ملک کے حالات دگرگوں ہیں۔
عام آدمی کے لیے عزت اور سکون سے جینا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ معاشی
مسائل نے اہل وطن کو شدید ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا کردیا ہے۔ جسم و
جاں کا رشتہ برقرار رکھنا اب جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ بہتر ڈھنگ سے
زندگی بسر کرنا اب بہتوں کے لیے مشن کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ حالات نے
کسی کو مشکلات سے مبرّا اور مستثنٰی نہیں رہنے دیا۔ مگر اِس کے باوجود
یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ جینا حرام ہوگیا ہے۔ سخت نامساعد حالات
میں بھی بہت سے لوگ نہ صرف یہ کہ زندہ رہتے ہیں بلکہ محنت سے جی نہیں
چراتے۔
|
|
جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں وہ بعض مواقع پر معمول کی
زندگی بسر کرنے میں بھی شدید دشواری محسوس کرتے ہیں۔ کسی بھی مشکل صورت
حال میں حوصلے کا پست ہو جانا دکھ کی بات ضرور ہے، حیرت انگیز یقیناً
نہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جہاں لوگ کسی کی مدد کرنے کے
معاملے میں غیر معمولی فراخ دلی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ بڑے شہروں میں
پریشان حال افراد کی مدد کرنے کا کلچر نہ صرف ہے بلکہ توانا ہے۔ مگر یہ
کلچر ہی خرابیاں بھی پیدا کر رہا ہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پریشانی
کی حالت میں انسان کے حواس ڈھنگ سے کام نہیں کرتے اور بدحواسی میں وہ
کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ بہت سے لوگ کسی بحران میں مبتلا ہونے پر اس سے
نجات پانے کے طریقے سوچنا ترک نہیں کرتے اور پھر اللہ ا ±نہیں کامیابی
بھی عطا کرتا ہے۔ کسی بھی پریشانی یا بحرانی کیفیت سے نپٹنے کا بہتر
طریقہ تو یہی ہے مگر اِسی معاشرے میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ
نامساعد حالات کے سامنے تیزی سے سِپر ڈال دیتے ہیں۔ کسی بھی نوع کی
جدوجہد سے قبل ہی شکست تسلیم کرلینا تو برے حالات کا حوصلہ بڑھانے والی
بات ہے!
کچھ لوگ بسوں میں اپنے بچوں کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور اپنی مشکلات
بیان کرکے مدد مانگتے ہیں۔ کسی بھی انسان کو اس کے برے حالات میں مدد
ملنی ہی چاہیے مگر اس معاملے میں چند بنیادی اخلاقی اقدار کا بھی خیال
رکھنا لازم ہے۔ جن بچوں کو گود میں لیکر یا ساتھ بٹھاکر دنیا کے سامنے
ہاتھ پھیلایا جاتا ہے پھر زندگی بھر ان میں مکمل عزتِ نفس اور مثبت و
مضبوط انا کے پروان چڑھنے کی راہ مسدود ہو جاتی ہے۔ مشکلات کا سامنا
کرنے والے کسی بھی انسان کو مدد مانگتے وقت یہ بات ذہن نشین رکھنی
چاہیے کہ بچوں کو ساتھ لیکر ایسا کرنے سے ان کی ذہنی ساخت بری طرح
متاثر ہوتی ہے۔ جن بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے مانگ تانگ کر کھانے کی
عادت پڑ جاتی ہے وہ خود داری کے جامع ترین احساس کے ساتھ زندگی بسر
کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جاتے ہیں۔ حالات کی خرابی انسان کو
پریشان بھی کرتی ہے اور بعض مواقع پر بدحواسی میں بھی مبتلا کردیتی ہے
مگر معاشی مشکلات اہم ہونے کے باوجود اِتنی اہم نہیں ہوتیں کہ ان کے
تدارک پر سبھی کچھ وار دیا جائے! معاشی مسائل حل کرنے کے لیے اپنے پورے
وجود کو داؤ پر لگا دینا کسی بھی اعتبار سے نفع کا سَودا نہیں۔ ہر مشکل
کسی نہ کسی بہتر صورتِ حال کی طرف لے جانے والے راستے کی بھی نشاندہی
کرتی ہے۔ پریشانی یا بحرانی کیفیت کے وارد ہوتے ہی ہاتھ پاؤں ڈھیلے
چھوڑ دینا اور پہلے ہی مرحلے میں شکست تسلیم کرنا ان کی شان ہرگز نہیں
جو بلند عزائم رکھتے ہوں۔ اور بلند عزائم کے بغیر بھرپور اور شاندار
زندگی بسر کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
معاشی مسائل کے حل کے لیے انسان کو محنت ہی کا آپشن اختیار کرنا چاہیے۔
محنت سے ہٹ کر کسی بھی راہ پر گامزن ہونے سے خرابی صرف بڑھتی ہے، کم
نہیں ہوتی۔ اگر معاشرے میں دوسروں کی مدد کرنے والے زیادہ ہوں تب بھی
اپنی مدد آپ ہی کی بنیاد پر کام کرنے کو اولین ترجیح کا درجہ دیا جانا
چاہیے۔ لوگوں کی توجہ پانے کے لیے بچوں کو استعمال کرنا بہت کارگر ثابت
ہوتا ہے کیونکہ چھوٹے بچوں کی بری حالت دیکھ کر سبھی کے دل پسیج جاتے
ہیں۔ مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مسائل حل کرنے کا یہ ڈھنگ نہ صرف یہ
کہ بہت اچھا اور پسندیدہ نہیں بلکہ اِس سے زندگی کی مشکلات بڑھ جاتی
ہیں۔ سب سے بڑا نقصان تو یہی ہے کہ بچوں کی نفسیاتی ساخت بری طرح مسخ
ہوکر رہ جاتی ہے۔ اِس ممکنہ نقصان پر غور کرنے کے بعد تو مزید کچھ
سوچنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ ہاتھ پھیلانے سے کہیں بہتر اور
زیادہ منفعت بخش آپشن محنت کا ہے۔ اگر پوری ایمانداری اور صدق دل سے
اپنایا جائے تو محنت کا آپشن ہاتھ پھیلانے کے تصور کو بھی ذہن سے کھرچ
کر پھینک دیتا ہے!
(تصویر : محمد محی الدین۔ لاہور) |