وہ گاؤں کے سرکاری سکول میں پہلی
جماعت کاطالب علم تھا ۔ اس وقت پہلی جماعت میں طالبعلموں کی کل تعداد
100تھی اور ان کو پڑھانے کے لیے صرف ایک ٹیچر میسر تھا ۔وہ انتہائی ذہین
لیکن راقم کی طرح کام چور تھا اور پڑھنے ،لکھنے میں اسے کوئی دلچسپی نہ تھی
،وہ بس والدین کی ضد اور پھینٹی کے ڈر سے سکول جاتا تھا۔روزانہ سکول میں
حاضر ہونے کے باوجود اسے 8برس تک الف ب کی ٹھیک طرح سے پہچان نہ ہوپائی
لیکن اپنی چالاکی اور مکاری سے وہ 8جماعتیں پاس کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ان
8سالوں میں اس نے ایک دن بھی ہوم ورک نہیں لکھا لیکن استاد کو روزانہ ہوم
ورک چیک کروایا کرتا تھا ۔آپ حیران ہوں گے کہ جب وہ ہوم ورک لکھتا ہی نہیں
تھا تو پھر استاد کو چیک کیا کرواتا تھا ؟آپ حیران نہ ہوں میں آپ کوبتاتا
ہوں کہ وہ کرتا کیاتھا ۔وہ بازار سے نئی کی بجائے پرانی کاپیا ں خریدتا جن
کے صفات پہلے سے تحریر سے پُر ہوتے اور ان کو بدل بدل کراور کبھی کبھی کسی
ہم جماعت کی کاپی چوری کرکے اساتذہ کو چیک کروا دیتا ،طلبہ کی تعداد زیادہ
ہونے کی وجہ سے اساتذہ کے پاس اتنا ٹائم نہ تھا کہ وہ بچوں کی کاپیاں غور
سے دیکھ سکیں۔اب بھی آپ کو یہ بات حیران کررہی ہوگی کہ پھر ہر مرتبہ وہ
امتحان کس طرح پاس کرلیتا تھا۔جناب عالی یہ بات بھی زیادہ حیران کن نہیں ہے
کیونکہ امتحانات کی نگرانی بھی وہی استاتذہ کیا کرتے تھے جواس کو سال بھر
پڑھایا کرتے تھے ۔ میں آپکو پہلے ہی بتا چکاہوں کہ وہ انتہائی ذہین تھا
اپنی ذہانت کو وہ پڑھنے کی بجائے بوٹی کرنے میں استعمال کیا کرتا تھا ۔
سکول میں طلبہ اسے بوٹی ماسٹر کہا کرتے تھے۔8سال تک وہ اپنی تیز ترین بوٹی
کی وجہ سے پاس ہوتا رہا لیکن اسے پڑھنا لکھنا بالکل نہ آیاتو اس نے سوچا اس
طرح تو وقت ضائع کرنے والی بات ہے ،جب پڑھنا لکھنا ہی نہیں ہے تو سکول جانے
کاکیا فائدہ بس اس نے سکول چھوڑ دیا اور گھر والوں سے کہنے لگا کہ میں مزید
نہیں پڑھ سکتا مجھے کام پرڈال دیں میں کام سیکھوں گا۔اس کے والدین کو بہت
دکھ ہوا کیونکہ وہ اس کو پڑھالکھاکر کسی سرکاری نوکری پر لگوانا چاہتے تھے
۔لہٰذا اس کے والدین نے آپسی مشورے کے بعد اسے چائے کے ہوٹل پہ یہ سوچ کر
لگا دیا کہ شائد تنگ آکر خود ہی سکول جانے کے لیے تیار ہوجائے۔لیکن ایسا نہ
ہوا کچھ دن چائے کے ہوٹل پر کام کرنے کے بعد وہ کسی ٹرک ڈرائیور کے ساتھ
شہر چلاگیا ۔کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اپنے گاؤں سے باہر نکلاتھا اس لیے شہر کا
ماحول اس کے لیے بالکل نیا اور انوکھا تھا۔تین دن بھوکا رہنے کے بعد اس نے
مزدورں کے ساتھ دہاڑی لگا کر شام کو کھاناکھانے کا اہتمام کیا جو خاصا مشکل
لگا، اس نے سوچا کسی دفتر میں کوئی کام مل جائے تو آسانی ہوسکتی ،اگلے دن
وہ سارا دن دفتروں میں کام تلاش کرتا رہا ،اسے کسی کام میں مہارت نہ تھی
اور کچھ پڑھنا لکھنا بھی نہیں آتا تھا ،اُس پر شہر کے لوگ اس سے ناواقف تھے
لیکن انتہائی ناسازگار حالات کے باوجود خوش قسمتی سے اسے ایک اخبار کے دفتر
میں صفائی اور چائے پانی پلانے کی نوکری مل گئی ساتھ ہی رہائش کا مسئلہ بھی
حل ہوگیا کیونکہ اخبار کے مالک نے اسے اس شرط پر نوکری دی کہ وہ رات کو
دفتر میں ہی سویا کرے گا۔کچھ دن شہر میں گزارنے کے بعد اسے اپنے والدین تو
یاد نہ آئے لیکن ہم جماعت بڑی شدت سے یاد آنے لگے خاص طور پر ان کا اسے
بوٹی ماسٹر کہہ کرپکارنا بہت یاد آیا۔وہ واپس گاؤں نہیں جانا چاہتا تھا اس
لیے اس نے سوچا کچھ ایسا کیا جائے کہ شہرکے لوگ بھی اسے بوٹی ماسٹر کہنا
شروع کردیں ۔بہت غوروفکر کے بعد اس نے فیصلہ کیا وہ اپنے نام کے بوٹی ماسٹر
لگا لے لیکن اس طرح اس کا نام بہت لمبا ہوجاتا تھا ۔قارئین محترم اس نام
تھامیاں چندولال تنولی،لہذااس نے اپنا نام چھوٹا کرتے ہوئے میاں چندولال
بوٹی کرلیا،اس طرح دفتر میں آنے جانے والے لوگ اسے چند ولال بوٹی کی بجائے
بوٹی بوٹی کہہ کر پکارنے لگے ۔اس طرح اسے ایک سال اخبار کے دفتر کام کرتے
گزر گیا،یہ توآپ کو معلوم ہے کہ اخبارات کے دفاتر میں مشہور شخصیات کا آنا
جانا لگا رہتا ہے ۔جن میں شوبزاور سیاست دانوں کثرت ہوتی ہے،مشہور لوگوں کو
چائے پلا پلا کر اسے بھی مشہور ہونے کا شوق ہوگیا ۔اس نے کوشش کی کہ اداکار
بن جائے لیکن کامیاب نہ ہوسکاپھر اس نے سوچا سیاست دان بن کر مشہور ہونے کی
کوشش کرتے ہیں ،کوئی 6ماہ بعد شہر میں بلدیاتی الیکشن ہونے والے تھے لہذا
اس نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔بد قسمتی سے الیکشن قریب آئے تو کونسلر
کے اُمید وارکے لیے میٹرک کی شرط عائد کردی گئی ۔اسے شدید مایوسی ہوئی اور
اس نے آئندہ الیکشن سے پہلے میٹرک پاس کرنے کا ارادہ کرلیا ۔4سال تک وہ
میٹرک کی کتابوں کے ساتھ ہاتھا پائی کرتا رہا لیکن اسے کچھ سمجھ نہ آیا ،پھر
بھی آس نہ چھوڑی اور پرائیوٹ سکول میں میٹرک کی تیاری کرنے لگا۔ اب الیکشن
میں جو ایک سال باقی تھا وہ بھی فورا ہی گزر گیا لیکن میٹرک کا نصاب اس کی
سمجھ میں نہ آیا۔خیر اس نے میٹرک کا امتحان دینے کے لے داخلہ جمع کروادیا ،اب
ہونا کیا تھا ،عادت سے مجبور چندولال بوٹی نے ہمیشہ کی طرح میٹرک کے امتحان
میں بھی بوٹی کرنے کی کوشش کی اور پکڑا گیا،میٹرک پاس نہ ہونے کی وجہ سے
سیاست دان بننے کی تمناء بھی دم توڑ گئی تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا
اخبار نکالے گا اور اس میں اپنی خبریں اور تصویرں چھاپ چھاپ کر مشہور
شخصیات میں شامل ہوجائے گا ۔اس طرح اس نے باقائدہ صحافتی میدان چھلانگ لگا
دی اور چند ماہ بعد اپنے ایک دوست سے مل کرچلتا چلاتا اخبار خرید لیا،ماڑی
قسمت معاملہ وہیں کا وہیں رہا کیونکہ اب اس کے پاس کوئی ایسی خبر نہ تھی جس
میں روزانہ اپنا نام اور تصویر شائع کرسکے ،کچھ دن پریشان رہنے کے بعد اس
نے کالم لکھنے کا فیصلہ کیا اور لکھنے بیٹھ گیا ،مہینہ بھر کالم لکھنے کی
سرتوڑکوشش کے بعد ناکام رہنے پراسے بوٹی لگاکر کالم اپنے نام سے شائع کرنے
کی سوجی تو اس نے پیج میکر سے کہا کہ روزانہ ایک کالم ڈھونڈ کر میری
تصویرکے ساتھ شائع کیا کرو۔بس اس دن سے وہ مشہور ہونا شروع ہوگیا اور اب اس
کے اخبار کے قاری کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک کہ چندولال بوٹی کا لکھا
کالم نہ پڑھ لے۔ چندولال بوٹی تومشہور آدمی بن کر بہت خوش ہے لیکن جن کالم
نویسوں کے کالم وہ چوری کرتا ہے ۔وہ چندولال بوٹی کو جن الفاظ میں یاد کرتے
ہیں وہ بیان کرنا ممکن نہیں ۔بدقسمتی سے راقم بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن
کے کالم چندولال چوری کرتا ہے ۔کیا آپکو نہیں لگتا کہ آج صحافی براداری میں
بہت سے چندولال پیدا ہوچکے ہیں ؟جن کی وجہ سے آج صحافی برادری بدنام ہوکے
رہ گئی ہے۔اور اپنے آپ کو صحافی کہلوانے میں شرم محسوس کرتی ہے ۔میں کالم
نویسی کی دنیا کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے حکومت وقت سے مانگ کرتا ہوں کہ
ان بدکردار لوگوں کے خلاف سخت سے سخت قانون سازی کرے جو قوم کو غلط اور بے
بنیاد خبریں سناتے اور کالم چوری کرتے ہیں ۔مجھے اُمید ہے کہ بہت جلد صحافی
برادری متحد ہوکران نا پاک لوگوں کواپنی صفوں سے باہر نکال پھینکے گی۔اﷲ
تعالیٰ ہمیں حق لکھنے ،پڑھنے، کہنے ،سننے اور اس پر چلنے کی توفیق وطاقت
عطا فرمائے(آمین) |