پتھروں کے شہر میں کانچ کا گھر

دہلی کے ہونے والے حادثے کے متعلق خواتین کے دلوں میں شائد اُمید کی کو ئی دھندلی سے کرن زندہ ہوگی کہ ہو سکتاایسے درندوں کو کچھ نہ کچھ سزا مل سکے کیونکہ اس مرتبہ اُن درندوں نے حکمرانوں کی ناک کے عین نیچے یہ شرمناک دل دہلانے والا،پوری انسانیت کو رُلانے والا دلدوز ودلسوز واقعہ انجام دیا ہے لیکن خواتین کا اس بات پہ بھروسہ کرنا کہ حکمران لوگ ہمیں انصاف دلائیں گے یا ہماری عفت و عصمت کا ہر موڑ ہر قدم اور ہر لمحہ خیال رکھیں گے تو ایسا کہنا بِلے کا دودھ کی رکھوالی کرنے کے مترادف ہے کیونکہ................
کچھ بھی کہواِن سے اِن پہ اثر نہیں ہو تا
خانہ بدوش آدمی کا گھر نہیں ہو تا
یہ سیاست کی طوائف کا ڈوپٹہ ہے صاحب
یہ کسی کے آنسوﺅں سے تر نہیں ہو تا

عورت کا مقام بہت بلند ہے،عورت خدائے برتر کی تخلیق کاایک نمونہ ہے ،عورت مرد کے سامنے چار مختلف صورتوں میں پیش ہو تی ہے۔عورت کا مقام کتنا بلند ہے ؟کاش!!دور ِ جدید کی عورت سمجھتیں تو عورتیں اس طرح سے ان راہوں پر نہ جاتیں جہاں انسان نما بھیڑیئے ان کی عصمت و عفت کو تار تار کرتے ہیں۔لیکن ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟کیوں معصوم لڑکیوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے؟ کیوں سر عام معصوم لڑکیوں کی عزت کو تار تار کیا جا تا ہے؟ کیا یہ سب کچھ کرانے میں کسی کا ہاتھ ہے؟لیکن جہاں تک غور و فکر کی بات ہے اگر سوچا جائے تو یہ سب بے پردگی اور بے حیائی کی وجہ سے ہو رہا ہے ، کیونکہ دورِ جدید کے فحاشی لیٹریچر نے آج کے انسان کو اندھا بنا کر رکھ دیا ہے ،فحاشی لیٹریچر جو سماجی ، معاشرتی اور تہذیبی رواج کو ختم کر رہا ہے ۔عورتیں جو گھر میں یگانگت اور محبت کی روح پھونکتی تھیں آج بازاروں کی زینت بنیں ہو ئی ہیں عورت سے اس کے اصل حقوق چھین کر اسے بازار کا کھلونا بنا دیا ہے لیکن آج عورت نے اس چیز کو آزادی سمجھ کر اس کا دامن تھام لیا ہے اور بے خوف و خطر بغیر پوچھے مانگے بے پردگی کی حالت میں صبح گھروں سے بازاروں کی طرف رُخ کرنا اور شام کو دیر گئے گھر واپس لوٹنا تو آج کی عورتوں کا معمول بن گیا ہے جس وجہ سے رفتہ رفتہ عورتیں اپنے اصل مقام کو کھو رہی ہیں ۔اور اپنے اصل مقام سے آگاہ ہونے کے بجائے گمراہی کی راہوں کی طرف جا رہی ہیں جہاں ان کی عزت محفوظ نہیں۔

دورِ جدید کی عورتیں جب بازاروں کی طرف رخ کرتیں ہیں تو ایسا لباس زیب تن کرتیں ہیں کہ جس سے جسم کے اعضاءپوری طرح سے ڈھکے نہیں جاتے گو کہ یہ عورتوں کا جاہلانہ پن ہے نہ کہ شوق کیونکہ عورتوں میں یہ خودنمائی اور آرائش کا شوق جلدی پروان چڑھتا ہے اور یہ شوق اگر محض اسلامی حدود کا پابند نہ رہے تو معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی پھیلنے لگتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ عزوجل نے مسلمان عورتوں کو نگاہ کی حفاظت، عصمت، پارسائی کی حفاظت و بناؤ سنگھار کو چھپانے کے احکام دینے کے بعد مذید تاکید فرمائی کہ وہ اپنی چادریں یا دوپٹے اپنے سینوں پر اوڑھے رکھیں تاکہ آوارہ لوگوں کی ہولناک نظروں سے محفوظ رہیں اور معاشرے کی پاکیزگی بھی قائم رہے۔

لیکن بے شرمی کہ تو حدیہ ہے کہ ایک لڑکی اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ مل بیٹھ کر TVکے اسکرین پر ایسے ایسے فحاش سین دیکھتی ہے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جا تا ہے اور وہ ذلیل و خوار باپ، بھائی یہ سب دیکھ کر اس لڑکی کے سامنے قہقے لگاتے ہیں جس وجہ سے اس لڑکی کا حوصلہ اس قدر بُلند ہو جاتا کہ شرم و حیا ان سے دور بھاگتی ہے اور اگلا آنے والے سین وہ لڑکی پہلے ہی اُ نکو سنا دیتی ہے اور وہ ذلیل و خوار باپ اور بھائی بے خوف ہو کر یہ سب سنتے ہیں ان کے دل سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا خوف اس قدر مٹ جا تا ہے کہ جیسے وہ انسان نہیں حیوان ہیں۔

مرد کو اس کی سزا تو ایک نہ ایک دن ضرور ملنی ہے لیکن عورت کو تو اس کی قیمت بہر حال چکانی پڑ رہی ہے۔ اس طرح سے بہت سی خامیاں معاشرے میں جنم لے رہی ہیں جو کہ عورتوں کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔اس لئے عورتوں کوپردے کا خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ عورت نام ہے پردے کا ، عورت نام ہے شرم و حیا کا، عوت کانچ کا گھر ہے اور اس کے ارد گرد پتھر ہی پتھر ہیںپتھروں کے اس شہر میں رہ کر کانچ کے اس گھر کا محفوظ رہنا عورت کہلانے کا ثبوت ہے پردے کا اہتمام کرنے کا ثبوت ہے ۔ اسلئے فحاشی لیٹریچر کو اپنانے سے باز آجائیں بازاروں کی زینت بننے کے بجائے گھروں کی زینت بنیں۔کیوں کہ آج ہر موڑ پر انسان نما بھیڑیئے شکار کی تلاش میں ہیں اس لئے ان درندوں سے بچنے کے لئے خود اپنے آپ کی حفاظت کریںبے پردہ گھروں سے نہ نکلیںبقول علامہ اقبالؒ.........
لباسِ خضر میں یہاں ہزاروں رہزن بھی پھرتے ہیں
اگر دنیا میں جینا ہے تو کچھ پہچان پیدا کر

یہی وجہ ہے کہ ہر سمت اداسیوں اور مایوسیو ں کا پہرہ ہے کالی گھٹائیں چھائی ہو ئیں ہیں کسی بھی وقت طوفان آسکتا ہے اس لئے طوفان سے بچنے کے لئے محفوظ جگہوں کا اہتمام کر و زمانہ ایک عجیب دوراہے پر لے آیا ہے جہاں ہر قدم پر رونج و غم منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔
ہر شاخ پہ کالا کوا ہے
انجام وطن کا کیا ہوگا
MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 30067 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More