حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب
شام سے مدینہ تشریف لائے ، تو حالات کا جائزہ لینے اور عوام کے حالات سے
آگاہی کے سلسلے میں گشت لگایا کرتے تھے کہ ان کی رعایا کو کسی قسم کی
پریشانی تو نہیں ہے۔ ایک دن آپ اسی سلسلے میں گشت لگارہے تھے کہ ایک
جھونپڑی کے قریب سے گزر ے جس میں ایک بڑھیارہتی تھی ۔ جب آپ اس کے پاس
پہنچے تو اس بڑھیا نے نے پوچھا اے فلاں، عمر فاروق اس وقت کیا کررہے ہیں؟
حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ وہ ملک شام سے باخیریت واپس آگئے ہیں اور آج کل
مدینہ منورہ میں ہیں۔ بڑھیا نے کہا کہ اللہ عمرؓ کا بھلا نہ کرے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بولے یہ تم نے بددعا کیو ں کی ،عمر سے کیا
قصور سرزد ہوا ہے۔ بڑھیا بولی جس وقت سے عمر کو خلیفہ بنایا گیا ہے ، آج تک
انھوں نے میری خبر نہیںلی اور مجھے کبھی کچھ نہیںدیا۔ حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ نے بڑھیا سے کہا کہ عمر کو تمہارا حال معلوم نہیں ہوسکا اور نہ یہ
معلوم ہوسکا کہ تم یہاں رہتے ہو ۔ بڑھیا نے جواب دیا سبحان اللہ ! کسی کو
امیر المومنین بنایا جائے اور اسے اپنی رعایا کا حال معلوم نہ ہو۔ اگرچہ اس
کی رعایا کی وسعت مشرق و مغرب تک کیوںنہ ہو۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ رونے لگے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے یوںبولے ، اے عمر! تجھے اتنی
بھی فرصت اور خبر نہیں کہ امداد کی مستحق اس بڑھیا کا خیا ل رکھ سکے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس بڑھیا سے فرمایا، اے اللہ کی بندی ! یہ
تکلیف جو تمہیں عمر سے پہنچی ہے تم میرے ہاتھ کتنے داموں پر بیچو گی۔ میں
چاہتا ہوں عمر کی یہ لغزش تم سے قیمت دے کر خرید لوں اور عمر کو بچالوں،
بڑھیا بولی بھئی مجھ سے کیوں مذاق کرتے ہو۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے
فرمایا میں مذاق ہرگز نہیںکرتا ، سچ کہہ رہا ہوں کہ تم عمر سے پہنچی ہوئی
اپنی یہ تکلیف بیچ دو ، میں جو قیمت مانگو کی اس کی قیمت دیدوں گا۔
بڑھیا یہ سن کر بولی کہ میں اپنی یہ تکلیف 25دینار میں بیچتی ہوں، ابھی یہ
باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن
مسعود رضی اللہ عنہ بھی وہاںتشریف لے آئے اور آکر کہا ، السلام علیکم یا
امیر المومنین! بڑھیا نے جب امیر المومنین کا لفظ سنا تو گھبراگئی اور
پریشان میں اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بولی ، غضب ہوگیا ۔ یہ تو خود امیر
المومنین عمرؓ ہیں اور میں نے تو امیرالمومنین کے سامنے ہی انہیںبرابھلا
کہہ دیا ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بڑھیا کی یہ پریشانی دیکھی تو
فرمایا، ضعیفہ ! گھبراﺅ نہیں ، اللہ رحم فرمائے ،تم بالکل سچی ہو۔
پھرحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک کاغذ لکھنے کےلئے منگوایا لیکن کاغذ
نہ ملنے پر اپنے گڈری سے ایک ٹکڑا پھاڑ ا ، اور پھر آپ نے ایک تحریر لکھی
جس کی عبارت یہ تھی کہ ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ عمر بن خطاب نے اس ضعیفہ
سے اپنی لغزش اور اس ضعیفہ کی تکلیف و پریشانی جو عمر کے عہد خلافت سے لے
کر آج تک واقع ہوئی 25دینار میںخرید لی۔ اب یہ بڑھیا قیامت کے دن اللہ کے
سامنے عمرؓ کی کوئی شکایت نہ کرے گی۔ اب عمر اس لغزش سے بری ہے اس بیع پر
علی ابنِ طالبؓ اور ابنِ مسعود ؓ گواہ ہیں“۔
یہ تحریر لکھ کرآپ ؓنے اس بڑھیا کو 25دینار دے دیئے اور اپنے بیٹے عبد اللہ
بن عمرؓ بلایا اور وہ تحریر اس کے سپرد کرکے یہ وصیت کی کہ جب میری وفات ہو
تو اس تحریر کو میرے کفن میں رکھ دیا جائے ۔میں اسی حالت میں اپنے رب سے
ملنا چاہتا ہوں۔
(ماخوذ: حیات الحیوان ۔ صفحہ 187، جلد 1)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو قطعی جنتی ہیں ان کا مبارک حال دیکھ کر
ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیئے اور سوچنا چاہیئے کہ کل قیامت کے دن جب ہمارا
اعمال نامہ ظاہر ہوگا تو ہم کیا جواب دیں گے؟ اور آج کل کے سربراہوں کو بھی
غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی رعایا کا کہاں تک خیال رکھتے ہیں۔ |