف ماضی کی نسبت تیزی سے رواں دواں ہے‘‘۔

آج دنیا جو گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے،تیزی سے ترقّی کی طرف بڑھ رہی ہے خواہ یہ ایجادات ہوں یا دریافتیں۔لیکن اس ترقی اور ارتقاء پزیری میں ایک راز پوشیدہ ہے کہ ترقی وہی قوم کرتی ہے جن کو ماضی کا علم ، حال پر عبور اور مستقبل کی فکر ہو ۔دوسرے الفاظ میں ‘جو اقوام اپنے اسلاف کے کارناموں (ترقی اور تنزّلی) کو مدِّنظر رکھتے ہوئے مثبت روےّے کے ساتھ قدم بڑھاتی ہیں۔

میں یہ برملا کہوں گا کہ انگریز کی دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ اپنی بے شمار خامیوں کے باوجود ترقی کر رہا ہے اور شاید کہ کرتا رہے گا۔جن میں سے ایک عادت،خصلت اور خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی کمٹمنٹ(Commitment) پوری کرتا ہے۔چاہے وہ کمٹمنٹ(Commitment) کام سے ہو یا کسی شخص سے یا پھر کسی پروجیکٹ(Project) پر۔دوسری عادت انگریز کی یہ ہے کہ اس نے وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے بہترین منصوبہ بندی (Planing)کرتے ہوئے مسلسل جدّو جہد کو اپنا شعار بنایا ہے۔اس لیے ہم کہتے ہیں کہ انگریز قوم نے وقت کو اپنا مطیع کیا ہوا ہے،مگر یہ دو اصول اُس کی ترقی کا رازِ بے مثل ہیں۔یہ دو خصلتیں جب کسی قوم میں ہوں تو اس کی ترقی ّکو کون روک سکتا ہے؟

روز بروز یہ دنیا گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی ہے اور اس بدلتی دنیا کے بدلتے رنگوں(ترقّی)میں وہی قوم اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی جس کا نوجوان خود اپنے وجود پر بھروسہ کرکے علم کے حصول کی لگن کو اپنا لے گا۔وہی قوم ترقی یافتہ کہلائے گی جس کی نوجوان نسل میں جذبہ،علم، محنت،لگن،اتحاد اور اپنے اسلاف سے حاصل کئے گئے اسباق و تجربات ہو ں گے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ہم اپنے نوجوان کو علمی دنیا کے تناظرمیں فٹFit) (کرنے کی کوشش کریں تو ہمارا نوجوان کیوںSufferکرتا دکھائی دیتا ہے؟کیوں،نوجوان تعلیم یافتہ اور ٹیلنٹڈ ہونے کے باوجود بے راہ روی اور جرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں؟بے شمار ایسے سوال ہیں جن کے جواب بھی مختلف النوّع ہیں۔

ہر جگہ یہ سننے کو ملتا ہے اور دکھائی دیتا ہے کہ ہمارا نوجوان ٹیلنٹڈ ہے لیکن اس ٹیلنٹ کو بروئے کار لانے کا موقع نہیں دیا جاتا‘مختلف ادارے نوجوانوں پر بھروسہ کرنے سے پرہیز کرتے نظر آتے ہیں۔اگر ہم نے اس معاشرے اور دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھنا ہے تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارا نوجوان اس بدلتی ہوئی دنیا میں ایک قدم آگے ہوگا،لیکن ابھی تو یہ مسئلہ ہے کہ ہمارا نوجوان کسی صورت بھی اس دنیا کے برابر نہیں(ہمقدم نہیں)[یاد رہے کہ موبائل اور کمپیوٹر کے استعمال کا طریقہ جاننے سے برابری کا تصّور نہیں کر سکتے]۔

برابری کا تصور یا اس بدلتی ہوئی دنیا کے قدم بہ قدم چلنے کا راز اس چیز میں پوشیدہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ اربابِ اختیار کو چاہیے کہ اپنے نوجوان میں ذہنی بلوغت اور پختگی(Matureness)پیدا کرنے کے لیے ابتدائی تعلیم ،ثانوی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز کی سطح پر ایک خاص دوستانہ ماحول پیدا کیا جائے اور بچپن ہی سے بچوں کے ذہن میں ترقّی پسندانہ سوچ کی راہ متعارف کرائی جائے۔مختلف گیمز،سیمیناروں،پیشہ وارانہ حامل کی مصنوعات کی نمائش اورذہنی وفکری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف سوالات بچوں کے ذہن میں پیدا کیے جائیں،جب بچہ ان جوابات کی تلاش کرتے اور کھوجتے ہوئے بلوغت میں قدم رکھے گاتو ان سوالات کے جوابات خودبخود حل ہونے شروع ہو جائیں گے اور اس پر ایک نئی دنیا کے دروازے کھلنے شروع ہو جائیں گے۔جب یہی بچے کل کے نوجوان بنیں گے تو ان کی ذہنی پختگی اور فکری و شعوری صلاحیتیں ہم آہنگ ہوں گی۔جب نوجوان اس تذبذب سے اور بے راہ روی سے باہر نکل آئے گا تواُس کے سامنے الجھنیں اور تواہم پرستی نہیں بَل کہ سائنسی سوچ اور ترقّی پسندانہ فکر کار فرما ہوں گی۔

دوسرا عمل یہ ہونا چاہیے کہ نوجوانوں پر بھروسہ کریں‘ان کے ٹیلنٹ اور مخفی توانائی سے بھرپور استفادہ کرنے کے لیے اُن کو ‘اُن کے کام میں مکمل آزادی مہیا کی جائے(لیکن اس میں ایک قباحت یہ بھی ہے کیوں کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ’’ آزادی ‘‘ کا مطلب کسی اور انداز میں سمجھا جا سکتا ہے لیکن جب ذہنی پختگی ہو گی تب یہ آزادی ترقی پسند سوچ کی حامل ہوگی)۔

اس مقابلے کی فضا میں اگر ہم اپنے نوجوان یا بچے کاموازنہ اپنے ہمسایہ ممالک بھارت،بنگلہ دیش اور چین سے کریں تو ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟پاکستان کا(سرکاری و پرائیویٹ) پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دنیا بھر کے ٹاک شوز اور خبریں نشر کرتا ہے لیکن آج تک میڈیا کے سرپرست لوگوں نے بچوں اور نوجوانوں کے مسائل یا ان کے پروگرام نشر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ،جب کہ اس کے مقابلے میں بھارتی میڈیا اپنے بچوں اور نوجوان کے لیے لاتعداد پروگرامز ترتیب دے کر ان میں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موجب بن رہا ہے (چاہے یہ پروگرام موسیقی کے ہوں یا معلوماتی پروگرام)۔اِس کے علاوہ چینی میڈیا بچوں کے لیے مختلف پر لطف گیمز شواور رنگارنگ قسم کے دلچسپ اور حیران کن پروگرام ترتیب دیتا ہے جن سے بچوں اورنوجوانوں میں جیت کا جذبہ، صبروتحمل،سپورٹس مین سپرٹ،منصوبہ بندی اور مختلف تخلیقی صلاحیتیں تخلیق ہونے میں مدد ملتی ہے اور ان جیسی تقاریب سے نوجوانوں کا ذہن وسیع ہوتا ہے اور ان کے ٹیلنٹ کو پھلنے پھولنے میں مدد ملتی ہے۔اگر ہم ہر لحظہ بدلتی اس دنیا میں اپنے نوجوان کے لیے تعمیری اور تخلیقی ماحول پیدا نہیں کریں گے تو لازماً ہمارا نوجوان اس گلوبل ویلج میں تخریبی صلاحیتوں کا حامل نوجوان ہوگا۔

اب ہم ایک دوسرے تناظر میں بدلتی ہوئی دنیا میں نوجوانوں کے کردار کو بنانے میں جو عوامل کار فرما ہیں ان کا احاطہ کرتے ہیں۔ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک جو جو مسائل بچوں اور نوجوانوں کو درپیش ہیں ان مسائل اور معاملات کا خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل سدِباب کیا جائے۔نوجوانوں کی توجہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل اور پیشہ وارانہ تعلیم کی طرف راغب کیا جائے۔نصاب کو آسان اور سہل بنایا جائے۔ریسرچ سینٹرز اور لیبارٹریز قائم کی جائیں،کتاب دوستی اور لائبریری کا فروغ ممکن بنایا جائے۔ان اقدامات کے کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں اور نوجوانوں کوریسرچ سینٹرز ، لیبارٹریز اور لائبریریوں میں مختلف موضوعات پرریسرچ اور بحث ومباحثہ کے مواقع و ماحول پیدا کئے جائیں۔اساتذہ کی تربےّت جدید خطوط پر اور آئندہ حالات کو مدِّنظر رکھ کر کی جائے،اساتذہ اور نوجوانوں میں دوستانہ ماحول پیدا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر سائنس اور لٹریچر کے مختلف نوعےّت کے سیمینارز اور تقریبات منعقد کروائی جائیں۔اساتذہ اور والدین بچوں اور نوجوانوں کو مختلف فورمز میں لے کر جائیں جہاں ایسی معلومات ہوں جو نوجوانوں کو خود سوال تیار کرنے اور سوال کرنے کی طرف راغب کریں اور ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اجاگر ہو۔

ان تمام اقدامات کرنے میں خصوصاً اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے کہ نوجوانوں کے تعلیمی،سائنسی اور فکری شعور کی آگہی میں غریب امیر کے امتیاز کو بالائے طاق رکھا جائے۔ایسے اقدامات کرنے سے بدلتی ہوئی دنیا میں ہمارا نوجوان ناصرف ایک قدم آگے بڑھے گا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی کمر بھی ٹوٹ جائے گی،جب تعلیم‘سائنسی اور فکری سطح پر عام اور طبقوں کی امتیازیت سے بالا ہوگی تو پھر اقبال،جناح،ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر بننے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا لیکن ایسا ہونا ایک خواب نہیں ہے؟
Rehman Mehmood Khan
About the Author: Rehman Mehmood Khan Read More Articles by Rehman Mehmood Khan: 38 Articles with 39352 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.