زباں سے کَہ بھی دیا لا
اِلٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اسلامی جمہوری پاکستان اسلام کے نام پر معر ض وجود میں آنے والا واحد
اسلامی ملک ہے۔ اس کے قیام کا مقصد تو یہ تھا کہ یہاں اسلام کا مبارک عدل و
انصاف والا نظام قائم ہو۔ ہر شخص کو اپنے دین و مذہب کے مطابق زندگی گزارنے
کی مکمل آزادی ہو ۔ اس مملکت خداداد کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔
اور مسلمان معاشرے میں مساجد کو ہمیشہ سے نمایا ں اہمیت حاصل رہی ہے۔ جہاں
مسلمانوں کی آبادی ہو، وہاں مسجد کا قیام نہایت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
مسجد مسلمانوں کے تشخص اور پہچان کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے ۔مسلمان مسجد میں
پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے ا پنے دکھ سُکھ اور حال احوال
سے متعلق تبادلہ خیال بھی کرتے ہیں ۔
مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جس علاقے میں
بھی مسلمان فاتحانہ داخل ہوتے،وہاں مسجد کا قیام ان کی پہلی ترجیح ہوتی تھی
۔ اسلامی معاشرے میں مسجد کثیرالمقاصد کردار ادا کرتی رہی۔ حضور نبی کریم ﷺ
جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ کی طرف تشریف لائے تو مدینہ منورہ کے قریب قبا
نامی بستی میںسب سے پہلے مسجد کی تعمیرہی کا اہتمام کیا ۔ یوں اسلام کی سب
سے پہلی مسجد "مسجد قبائ"کا قیام عمل میں آیا۔ آپ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف
لائے تو آپ ﷺ نے یہاں بھی سب سے پہلے "مسجد نبوی "کی تعمیر کی ۔
مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی تعریف قرآن مجید میں لکھی گئی ارشاد ربانی ہے۔
"مسجدوں کو آباد وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے
ہیں " (سورة التوبہ الآیة18) اور جو لوگ مساجد کو برباد کرتے ہیں ، ان کے
بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ "اور اُس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو
سکتا ہے جو مساجد میں اللہ کے ذکر سے لوگوں کو روکتا ہے اور انہیں برباد
کرنے کے لیے کوشش کرتا رہتا ہے" (سورةالبقرة الآیة 114)
اور ایک دوسرے مقام پرمشرک لوگوں کی نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اور
مشرک لوگ اﷲ کی مسجدوں کو آباد نہیں کرتے " (سورة التوبہ الآیة17)
مسجدیں اللہ کے گھر ہیں جو کوئی اللہ کے گھر آباد کرتا ہے اللہ ان کے گھر
آباد کرتا ہے اور جو کوئی اللہ کے گھروں کو برباد کرتا ہے اللہ ان کے
گھربرباد کر دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : "زمیں پر اللہ کی سب
سے زیادہ پسندیدہ جگہیں مساجد ہیں اور سب سے نا پسندیدہ جگہیں بازار ہیں "
مسجد کی تعمیر کی ترغیب دیتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : "جس کسی نے اللہ
کے لیے مسجد بنائی اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دے گا"
دور نبوی میں مسجد کئی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہی ۔ اگر کوئی مہمان یا
وفد آتا تو اسے مسجد میں ہی ٹھہرایا جاتا ، مال غنیمت کی تقسیم بھی مسجد
میں ہوتی تھی ، مسجد میں بچوں سے مختلف کرتب بھی کروائے جاتے ، عدالت بھی
مسجد میں لگتی تھی ، صحابہ کرام ؓ کی تعلیم و تربیت کا مرکز بھی مسجد ہی
تھا ۔ جب کبھی آندھی یا طوفان آتا تونبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی
اﷲ عنھم سب مسجد ہی کی طرف رجوع فرماتے ۔ الغرض مسجد اسلامی معاشرے کا
لازمی حصہ سمجھی جاتی تھی لیکن بد قسمتی سے ہمارے آج کے اس پُر ِفتن دور
میں مسجد کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ہمارے قانون میں عیسائیوں کے
لیے گرجے ، ہندوﺅں کے لیے مندر اور سکھوں کے لیے گردوارے بنانے کی تو
گنجائش موجود ہے (گرجوں ، مندروں اور گردواروں کی تزئین و آرائش کے لیے
کروڑوں روپے خرچ کیئے جا رہے ہیں ) لیکن بد قسمتی سے ہمارے اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں مسجدپر خرچ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کروڑوں روپے کے جاری
منصوبوں میں مسجد کے لیے کوئی فنڈ مختص نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ اب سرکاری
اداروں میں اپنی مدد آپ کے تحت بنائی جانے والی مساجد کو بھی نا پسند کیا
جارہا ہے۔ گورنمنٹ کالج فار ایلیمنٹری ٹیچرز چنیوٹ میں پہلی بار مسجد
1970ءمیں کچی اینٹوں سے بنائی گئی ، 1981ءمیں یہ مسجدپختہ ایٹوں سے تعمیرکی
گئی۔نارمل سکول کی پرانی عمارت کو خطرناک قرار دے کر مسمار کردیا گیا تو
اُس کے ساتھ ہی مسجد کی پرانی عمارت کو بھی شہید کر دیاگیا ۔ نارمل سکول کی
پرانی عمارت کی جگہ پر اب ایک پر شکوہ دو منزلہ عمارت تعمیر ہو چکی ہے ۔
تقریبا ً دو کروڑ اکسٹھ لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے اس منصوبے میں
مسجد سرے سے شامل ہی نہ کی گئی اور ُعذر یہ پیش کیا گیا کہ قانون میں اس کی
اجازت نہیں ہے۔
اب اپنی مدد آپ کے تحت مسجد کے قیام کا منصوبہ زیر غور ہے۔ 8دسمبر 2012ءکو
اس ادارے میں معائنہ کے لیے آنے والے ایک بہت بڑے آفیسر نے مسجد کے لیے
مختص جگہ کے بارے میں ارشاد فرمایا :"اس ادارے میں مسجد کی کوئی ضرور ت
نہیں DSD لاہور میں بھی تو کوئی مسجد نہیں " ( ٹریننگ کورسز میں شامل ہونے
والے مسلمان اساتذہ اور افسران کو ٹوٹی پھوٹی صفوں پر گراسی گراﺅنڈ میں
نماز پڑھنی پڑتی ہے اور باتھ رومز میں وضوکرنا پڑتا ہے۔ ٹریننگ پر لاکھوں
روپے خرچ کرنے کرنے والے ٹریننگ کے لئے آنے والے شرکاءکی سہولت کے لئے ایک
چھوٹی سی مسجد بنانے پر آمادہ کیوں نہیں؟ یہ DSD کے ذمہ دار افسران کے لئے
باعثِ شرم ہے۔ کیا اُنہیں حساب کے دن اپنے خالق و مالک کے سامنے حاضری دینے
سے استثناءحاصل ہے؟ )
اس سے پہلے چند دن قبل چنیوٹ کے D.C.Oصاحب نے بھی کہا تھا : "مسجد کو اس
جگہ پر نہیں ہونا چاہیے "
انگلش میڈیم اور چرچ سکولوں سے پڑھ کر آنے والوں سے اس کے سواء اور کیا
توقع کی جا سکتی ہے؟ جن کا اوڑھنا بچھونا مغربی رنگ میں رنگا ہوا ہو ۔ جن
کی راتیں نائٹ کلبوں میں رنگین ہوتی ہوں ، جن کا مقصد اپنے بیرونی آقاﺅں کی
چاکری ہو ، جو کھاتے کسی کا ہیں اور گن کسی اور کے گاتے ہیں ، جو اپنی
تہذیب و ثقافت اور زبان و پہچان سے بھی بے زار ہوں ، وہ مساجد کو سرکاری
اداروں سے الگ تھلک کرنے کے لیے بیتاب کیوں نہ ہوں ؟ انہیں کیا پتہ کہ مسجد
کا مسلمانوں کے ہاں کیا مقام ہے ۔ وہ تو اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے
سینے لال مسجد کو شہید کر کے اور اس میں سینکڑوں بے گنا ہ بچیوں کو فاسفورس
بموں کا نشانہ بنا کر بھی ٹھنڈے نہیں ہوئے ۔ ہائے افسوس!اب کالے انگریزوں
سے ہماری تہذیب و ثقافت دین و مذہب اور زبان و پہچان کو سخت خطرات لاحق ہیں
لہٰذا اب اس ملک و ملت کے وفادار دین ِ محمدﷺکے پہرے دار دینِ حق کی
سربلندی اور مسجد کی عظمت اور حفاظت کے لئے بیدار ہو جائیں تو بہتر ہے ۔
ورنہ
اب بھی نہ سنبھلو گے تو مٹ جاﺅ گے اے مسلمانو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں |