سکینڈلز کے نام سے کون واقف نہیں
آج کل تو ویسے ہی سکینڈلز کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے فلمی سکینڈل، سیاسی
سکینڈل، قومی اور بین الاقوامی سکینڈل خیر یہ تو بڑے بڑے سکینڈلز ہیں جن کے
بارے میں بیان کرنا کوئی خاص ضروری نہیں کہ ان بڑے بڑے سکینڈلز سے تو عوام
الناس آئے دن بخوبی آگاہ ہوتے رہتے ہیں-
یہاں بات ہوگی عام سکینڈلز کی جن میں خاندانی سکینڈلزاداراتی اور شعبہ جاتی
سکینڈلز شامل ہیں شاید آپ اس قسم کے سکینڈلز سے واقف نہ ہو لیکن ان کا وجود
عام معاشرتی زندگی میں بڑے زور و شور سے جاری رہتا ہے یہاں عام انسان ہی
عام انسانوں کے نظریاتی و جذباتی تعلقات کو سکینڈلائز کرتے ہیں یہ کوئی شغل
نہیں لیکن سکینڈلز بنانا اور پھر ان سکینڈلز کو لیکر کسی کو بدنام کرنا
ذہنی اذیت پہنچانا ہمارے یہاں کے بیشتر لوگوں کا مشغلہ بن چکا ہے ایسا کرنے
والوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس قسم کے ایشوز کی زد میں آنے
والوں کے لئے ایسی صورتحال کو برداشت کرنا سہل نہیں ہوتا-
معلوم نہیں کہ انسانوں کی فطرت میں دوسروں کے بارے میں باتیں کرنے کی عادت
دوسروں کے بارے میں منفی قسم کی رائے زنی کی عادت کیوں پروان چڑھتی ہے
دوسروں کے عام سے عام اور چھوٹے سے چھوٹے معاملات میں دخل اندازی کا شوق
کیوں ہوتا ہے اتنا وقت لوگ اپنی عادات و اطوار اپنے کام اپنی ذمہ داریوں کو
سمجھنے اور نبھانے کی کوشش کرنے کی بجائے ادھر ادھر تانک جھانک اور دوسروں
کی نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھنے اور پھر اپنے مزاج اپنی سوچ کے مطابق
نتائج نہ پانے پر مختلف حیلوں بہانوں سے طعن و تشنیع کا شکار کرنا، بے مقصد
سوالات سے جن میں کوئی حقیقت بھی نہ ہو خود ہی اپنے دل سے اخذ کرکے دریافت
کرنے کی کوشش کرنا اپنی دانست و منشا کے مطابق جواب موصول نہ ہونے پر از
خود ہی کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرکے اپنے ہم مزاج لوگوں سے تذکرہ
کرنا اور اس تذکرے کو اس طرح سے اپنے گرد وپیش کے افراد میں عام کر کے کسی
کا کسی کے ساتھ تو کسی کا کسی کے ساتھ سکینڈل بنا دینا اور اپنے ساتھ رہنے
بسنے یا کام کرنے والوں کو بنام کرنے کا شغل بھی عام ہوتا جا رہا ہے-
اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے کام سے کام نہیں رکھتے بس دوسروں میں کوئی
کمزوری کوئی خامی تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور جہاں کہیں موقع ملتا
ہے اس بات کو ایشو بنا کر اچھالنے میں چوکتے نہیں انسان کی یہ فطرت ہے کہ
انسان کا دل اسی بات کی طرف مائل ہوتا ہے جس کے متعلق اسے کوئی بلاوجہ
روکنے ٹوکنے کی کوشش کرتا ہے اگر کسی میں کوئی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی
اسے بار بار یہ کہنا کہ ایسا نہ کرو ویسا نہ کرو اس سے نہ ملو اس سے بات نہ
کرو تو انسان میں اسی بات کے لئے اسی کام کے لئے ضد پیدا ہو جاتی ہے کہ
کوئی ہوتا کون ہے کسی پہ ناحق پابندیاں عائد کرنے والا جیسے خود اپنے
معاملات کی اچھائی یا برائی کاعلم نہ خود انسان کا اپنے آپ شاید انسان میں
موجود ضدی عنصر بھی انسان سے نادانستہ طور پر وہی کچھ کرنے پہ مجبور کرتا
ہے جس سے اسے جتنا زیادہ روکا ٹوکا جاتا ہے پابند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
منع کیا جاتا ہے اور بت کی طرف انسان کا رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے اسی بات
کا فائدہ اٹھا کر سازشی فطرت انسان سادہ فطرت انسانوں کو اپنی سازش کا شکار
کرنے لگتے ہیں جس کا نتیجہ محض اپنی ذات میں مگن رہنے والے بے لوث اور مخلص
انسانوں کو منفی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے-
عام سی بات ہے کہ انڈر سٹینڈنگ یا فرینکنیس یا دوستی ہر ایک سے اس صورتحال
کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں نے بلاضرورت ہی لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل
اندازی کے شوق پال رکھے ہیں اور جس کے منہ میں جو آتا ہے وہ بلا سوچے سمجھے
ہر کسی کے سامنے کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ جاتا ہے اور پھر سننے والا ہر
فرد اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق قیافہ آرائی کے ذریعے ان باتوں کو اپنے
انداز میں پروان چڑھاتے ہوئے کسی نہ کسی فرد کے بارے میں کوئی نہ کوئی من
گھڑت باتوں کی تشہیر کرتے ہوئے سکینڈل بنا لیتا ہے -
لوگوں کی یہ فطرت کیوں ہے کہ وہ کسی انسان کا کسی دوسرے انسان کے ساتھ
اخلاص و ہمدردی و ذہنی ہم آہنگی کے نتیجے میں قائم ہونے والے تعلق کو ہمیشہ
غلط ہی کیوں سمجھتے ہیں کیا ہم لوگ دوسروں کے بارے میں اچھی یا پاکیزہ رائے
قائم نہیں کر سکتے مخلصانہ روابط برداشت نہیں کر پاتے ظاہر ہے کہ جو خود
محنتی ہے اس کی دوستی بھی محنتی انسان سے ہوگی جو خوش اخلاق ہے اس کی دوستی
بھی خوش اخلاق لوگوں سے ہو گی گھر میں بھی بہن بھائیوں کے آپس میں ایک جیسے
تعلقات نہیں ہوتے بہن بھائیوں میں بھی کسی کے ساتھ زیادہ دوستی اور کسی کے
ساتھ کم دوستی ہوتی ہے-
مخلوط اداروں میں ذہنی ہم آہنگی کی بنا پر ادارے کے بعض خواتین و حضرات میں
اچھی گفتگو اور بات چیت ہو جایا کرتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ
خدانخواستہ ان افراد میں کوئی غلط قسم کے مراسم ہیں بلکہ مخلوط اداروں میں
کام کو خوش اسلوبی سے نبھانے کے لئے باہمی کمیونیکیشن بھی ملازمت کا حصہ
ہوتی ہے لیکن بعض لوگوں کی پست و پراگندہ ذہنیت ان معاملات کو کسی اور ہی
رنگ میں پیش کرتے ہوئے اپنے پیشے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مخلصانہ رویہ
رکھنے والوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ادارے کے اور خود ان کی
اپنی ذات کے حق میں بھی بہتر نہیں ہوتا خاص طور پر ملازمت پیشہ خواتین کو
تو اس قسم کے مسائل کی وجہ سے بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے-
ایسے لوگ جو خود کو تعلیم یافتہ اور روشن خیال سمجھتے ہیں لیکن یہ روشن
خیالی صرف اپی حد تک محدود ہوتی ہے جبکہ یہی لوگ دوسروں کے لئے تنگ نظری و
جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے دوسروں پر بےبنیاد تہمتیں باندھتے پھرتے ہیں ایسی
پست ذہنیت رکھنے والوں کو جو بلاوجہ دوسروں کے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں
پریشانی کا باعث بنتے ہیں انہیں چاہئیے کہ اپنے لئے ایسے اداروں میں ملازمت
تلاش کریں جہاں مخالف جنس کا وجود مفقود ہو یا پھر دوسروں کے بارے میں اپنا
نظریہ تبدیل کریں جس طرح آزادی اور خوشی اسلوبی سے اپنا وقت گزارنا پسند
کرتے ہیں دوسروں کو بھی اس حق سے محروم کرنے کی تگ و دو میں نہ لگے رہا
کریں پڑھے لکھے یا روشن خیال ہیں تو اس کا ثبوت اپنے عمل سے دیں جاہلانہ
طرز عمل یا باتوں سے اپنی شخصیت کی تردید نہ کریں-
معلوم نہیں کہ انسانوں کی فطرت میں دوسروں کے بارے میں باتیں کرنے کی عادت
دوسروں کے بارے میں منفی قسم کی رائے زنی کی عادت کیوں پروان چڑھتی ہے
دوسروں کے عام سے عام اور چھوٹے سے چھوٹے معاملات میں دخل اندازی کا شوق
کیوں ہوتا ہے اتنا وقت لوگ اپنی عادات و اطوار اپنے کام اپنی ذمہ داریوں کو
سمجھنے اور نبھانے میں صرف کیوں نہیں کرتے-
میرے خیال سے تو ایس اس لئے ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس اپنا کام کرنے لے لئے
تو وقت نہیں ہے ہاں دوسروں کے پہ تنقید کرنے اور دوسروں میں خامیاں تلاش
کرنے کے لئے بہت وقت ہے کہ اس سے زیادہ بہتر تفریح شاید انسان کے لئے کوئی
اور نہیں-
اللہ ہم سب کو نیک عمل اور ہدایت کی راہ پہ قائم رہنے کی توفیق دے اور رحم
فرمائے سب پہ (آمین) |