موت اور ملک الموت

علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب شرح الصدور سے اقتباسات کی روشنی میں فکر آخرت کے حوالے سے یادگار تحریر

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا:”آپ فرما دیجئے کہ تم کو موت کا فرشتہ موت دیتا ہے جو تم پر مقرر ہے ۔“یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی وفات کا وقت قریب آجاتا ہے تو ہمارے فرشتے اس کو موت دیتے ہیں اور کوتاہی نہیں کرتے۔

تفسیر :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ توفتہ رسلنا کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ رسل سے مراد ملک الموت کے مدرگار فرشتے ہیں۔

احادیث مبارکہ:وہب بن منبہ رحمة اللہ علیہ نے روایت کی کہ جو فرشتے انسانوں کو موت دینے آتے ہیں وہی انسان کی موت کے اوقات لکھ دیتے ہیں اب جب کسی نفس کی موت کا وقت ہوتا ہے وہ اس کی روح ملک الموت کے حوالے کر دیتے ہیں۔

حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی لانے والے ملائکہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلا م کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو عرش اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک کو بھیجا کہ زمین سے کچھ مٹی لے آﺅ جب فرشتہ مٹی لینے کو آیا تو زمین نے فرشتہ سے کہا میں تجھے اس ذات کی قسم دیتی ہوں جس نے تجھے میری پاس بھیجا کہ میرے مٹی تو نہ لے جاتا کہ کل اسے آگ میں نہ جلنا پڑے ۔جب وہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچا تو اس نے دریافت کیا کہ مٹی کیوں نہ لائے ؟فرشتہ نے زمین کا جواب سنا دیا کہ اے مولا ! جب اس نے تیری عظمت کا واسطہ دلا یا تو میں نے اسے چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے دوسرے فرشتے کو بھیجا ۔ اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ۔حتیٰ کہ ملک الموت علیہ السلام کو بھیجا ۔ زمین نے ان کو بھی یہی جواب دیا تو آپ نے فرمایا اے زمین ! جس ذات نے مجھے تیری طرف بھیجا ہے وہ تجھ سے زائد اطاعت و فرماں برداری کے لائق ہے میں اس کے حکم کے سامنے تیری بات کیسے مان سکتا ہوں ۔چنانچہ آپ نے زمین کے مختلف حصوں سے تھوڑی تھوڑی مٹی لی اور بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوئے تو اللہ نے اس کو جنت کے پانی سے گوندھا تو وہ کیچڑ ہو گئی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کر دیا ۔

روایت میں آتا ہے کہ دنیا کا نظام چار فرشتوں کے سپرد ہے ۔حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سپرد لشکروں اور ہواﺅں کا کام ہے ۔حضرت میکائیل علیہ السلام کے سپرد بارش اور نباتات کا کام ہے ۔حضرت عزرائیل علیہ السلام روح کے قبض کرنے کے کام پر مامور ہیں اورحضرت اسرافیل علیہ السلام ان سب کو امر الہٰی پہنچاتے ہیں۔

حضرت ربیع بن انس رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ملک الموت کے بارے میں ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا وہ تنہا روحیں قبض کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ملک الموت کے مدد گار ہیں اور متبع ہیں اور وہ ان کے قائد ہیں اور ملک الموت کا ایک قدم مشرق سے مغرب تک ہے اور مومنین کی روحیں سدرہ کے پاس ہوتی ہیں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فَالمُدَبِّرَاتِ اَمرًا کی یہ تفسیر روایت کی کہ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو ملک الموت کے ساتھ میت کے پاس قبض روح کے وقت حاضر ہوتے ہیں ۔ان میں سے کوئی روح کو لے کر چڑھتا ہے اور کوئی آمین کہتا ہے ، کوئی نماز جنازہ ہونے تک میت کے لئے استغفار کرتارہتا ہے ۔

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے ”وقیل من راق“ کی یہ تفسیر روایت کی کہ ملک الموت علیہ السلام کے مددگار فرشتے ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اس شخص کی روح کو قدم سے لیکر ناک تک کون چڑھائے گا۔

حکایت :خزرج نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک میت کے پاس دیکھا کہ آپ ﷺ ملک الموت علیہ السلام سے خطاب فرما رہے تھے کہ:”اے ملک الموت ! میرے ساتھی کے ساتھ نرمی کرو کیونکہ وہ مومن ہے ۔“تو ملک الموت نے جواب دیا کہ ”آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور دل خوش ہو ،میں تو ہر مومن پر نرمی کرتا ہوں ،اے محمد ﷺ کہ میں جب آدمی کی روح قبض کرتا ہوں تو چیخنے والے چیختے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ بخدا ہم نے اس پر ظلم نہیں کیا ،نہ اس کو وقت سے پہلے موت دی اور ہم نے اس کو موت دیکر کوئی گناہ نہیں کیا تو اگر تم اللہ تعالیٰ کے کئے پر راضی ہوتو مستحق اجر ہو گے ورنہ لائق عذاب اور ہم کو تو بار بار آنا ہی ہے اس لئے ڈرتے رہو ،خیمے والے ہوں یا کچے مکانوں والے ،نیک ہوں یا بد ،پہاڑی علاقوں میں رہنے والے ہوں یا ہموار زمینوں پر بسنے والے ،میں ہر رات اور ہر دن ان میں سے ایک ایک کے چہرے کو غور سے دیکھتا ہوں ، اس لئے میں ہر چھوٹے بڑے کو ان سے زائد پہچانتا ہوں ،بخدا اگر میں مچھر کی روح بھی قبض کرنا چاہوں تو بے اذن الہٰی قبض نہیں کر سکتا ۔ “جعفر بن محمد کہتے ہیں کہ ملک الموت علیہ السلام پنچ گانہ نمازوں کے اوقات میں چہروں کو دیکھتے ہیں تو اگر دیکھتے ہیں کہ کسی نیک اور نمازی انسان کی موت قریب آگئی ہے تو شیطان کو اس سے دور فرماتے ہیں اور اس کو کلمہ طیبہ کی تعلیم دیتے ہیں۔

ملک الموت علیہ السلام دن میں تین مرتبہ لوگوں کے چہرے دیکھتے ہیں ۔جس کی عمر پوری ہو جاتی اور اس کا رزق دنیا سے ختم ہو جاتا ہے ، اس کی روح قبض فرماتے ہیں ۔گھر والے رونے لگتے ہیں ،ملک الموت دروازے کے پٹ پکڑ کر کھڑے ہو کر فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا ۔میں تو اللہ کی طرف سے مامور ہوں نہ میں نے اس کا رزق کھایا اور نہ ہی اس کی روح قبض کی اور مجھے تو تمہارے پاس بار بار آنا ہے ۔حتیٰ کہ تم میں سے کوئی باقی نہ بچے۔ حسن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگ اگر اس فرشتے کو دیکھ پائیں اور اس کے کلام کو سن لیں تو میت کو بھول کر خود اپنے ہی آپ کو رونے لگ جائیں۔

حضرت میمون رحمة اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ میں مطلب بن عبد اللہ بن حنطب کی موت کے وقت ان کے پاس ہی تھا تو ایک شخص نے ان کی تکلیف دیکھ کر کہا کہ اے ملک الموت اس پر نرمی کیجئے تو مرنے والا جس پر بے ہوشی کا عالم طاری تھا کہنے لگا کہ میں تو ہر مومن پر نرمی کرنے والا ہوں۔
حکایت:ابراہیم علیہ السلام ایک روز اپنے گھر میں تشریف فرما تھے کہ اچانک گھر میں ایک خوبصورت شخص داخل ہوا آپ نے پوچھا ،اے اللہ کے بندے !تجھے اس گھر میں کس نے داخل کیا؟ اس نے کہا کہ گھر والے نے ۔آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک صاحب خانہ کو اس کا اختیار ہے ۔یہ تو بتاﺅ کہ تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ میں ملک الموت ہوں۔آپ نے فرمایا کہ مجھے تمہاری چند نشانیاں بتائی گئیں ہیں مگر تم میںان میں سے ایک بھی نہیں تو ملک الموت نے پیٹھ پھیرلی۔اب جو آپ نے دیکھا تو ان کے جسم پر آنکھیں ہی آنکھیں نظر آنے لگیں اور جسم کا ہر بال نوک دار تیر کی طرح کھڑا تھا ۔ابراہیم علیہ السلام نے فوراً تعوذ پڑھا اور ان سے کہا کہ آپ اپنی پہلی ہی شکل پر تشریف لے آئےے ۔ ملک الموت نے فرمایا کہ اے ابراہیم علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو وفات دیتا ہے جو اس کی ملاقات کو بہتر جانتا ہے تو ملک الموت کو اسی شکل میں بھیجا جاتا ہے جس میں میں حاضر ہوا اور دوسری روایت میں ہے کہ جب اس نے پیٹھ موڑی تو اس کی وہ شکل آئی جس سے وہ برے لوگوں کی روح کو قبض کرتا ہے ۔

فائدہ:ابن مسعود اور ابن عباس (رضی اللہ عنہم ) کی روایت میں یوں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے سوال کیا کہ اے ملک الموت آپ مجھے وہ صورت دکھائے جس میں آپ کفار کی روحوں کو قبض کرتے ہیں تو ملک الموت نے کہا کہ یہ آپ کی طاقت سے باہر ہے لیکن آپ کے اصرار پر انہوں نے وہ صورت دکھانی شروع کی اور فرمایا کہ آپ اپنا منہ موڑ لیجئے ۔ اب جو دیکھا تو ایک سیاہ شخص ہے سر میں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں اس کے جسم سے بال کے بجائے منہ میں آگ حال دیکھ کر آپ پر غشی طاری ہوئی ۔اب جو دیکھا تو آپ اپنی شکل میں موجود تھے ۔آپ نے ملک الموت سے کہا کہ اگر کافر کو محض تمہاری شکل ہی دیکھنے کی تکلیف برداشت کرنی پڑے تو یہ بہت بڑی تکلیف ہے ۔اب ذرا یہ بتائےے کہ مومن کی روح کس قالب میں ہو کر آپ نکالتے ہیں؟ فرشتے نے کہا کہ ذرا منہ پھیرئےے ۔ آپ علیہ السلام نے منہ پھیر کر جو دیکھا تو آپ کے سامنے ایک حسین نو جوان تھا ۔جس کا جسم مہک رہا تھا جس کے کپڑے سفید تھے ۔ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر مومن کو صرف آپ علیہ السلام کے دیدار کی دولت دی جائے تو کافی ہے ۔

حضرت مجاہد رحمة اللہ علیہ نے روایت کی کہ زمین ملک الموت کے لئے طشت کی طرح کر دی گئی ہے کہ جہاں سے چاہیں جس کو چاہیں اٹھالیں ان کے کچھ مددگار ہیں جو روحیں قبض کر کے ان کے حوالے کرتے ہیں۔

ملک الموت حاضر و ناظر:اشعت بن سلیم نے روایت کی کہ ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت سے دریافت کیا کہ وباءکے زمانے میں کوئی مشرق میں ہو اور کوئی مغرب میں تو آپ کیا کرتے ہیں؟تو انہوں نے کہا کہ میں روحوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بلاتا ہوں ،تو وہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان آجاتی ہیں اور زمین کو طشت کی مانند کر دیا گیا ہے جہاں سے چاہتا ہوں اٹھاتا ہوں۔

ملک الموت سے کہا گیا کہ آپ روحوں کو کس طرح قبض کرتے ہیں ۔۔؟ آپ نے فرمایا کہ میں ان کو پکارتا ہوں اور لبیک کہتی ہوئی حاضر ہو جاتی ہیں۔

حضرت شہر بن جوشب نے روایت کی کہ ملک الموت بیٹھے ہوئے ہیں اور دنیا ان کے دونوں گھٹنوں کے سامنے ہے اور لوح محفوظ جس میں عمریں ہیں ان کے سامنے ہے اور ان کی خدمت میں کچھ فرشتے ہمہ تن کھڑے ہیں جو ں ہی کسی کی موت کا وقت آتا ہے وہ فرشتے کو اس کی روح قبض کرنے کا حکم دیتے ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ان سے سوال کیا گیا کہ وہ شخص آن واحد میں مرتے ہیں کہ ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں تو پھر ملک الموت کیسے روحیں قبض کرتا ہے ۔۔؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ملک الموت کی قدرت اہل مشرق و مغرب میں ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس دستر خوان ہو، اب وہ جوچاہے اس میں سے اٹھالے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ملک الموت ہی تمام اہل زمین کو موت دیتے ہیں اور ان کو تمام اہل زمین پر اس طرح مسلط کیا گیا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی ہتھیلی والی چیز پر جب وہ کسی پاک نفس کو قبض کرتے ہیں تو ان کی روح ملائکہ رحمت کے سپرد کرتے ہیں او رجب کوئی خبیث روح قبض کرتے ہیں تو وہ ملائکہ عذاب کے حوالے کردیتے ہیں ۔ ابن ابی الدنیا اور ابو حاتم وغیر ہمانے یہی روایت قدرے تغیر سے بیان کی۔

حضرت خثیمہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ملک الموت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں آئے تو سلیمان علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا کہ اے ملک الموت! تم ایک گھر میں رہنے والے تمام انسانوں کو مار ڈالتے ہو اور اس کے پڑوس والوں پر آنچ تک نہیں آتی؟ حضرت ملک الموت نے جواب دیا کہ مجھے تو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کسے مارنا ہے ، میں تو عرش الہٰی کے نیچے ہوتا ہوں تو مجھے مرنے والوں کے ناموں کی فہرست دی جاتی ہے اس میں جس کا نام ہوتا ہے اسے موت دیتا ہوں اور جس کا نہیں اسے نہیں۔
حکایت: ملک الموت ،سلیمان نبی علیہ السلام کی بارگاہ میں آئے اور ان کے ساتھیوں میں سے ایک کو بڑے گھور کر دیکھنے لگے جب آپ چلے گئے تو اس شخص نے سلیمان علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ شخص کون تھے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ ملک الموت تھے اس نے عرض کی سرکار ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ میری روح نکالنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر تمہارا کیا ارادہ ہے ۔۔۔؟ اس نے عرض کی کہ حضرت ہواﺅں کو حکم دیں کہ وہ مجھے سر زمین ہند میں پہنچا دیں ۔آپ نے حکم دیا اور ہوائیں اس شخص کو سر زمین ہند میں چھوڑ آئیں۔ پھر ملک الموت تشریف لائے تو جناب سلیمان علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا کہ تم میرے ایک ساتھی کو گھور کر کیوں دیکھتے تھے ؟انہوں نے کہا کہ حضرت میں اس پر تعجب کر رہا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کی روح ہند میں قبض کروں اور یہ آپ کے پاس بیٹھا ہے کیسے ہند پہنچے گا؟

حکایت:حضرت ادریس علیہ السلام:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ایک فرشتے نے اجازت چاہی کہ وہ ادریس علیہ السلام کے پاس جائے ۔چنانچہ وہ ان کی خدمت میں آیا اور سلام کیا ۔ادریس علیہ السلام نے اس سے دریافت کیا کہ کیا آپ کا ملک الموت سے بھی کچھ تعلق ہے ۔۔۔؟ اس نے کہا جی ہاں، وہ میرے بھائی ہیں۔ ادریس علیہ السلام نے پوچھا کیا مجھے ان سے کچھ فائدہ پہنچوا سکتے ہیں۔۔؟ فرشتے نے کہا کہ اگر آپ چاہیں کہ موت آگے پیچھے ہو جائے تو یہ نا ممکن ہے ۔البتہ میں ان سے یہ کہوں گا کہ موت کے وقت وہ آپ پر نرمی کریں۔چنانچہ فرشتے نے ادریس علیہ السلام کو اپنے بازوﺅں پر بٹھایا اور آسمان پر پہنچا ۔یہاں ملک الموت سے ملاقات ہوئی ۔فرشتے نے کہا کہ مجھے آپ سے ایک کام ہے ملک الموت نے فرمایا مجھے آپ کی غرض معلوم ہے ۔آپ ادریس کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں ۔ان کا نام تو زندوں سے مٹ چکا ہے اب ان کی زندگی کا آدھا لمحہ باقی رہا ہے ۔چنانچہ جناب ادریس علیہ السلام فرشتے کے بازوﺅں ہی میں انتقال فرما گئے ۔

ملک الموت کا شکوہ:حضرت جابر بن زید نے روایت کی کہ ملک الموت پہلے لوگو ں کو بلا کسی درد و مرض کے وفات دیتے تھے ۔تو لوگ ان کو کوسا کرتے ۔ چنانچہ آپ نے بارگاہ خدا وندی میں شکوہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے امراض کو پیدا کر دیا اب لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بیماری کے باعث مر گیا ۔ملک الموت کا نام کوئی نہیں لیتا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا طمانچہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ۔وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ پہلے ملک الموت لوگوں کے پاس کھلم کھلا آتے تھے ۔لیکن جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے ایک تھپڑ مار کر ان کی ایک آنکھ پھوڑ ڈالی تو وہ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ ! تیرے بندے موسیٰ علیہ السلام نے میری آنکھ پھوڑ دی اگر وہ آپ کے مکرم بندے نہ ہوتے تو میں ان پر سختی کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جاﺅ میرے بندے سے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ بیل کی پیٹھ پر رکھ دیں، ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے بدلے ایک سال عمر میں توسیع کر دی جائے گی ۔ملک الموت نے یہ پیغام ان کو دے دیا ۔موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہو گا۔۔؟ کہا کہ موت! کہا کہ اگر موت ہی ہے تو پھر ابھی روح قبض کر لو۔ چنانچہ حضرت ملک الموت نے ان کو سونگھا اور ان کی موت واقعہ ہو گئی او رادھر حضرت عزائیل کی آنکھ دوبارہ واپس کر دی گئی ۔بس اسی دن سے حضرت ملک الموت چھپ کر آنے لگے ۔

حضرت داﺅد علیہ السلام کی موت:ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ داﺅد علیہ السلام بہت ہی باغیرت تھے جب گھر سے نکلتے تو دروازوں میں تالے ڈال دیتے تاکہ کوئی گھر میں نہ جائے ۔ایک دن جب واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ گھر میں ایک شخص کھڑا ہے آپ نے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ کہا میں وہ ہوں جو بادشاہوں سے نہیں ڈرتا،کوئی حجاب میرے لئے حجاب نہیں ۔داﺅد علیہ السلام نے کہا ۔بخدا تم ملک الموت معلوم ہوتے ہو،میں تم کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔آپ نے کمبل اوڑھا اور آپ کی روح قبض ہو گئی ۔

وصا ل حبیب کبریا ﷺ کا حال:حضور اکرم ﷺ کی وفات کے روز جبرائیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور مزاج پرسی کی ۔آپ نے فرمایا کہ میں بے چین اور مغموم ہوں ۔اتنے میں ملک الموت نے حاضری کی اجازت چاہی ۔جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ ملک الموت حاضری کی اجازت چاہتے ہیں آپ ﷺ سے پہلے کسی سے اجازت نہ چاہی اور آپ ﷺ نے اجازت مرحمت کی ۔وہ حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور عرض کی ”اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ ﷺ کی اطاعت کرو ں تو اگر آپ ﷺ چاہیں تو آپ کی روح قبض کر لوں اور اگر نہ چاہیں تو قبض نہ کروں۔۔؟“آپ نے فرمایا کہ اے ملک الموت کیا آپ واقعی اس پر مامور ہیں؟انہوں نے کہا ہاں جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی ملاقات کا مشتاق ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا اے ملک الموت !تم حکم الہٰی بجالاﺅ ۔چنانچہ انہوں نے روح قبض کر لی ۔

احمد نے زہد میں اور سعید بن منصور نے عطا ءبن یسار سے روایت کی کہ ملک الموت ہر گھر والے کو ہر دن پانچ مرتبہ غور سے دیکھتے ہیں کہ آیا انہیں کسی روح کے قبض کئے جانے کا حکم دیا گیا ہے یا نہیں؟

ملک الموت علیہ السلام کا کمال:حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ملک الموت بندوں کے چہروں کو روزانہ ستر مرتبہ دیکھتا ہے جب کوئی بندہ ہنستا ہے تو ملک الموت کہتا ہے کہ تعجب کی بات ہے میں اس کی روح قبض کرنے کو آیا ہوں اور یہ ہنس رہا ہے ۔

فائدہ:اس سے ملک الموت کے ہر جگہ پر حاضر و ناظر ہونے کا ثبوت ملا۔تو جب خادم رسول ﷺ ملک الموت حاضر و ناظر ہے تو آقائے ملک الموت جناب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بھی تو حاضر و ناظر ہیں۔

غیر انسان کی موت:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی روحیں تسبیح میں ہیں جب ان کی تسبیح ختم ہو جاتی ہے ان کی موت آجاتی ہے ۔ان کی موت ملک الموت کے قبضے میں نہیں۔

معمر کلابی کہتے ہیں کہ میں مالک بن انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے دریافت کیا کہ آیا مچھروں کی روح بھی ملک الموت قبض کرتے ہیں تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ان میں جان ہے ۔میں نے کہا جی ہاں،تو آپ نے فرمایا کہ بس پھر ان کی جان بھی ملک الموت ہی قبض کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے ۔اللّٰہ یتوفی الانفس حین موتھا۔ تفسیر میں ضحاک سے روایت ہے کہ ملک الموت انسانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور ایک فرشتہ جنات کی اور ایک شیاطین کی اور ایک پرندوں،چوپایوں،درندوں اور مچھلیوں ،کیڑے مکوڑوں کی اور فرشتے خود صعة اولیٰ میں مرجائیں گے اور ملک الموت ان کی ارواح قبض کرنے کے بعد مرجائیں گے اور جو خدا کی راہ میں سمندر کا سفر کرتے ہیں اور شہید ہو جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ خود ان کی ارواح قبض کرتا ہے کیونکہ وہ بہت ہی اعلیٰ ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس میں سوار ہوئے او رجہاد کیا ۔ابن ماجہ نے بھی اس کو روایت کیا۔

حکایت:پہلی امتو ں میں ایک شخص تھا جس نے چالیس سال تک خشکی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ،پھر اس نے دعا کی کہ اے اللہ ! مجھے شوق ہے کہ میں تیری عبادت سمندر میں کروں،چنانچہ وہ ساحل سمندر پر آیا اور لوگوں سے کہا کہ مجھے بھی کشتی میں بٹھاﺅ۔انہوں نے بٹھالیا۔ کشتی چلتے چلتے ایک درخت کے پاس پہنچ گئی۔ یہ درخت پانی میں ایک کنارے پر تھا ۔اس نے کہا کہ مجھے اس درخت پر بٹھا دو۔ لوگ اسے بٹھا کر آگے چل دئےے ۔اب ایک فرشتہ آسمان پر چڑھا اور حسب معمول کچھ بات کرنا چاہی لیکن بات نہ کر سکا ۔وہ سمجھ گیا کہ مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے چنانچہ وہ اس درخت والے کے پاس آیا کہ تم میری شفاعت کردو۔ اس نے دعا کی اور اللہ کریم سے درخواست کی کہ یا اللہ ! میری روح قبض کرنے کےلئے اس فرشتے کو مقرر فرمانا، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو وہی فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ جس طرح تم نے میری سفارش کی تھی اسی طرح میں نے تمہاری سفارش کی ہے اب تم جہاں سے چاہو تمہاری روح قبض کروں چنانچہ اس نے ایک سجدہ کیا اس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا اور اسی کے ساتھ اس کی روح قبض ہو گئی ۔

قبل الموت وصیت کا حکم:حضرت زید بن اسلم نے روایت کی انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ میرے باپ نے کہا کہ مجھے ایک حدیث یاد آئی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ اپنی وصیت اپنے سرہانے رکھے بغیر تین راتیں گزار دے تو میں نے قلم دوات منگائی تاکہ وصیت لکھوں مگر میں ان سب چیزوں کو سرہانے رکھ کر سو گیا ،میں نے خواب میں دیکھا ایک شخص سفید لباس والے جن کے جسم سے خوشبو مہک رہی تھی تشریف لائے۔ میں نے کہا کہ جناب کو میرے گھر میں آنے کی کس نے اجازت دی۔۔۔؟ کہنے لگے گھر والے نے ! میں نے کہا کون ہو۔۔؟ کہا ملک الموت ! میں یہ سن کر ان سے پہلو تہی کرنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے اعراض نہ کرو۔ میں تمہاری روح قبض کرنے کو نہیں آیا۔ میں نے کہا کہ میرے لئے جہنم کی آگ سے نجات کا پروانہ لکھ دو۔ انہوں نے کہا قلم دوات لاﺅ۔ میں نے انہیں قلم دوات اور کاغذ اٹھا کر دے دیا جو سرہانے رکھ کر سوگیا تھا ۔انہوں نے لکھا کہ بسم اللہ الرحمن اللہ الستغفر اللہ ،استغفراللہ اور اسی سے کاغذ کے دونوں حصے بھر دئےے اور کاغذ مجھے دے دیا اور کہا یہ ہے تمہارا نجات نامہ ۔میں گھبرا کر اٹھا اور چراغ منگوا کر وہ کاغذ اٹھا کر دیکھا جو سرہانے رکھا تھا اور اس پر یہی تحریر موجود تھی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی موت کی تیاری ،ملک الموت سے خوش شکل ملاقات اور آخرت میں نجات کی فکر کی توفیق دے۔ آمین
Pir Muhammad Tabasum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabasum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabasum Bashir Owaisi: 198 Articles with 658611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.