سرخ گلابوں کا موسم

لہلاتے پھولوں کا اپنا ایک حسن ہے چاہے گوبھی ہی کے کیوں نہ ہوں۔ مگر گلاب کا حسن تو یکتا ہے۔ دسمبر گلابوں کی افزائش کا مہینہ ہے۔ سرخ سرخ گلاب۔ اب تو یار لوگوں نے گلابوں کے بھی کئی رنگ نکال لیے ہیں مگر سرخ گلاب کی اپنی ہی شان ہے۔ گلابوں کی یہ سرخی میٹھی میٹھی سردی میں جوان چہروں پر بھی نکھر نکھر آتی ہے ۔ اور گلابوں کے موسم میں اگر بارش کی پھوار بھی ہو تو جوان امنگوں اور جوان ولولوں کو اور بھی جوان تر کر جاتی ہے۔ چند دن پہلے دسمبر کی بارش میں نوجوانوں نے مجھے پوچھا کہ کونساموسم خوبصورت ہے۔ میں نے کہا کہ میری عمر میں دل کا موسم اچھا ہو تو ہر موسم خوبصورت ہے وگرنہ مشقت کے مارے چہرے تو سرخ گلابوں کے موسم میں بھی زرد زرد ہی نظر آتے ہیں۔

ہم پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں چاروں موسم دستیاب ہیں۔ پورے سال میں کبھی سردی ہوتی اور کبھی گرمی۔ کبھی خزاں سے پالا پڑتا اور کبھی بہار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مگر ہر جگہ ایسا نہیں۔ بہت سے خطے ایسے ہیں کہ فقط ایک ہی موسم ہے، گرمی ہے تو فقط گرمی ، کبھی کم اور کبھی زیادہ ۔ سردی ہے تو کبھی قابل برداشت اور کبھی برداشت سے باہر۔ کہیں صرف خزاں ہے اور کہیں صرف بہار۔ سردی کی شدت اور گرمی کا زور دونوں انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ خزاں اداسیوں کی پیامبر ہے۔ البتہ بہار ہر ایک دل کو بھاتی ہے مگر یکسانیت بھی کچھ بھلی نہیں ہوتی۔

بہار سے جنوبی امریکہ کے ملک ایکواڈور کا دارالحکومت کیوٹو جو کبھی سان فرانسسکو کہلاتا تھا یاد آیا۔ خط استوا پر واقع یہ شہر پہاڑی علاقے میں ہونے کے سبب پورے سال بہار کا مسکن ہے۔ 25لاکھ آبادی کے اس شہر کا کم از کم اوسط درجہ حرارت 8ڈگری سینٹی گریڈ اور زیادہ سے زےادہ اوسط درجہ حرارت ۔18.6سینٹی گریڈ سالانہ ہے۔ گو سال میں تین چارمہینے موسم قدرے خشک رہتا ہے مگر بقیہ سال میں موسم بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ اس شہر کا لٹریسی ریٹ 97فیصد اور بیروز گاری 9فیصد ہے۔ 9350فٹ کی بلندی پر واقع یہ بہار کا مسکن دنیا کا بلند ترین دارالحکومت ہے۔

ایک موسم سردی کا ہے۔ ہلکی ہلکی سردی جیسی دسمبر کے ابتدائی دنوں میں تھی طبیعت پر خوشگوار اثر چھورٹی ہے مگر حد سے زےادہ سردی تو اک عذاب سے کم نہیں ، مگر جو ایسے علاقوں میں رہتے ہیں وہ عادی ہو جاتے ہیں ۔ مجبوراً وہاں رہتے اور گزارہ کرتے ہیں۔ مجھے کچھ طلباءنے پوچھا امریکہ کی شہریت کیسے مل سکتی ہے تو مجھے الاسکا یاد آیا۔ کہا بھائی باقی امریکہ کا تو پتہ نہیں لیکن تھوڑی سردی برداشت کر سکتے ہو تو الاسکا چلے جاﺅ۔ سنا ہے فقط ایک سال کے اندر شہریت دے دیتے ہیں اور شہریت مل جائے تو سالانہ گرانٹ بھی ملتی ہے۔ جی ہاں ۔ الاسکا امریکہ کی انچاسیویں (49)ریاست جو امریکہ کی 48ریاستوں سے الگ شمالی امریکہ کے اوپری علاقے میں کینیڈا کے شمال مغرب میں واقع ہے اور جس کے ساحلوں کی لمبائی امریکہ کی باقی تمام ریاستوں کے ساحلوں کی مجموعی لمبائی سے بھی زیادہ ہے ۔ سردی کی وجہ سے یہاں کی آبادی کم ہے مگر یہ علاقہ معدنیات اور تیل کی دولت سے مالا مال ہے ۔ جس کی آمدنی کا کچھ حصہ امریکی حکومت یہاں کے مکینوں کو گرانٹ کی شکل میں دیتی ہے۔ 2008ءمیں یہ گرانٹ 3800امریکی ڈالر تھی لیکن کسی سال بھی یہ ایک ہزار سے کم نہیں ہوتی اور یہ ہر اُس شخص یا بچے کو بھی ملتی ہے جس کا قیام یا پیدائش کا عرصہ اُس جگہ چھ (6)ماہ یا اس سے زیادہ ہو ۔ مگر یہاں پہنچ کر آپ کو تھوڑی سی سردی برداشت کرنا پڑے گی کیونکہ یہاں کا درجہ حرارت سردیوں میں بہت سے علاقوں میں منفی 60سے منفی 80تک رہتا ہے ۔ گرمیوں میں بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں کسی کسی سال درجہ حرارت چند دن کے لیے مثبت ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر سال ہی ایسا ہو۔

بارک اوباما جب پہلی بار صدر منتخب ہوئے اُس سال ریپلیکن کی نائب صدر کی اُمیدوار سارہ پالن تھی جو کچھ حوالوں سے پاکستان میں مشہور ہوئیں۔ سارہ پالن اس سے پہلے الاسکا کی گورنر تھیں اور انہوں نے نائب صدارت کا الیکشن لڑنے کے لیے گورنری سے استعفیٰ دیا تھا۔ سارہ پالن کا گھر الاسکا کے ایک ساحل پر ہے۔ سارہ پالن کہتی ہیں کہ اُن کے گھر کے لان سے روس نظر آتا ہے ۔ صحیح کہتی ہیں کیونکہ الاسکا اور روس کے ساحلوں کے درمیان مختصر سا سمندر ہے جس کی چوڑائی فقط تین میل یا 4.8کلو میٹر ہے۔

الاسکا جہاں سے روس فقط تھوڑی سی دوری پر ہے کبھی روس ہی کا حصہ ہوتا تھا۔ اپنے خراب معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے روس نے 30مارچ 1867ءکو یہ علاقہ امریکہ کو فقط دو سینٹ فی ایکٹر کے حساب سے کل 72لاکھ امریکی ڈالر میں بیچ دیا۔ الاسکا کی معدنیات اور تیل کی دولت کا اندازہ اُس وقت نہ تو روس کو تھا اور نہ امریکہ کو۔

تین اطراف سے سمندر اور مشرق میں کینڈا سے جڑا اُسے علاقے کا دارالحکومت جو نوا ہے ۔ اس کی آبادی تقریباً سات لاکھ ہے۔ یہ دنیا کے سب سے کم آبادی والے علاقوں میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں ایک میل میں فقط1.02افراد آباد ہیں۔ روس سے خریدنے کے بعد امریکہ اسے کئی سال تک مختلف انداز اور مختلف حیثیتوں سے کنڑول کرتا رہااور بالآخر 11مئی 1959ءصدر آئزن ہاور کے دور میں اُسے امریکہ کی 49ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق یہاں کی آبادی کا 67فیصد سفید فام ، 19فیصد مقامی باشندے جنہیں ریڈ انڈین کہا جاتا ہے ۔ 7فیصد ایشیائی اور 5فیصد افریقی ہیں۔ یہاں معمولی تعداد میں ہندو ار سکھ بھی ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد تقریباً5ہزار ہے اور علاقے میں ایک مسجد بھی موجود ہے ۔ مگر افسوس یہاں گلاب نہیں ہوتے۔ شدت کی سردی بھی گلابوں کے لیے پیام اجل ہی ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 451327 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More