دے ولولہ شوق جسے لذت پرواز
کرسکتا وہ زرہ مہ و مہر کو تاراج
ناوک ھے مسلمان ہدف اس کا ثریا
ہے سرسرا پردہ جان نکتہ معراج
آج سے64 سال قبل بابائے قوم محمد علی جناح نے اقبال کے خواب کو اپنی بصیرت
۔ژرف نگاہی۔عزم و ہمت اور مسلمانان برصغیر کی اجتماعی کوششوں سے انگر یزوں
اور ہنددوں کی مشترکہ سازشوں کو ناکام بنا کے پاکستان کے نام سے تعبیر
دی۔اگرچہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں مالی اور معاشی حصص
بہت کم آئے مگر بانی پاکستان نے اسی پہ اکتفا کیا اور قوم کو عمل پیہم پر
آمادہ کیا۔ہر قوم پر آزمائش آئی ہےہمارے سامنے دنیا کی کئی مثالیں موجود
ہیں۔دوسری جنگ عظیم میں جاپان ملیا میٹ ہو گیا تھا امریکہ نے اس پہ بم برسا
کرنہ صرف اس کی کمر بلکہ ریڑھ کی ہڈی ہی توڑ ڈالی مگر آفرین ھے اس قوم پہ
کہ جس نے سسکنے کے بجائے پامردی سےنہ صرف اپنے زخموں کا علاج کیا بلکہ ترقی
ےافتہ قوموں میں شمار ہو گیا۔اس کے بعد چین جس نےہمارے بعد سامراجی قوموں
سے آزادی حاصل کی اور آج وہ سپر پاور بننے جا رہا ھے ۔جبکہ ھم دھڑادھڑ غیر
ملکی قرضوں سے اپنا قومی وجود پالنے میں مصروف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی،،،،،،،،،،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے،،،،،،،،،،،،
ا لحمداللہ ھم پوری دنیا کے ساتھ اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں اور ہم
سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ 64 سال ہم نے کس حال میں گزارے ہیں بلکہ
پوری دنیا اس سے آگاہ ہے کہ ہم کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔آخرکیا وجہ ہے کہ
ہم آگے بڑھنے کے بجائے ترقی معکوس کی طرف سفر کر رہے ہیں؟اور ہمارا ملک اور
قوم منظم نہیں؟اس سے قبل اس کی نشاندہی کی جائے ایک نظر دنیا پر؛؛
دنیا کو ہم چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔۱،سپر پاور ،۲،ورلڈ پاور، ۳،
ریجنل پاور ۔۴۔ کمزور ممالک۔ایک زمانے میں روس سپر پاور تھا۔ امریکہ نے اس
کی مخالفت میں قدم بڑھا یا اور اپنی کوششوں سے بلاآخر روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر
دیا ۔اور خود سپر پاور بن گیا۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات تو یہ ہے کہ ھم
اقبال کے خواب کو تعبیر کیونکر دے سکتے ہیں ۔ کسی بھی ملک وقوم کی ترقی تین
ستونوں پہ کھڑی ہوتی یے ۔تعلیم ۔معشیت ۔اور دفاعی خود کفالت ۔اگر ہم
پاکستان کا جائزہ لیں تو کل آبادی ۔18 کروڑ کے لگ بھگ افرادی قوت 97،60
ملین ۔جبکہ وسائل کی تعداد ۶ بلین اگر فوج کا جائزہ لیں تو فوج کی کل تعداد
12 لاکھ 50 ھزار اور آٹھ سو ہے ۔افرادی قوت 97،60 ملین ہے ۔اگر ہتھیاروں کا
جائزہ لیں 328 لڑاکا طیارے ،3500 ٹینک ،۹ آبدوزیں ۸ بحری جہاز ،10 میزائل
حنف اول و دوئم ، غزنوی اول و دوئم ، شاہین اول دوئم غوری اول دوئم، سوئم ،
بابر اور رعد شامل ہیں ۔
اب سوچیں کہ ہمارے پاس کیا کمی ھے اگر ہم خود اپنے ملک سے معا شرتی
کمزوریاں اور عہ برائیاں جنہوں نے ھماری بنیادوں کو کھو کھلا کر دیا ہے
پنپنے نہ دیں تو ممکن ہے کہ ہم سپر پاور کی صف میں کھڑے ہو جائیں ورنہ
تباہی ہمارا مقدر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ھماری داستان نہ ہو گی ہماعی داستانوں میں
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگر ہم اپنے ملک کی سالمیت کے تقاضے کو سامنے رکھیں تو سب سے پہلا قدم ملک
سے کرپشن کا خاتمہ ۔ مگر افسوس کا مقام یہ ھے کہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔درحقیقت
نظام کی کلی تبدیلی جزوی تبدیلی ہمارا مسئلہ نہیں نظام تو پہلے سے ہی بلد
یاتی اداروں کی صورت میں نچلی سطح اور صوبائی ، مرکزی سیاسی اداروں کی شکل
میں موجود ہے ۔ اصل مسئلہ تو سیاسی نظام سے بیوروکریٹ اور مفاد پرست مرا
عات یافتہ طبقے کو باہر نکال کے پھینکنے کا ہے۔حکعمت کا فرض ہے کہ وہ نئے
سیاسی نظام کو بدعنوانی ، رشوت خوری ، فرقہ واریت اور علاقائی پرستی کے
خونی پنجے سے آزاد کرانے کے لئے غوروفکر کے بعد لائحہ عمل مرتب کرے ۔ دوسرے
نمبر پر میرٹ پہ نوکریاں اور طلباءکے داخلے تعلیمی قابلیت کے مطابق ھوں
کیوں کہ نوجوان ھی قوم کے معمار اور اقبال کے شاہین ہیں اور یہ معاشرے کا
70 فیصد ہیں۔ان کی صلاحیتوں کو ابھار نا اور ان کو ان کا جائز حق دینا ھی
انصاف اور ملکی ترقی کا تقاضہ ھے ۔
۔۔۔۔۔اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔اور اس کے بعد شہر مہں خوانچہ لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقربا پروری کا خاتمہ ،تعلیمی بجٹ میں اضافہ اور سب سے بڑھ کے اپنے ملک کی
افرادی قوت کا درست استعمال ملک کو مضبوط بنانے میں مددگار ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمہوریت اک طرز حکومت ھے کہ جس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درست ا ور قابل ااعتماد جمہوری ازم میں جو کسی بھی ملک کی بنیاد ہوتی ھے
اداروں کی خود مختاری اور اس کے ساتھ ساتھ شخصی آزادی معاشرے اور حکومت کے
ایسے پہلو ہیں جنہیں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ عالمی مالیاتی ادارے اور
ہماری معشیت میں مضبوطی بھی ملکی ترقی کا ایک اھم کردار ھے عالمی بینک کا
دباﺅ ھے کہ وہ حکومت کو دستاویزی بنائے عالمی بینک کے نمائندے کا کہنا ھے
کہ معشیت کودستاویزی بنانا اور ٹیکسز کی بنیاد کو بڑھانا پاک حکومت کے لیئے
ایک آزمائش ھے ۔ہمارے بجٹ کے خسارے پہ قابو پانے کے لیئے ۔جی،ڈی۔پی۔ میں
محصولات کے زریعے 13 فیصد اضافہ کرنا ہوگا ۔ عالمی بینک اور آئی ۔ایم ۔ایف
نے تیسری دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیا ھے اور یہ بات مغربی ما ہرین معاشیات
بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ دکھ اس بات کا ھے کہ ھماری تو اپنی حکومت نے اپنے ھی
ملک کو اسمگلروں اور چوروں کے ساتھ مل کے لوتا ھے ۔ضرورت اس امر کی ھے کہ
ان کرپٹ اداروں کے ساتھ مکمل طور پہ لڑا جائے۔ہمارے پیشہ ور ماہرین اور
زرعی ماہرین بھی بے تحاشی کماتے ہیں مگر کوئی ٹیکس دینے کو تیار نہیں
بیرونی سرمایہ نہ ھونے کے برابر ھے لہذا ملک میں قومی احتساب کو عمل میں
لایا جائے۔
ھم نے اکسیویں صدی میں قدم رکھ دیا ھے مگر افسوس کہ ھم ابتدا میں ھی 70
بلین ڈالر کے مقروض ھیں یہ وہ رقم ھے جو ھم نے مختلف ممالک ۔ عالمی مالیاتی
ادارے اور عالمی بینک سے سود پہ حاصل کی ھے مذید تشویش یہ کہ اس کی ادائیگی
کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔اور ھم اپنا وجود پالنے کے لئیے مذید قرض لینے
پہ مجبور ھیں ۔اگر ھم واقعی اقبال کے خواب کو بچانا چاھتے ھیں تو ھمیں اس
کاسئہ گدائی کو توڑنا ھو گا قرضوں کے بجائے قومی خود انحصاری سے اپنے قوت
بازو پہ بھروسہ کرنا ھوگا ۔ ھمارے ملک کے ھر شعبے میں تعمیر اصلاح کی ضرورت
ھے ھمیں اپنے ڈاکٹر ۔ انجیینئرز۔ اور افسران کو اپنے ملک کے استعمال میں
لانا ھو گا۔ بجائے اس کے کہ وہ بیرون ملک جائیں ۔ ضرورت نیک نیتی اور عمل
پیہم کی ھے ۔
آیئے ہوا کے رخ کو پہچانیں ھمارے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں آیئے اقبال
کے خواب کو تعبیر دیں۔
۔۔۔۔۔دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔کشتی کسی کی پار ھو یادرمیاں رھے ۔۔۔۔۔ |