تم مانگو، توچندا - ہم مانگیں، تو بھیک

عصر کی نماز کا وقت قریب تھا لوگ مسجد میںآنا شروع ہوئے۔ ایک باوقار شخصیت کا مالک شخص ،صاف ستھرا سفید لباس زیب ِ تن کئے پہلی صف میں امام صاحب کے پیچھے دو تین آدمیوں کی جگہ چھوڑ کرنماز کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ جماعت ہوچُکی تواُس شخص نے، امام صاحب کے کان میں جا کر کچھ کہا او رضامندی کا اشارہ ملتے ہی ، کھڑے ہوکربڑ ے مدلل اور احسن انداز میں اپنا مقصد بیان کرنے کے بعد خاموشی سے آخری صف سے تھوڑا پیچھے ہٹ کرمسجد میں ہی کپڑا بچھا کر بیٹھ گیا۔

ان صاحب کے فوراََ بعد ایک اور آدمی ظاہری شکل وصورت سے ضرورت مند، پریشان حال، چہرے پر فکر مندی کے آثار کھڑا ہوکر کمزور اور کپکپاتی آواز میں عرض کرنے کی کوشش کرتاہے لیکن ابھی اُس نے ایک دو الفاظ ہی کہے تھے۔ پہلی صف میں بیٹھے ایک دو احباب نے اتنے رُعب ،دبدبے اور زور دار انداز سے ڈانٹا کہ مسجد کے ہال میں اُن کی آواز گونج اُٹھی مسجد سے باہر نکل جاﺅ۔ مسجد میں مانگنا منع ہے۔ اور اسی مفہو م میں کچھ مزید جملے بولے۔ وہ صاحب خاموشی کے ساتھ مسجد کے بیرونی دروازے کی جانب چل دیا۔

نمازی صفوں سے اُٹھ کرمسجد سے باہر آنا شروع ہوئے۔ جو صاحب مسجد کے اندر کپڑا بچھا ئے بیٹھے تھے نمازیوں کی اکثریت نے اُس کی حسب توفیق امداد کی۔ جبکہ دوسرا آدمی دروازے سے باہر جھولی پھیلائے کھڑا تھا۔ بہت ہی کم لوگوں نے اُس کی امدا د کی ۔

اس بات سے قطعی ہٹ کر کہ مسجد میں سوال کرنا، ذاتی ضرورت کے لئے مانگناجائز نہیں ۔اورمسجدمیں یا کہیں بھی مانگنے کی ممانعت کے پیچھے بھی ایک کارآمد معاشرہ کی ترویج کا فلسفہ کار فرما ہے۔ لیکن کسی بھی سوالی کو بھری مسجد میں سب کے سامنے جھڑکنا یا اُسے لعن طعن کرنا بھی تومناسب نہیں ہوگا۔
مورخین اور محدثین لکھتے ہیں۔ اللہ کے رسُول ﷺ ایسے سخی تھے کہ پاس کُچھ ہوتا یا نہ ہوتا اللہ کی راہ میں دیئے جاتے تھے۔ پاس نہ ہوتا تو کسی سے قرض لے لیتے لیکن مانگنے والوں کی ضرور ت پوری کرتے۔ یہ سب مانتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی مانگنے والے کو انکار نہیں فرمایا۔

اللہ نے جن کودیا ہے انھیں حکم ہے کہ۔۔ اللہ کی عطاءکو جوڑ جوڑ کے نہ رکھو اس میں سے کچھ حق غریبوں کا بھی نکالو۔ جو مستحق ہوں انکی مدد کرو۔ خصوصاََ اپنے عزیزوں سے نیک سلوک کرو جوپریشان حال ہوں ! دوسروں کا اس طرح خیال رکھنے والوں سے اللہ اور اُس رسول ﷺ خوش ہوتے ہیں۔

اسلام نے جہاں دیتے رہنے کی تاکید کی ہے۔ وہاں یہ بھی حکم دے رکھا ہے کہ محنت سے جی چرانے اور مانگ کر کھانے والوں کو یہ بتاﺅ کہ یہ بات اچھی نہیں اور انہیں محنت پر لگاﺅ! بھیک کے ٹکڑوں پر نہ پلنے دو۔ مانگنے والوں کو آنحضرت ﷺ پسند نہ فرماتے تھے۔ ہاں جو مجبور ہو اس کی بات الگ ہے۔

"عہدِ محبوب"نظام دکن میر محبوب علی خان کی انگریزی میں دلچسپ سوانح حیات ہے۔ اس کے مصنفین ہیریٹ وان کن اور موہنی راجن بیان کرتے ہیں کہ کسی کسان نے لکھا تھا۔ ۔ پیارے سرکار ! پانج سو روپے سے میری مدد فرما دیجئے۔ بچی کے ہاتھ پیلے کردوں گا۔

نظام دکن میر محبوب علی خان کا حکم تھا۔۔ ایسی ہر درخواست اُن تک پہنچے گی۔ جب کسان کی عرضی اُن کی نظر سے گزری تو فوراََ اس پر فرمان ہواکہ پانچ ہزار روپے دیئے جائیں۔ وزیر نے درخواست پڑھی تو معلوم ہوا کہ پانچ سو مانگے گئے تھے۔ وزیر نے دوسرے دِن کاغذات میں پھر اِس عرضی کو شامل کردیا۔ اس پر ایک مختصر نوٹ لکھا کہ۔۔ ۔۔۔پانچ سو مانگے گئے تھے پانچ ہزار کا حکم کہیں غلط فہمی سے تو عنایت نہیں ہوا۔ عرضی واپس آئی تو وزیر نے پڑھا لکھا تھا کہ۔ ۔۔ فوراََ پندرہ ہزار بھیج دو۔ وزیر کو ہمت نہ ہوئی کہ پھر کچھ لکھتا اسی وقت تعمیل کردی گئی۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ مانگنے والے کو اُس کی اُمید سے زیادہ دو تو جوخوشی اُسے ہوتی ہے۔ اس کا بدل اللہ کی رحمت ہے۔

حکمرانوں کا کا م عوام کی خدمت، ملک کی ترقی، عوام کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا، عوام کا معیا ر زندگی بہتر بنانا اور عام آدمی کو معاشرے کافعال شہری بنانا۔ دُکھ مصیبت اور پریشانی میں اپنے عوام کی مدد کرنا۔ لیکن کتنے سال گزرنے کے باوجود کشمیر کے زلزلہ زدگان ان سردیوں میں بھی بے یارومددگار ہیں ۔ بیرون ممالک کی امداد ، جدید اور سائنسی طرز پر زلزلہ زدگان کی رہائشوں کے وعدے کیا ہوئے؟

جب بھی اپنے وطن ِ عزیز کے حکمرانوں کو دُنیاکے ممالک سے امداد کی اپیل کرتے میڈیا اور اخبارات میں امداد کی اپیل کے بیانات پر نظر پڑتی ہے تونہ جانے کیوں وہ فقیر یاد کے دریچوں میں در آتا جومسجد کے دروازے سے باہر جھولی پھیلائے کھڑا صرف یہی کہے جارہا تھا۔ تم مانگو تو چندا ! ہم مانگیں تو بھیک یا شاید اب اُس نے ایک جملہ کا مزیداضافہ کردیا ہوجو کچھ یوں بنتا ہے۔وہ مانگیں تو امداد ۔۔ تم مانگو توچندا ۔۔ ہم مانگیں توبھیک
اللَّھُمَّ الرحَم اُمَّةَ مُحمَّدِِرَحمَةََعَامَة ً ۔ اللَّھُمَّ اَصلِح اُمَّةَ محمدِِ
MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 83507 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.