انسان زندہ رہنے کے لیے زندگی
کوبھی داؤ پر لگا سکتا ہے؟ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ ان دونوں سوالوں کا ایک
ہی جواب ہے۔ یعنی یہ کہ ایسا کرنا کسی بھی طور منطقی یا درست نہیں۔ مگر کیا
کیجئے کہ بہت سے لوگ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے
کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ
ہوگا کہ بہت سے لوگ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کے لیے جان کی بازی
لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی
ملا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ رزق کا حصول اِنسان کا
بنیادی فریضہ اور عمل ہے۔ جائز طریقے سے رزق حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کیا
جاسکتا ہے مگر زندگی کا تحفظ بہر حال ہماری بنیادی ترجیحات میں شامل ہونا
چاہیے۔ جو کچھ بھی ہے وہ زندگی کے دم قدم سے ہے۔ جب سانسوں کا تسلسل ہی
برقرار نہ رہے تو کہاں کی دنیا اور کیسی اُس کی رونق؟
|
|
پاکستانی معاشرہ اب طرح طرح کے خطرات سے ”مرصّع“ اور ”مزیّن“ ہے۔ خطرات سے
کھیلنا تو جیسے اب کوئی بات ہی نہیں رہی۔ لوگ ذرا سی بات پر جذبات کی شِدّت
سے بے قابو ہوکر جان ہتھیلی پر دَھر لیتے ہیں۔ جس طرف نظر دوڑائیے، زندگی
کو داؤ پر لگانے والے مناظر ہمارا خیر مقدم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یاروں نے
موٹر سائیکل چلانے کے ہنر کو بھی جان کی بازی لگانے کے فن میں بدل ڈالا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیجئے تو ڈرائیور صاحبان اچھی خاصی بڑی بس یا ویگن
کو بھی موت کے کنویں کی موٹر سائیکل کی طرح چلانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے
ہیں! جس زمانے میں ٹرینیں چلا کرتی تھیں (!) تب بوگیوں کے درمیان ڈائننگ
کار کے ویٹر کی لپک جھپک سے بھرپور آمد و رفت بھی عجب نظارے پیش کیا کرتی
تھی۔ بہت سے لوگ ویٹر کو آرڈر کا کھانا اور پانی کی بوتلیں مختلف ڈبوں میں
پہنچاتے ہوئے دیکھ کر سرکس دیکھنے کی تمنا سے دست بردار ہو جایا کرتے تھے!
آپ نے موت کا کنواں تو دیکھا ہی ہوگا۔ موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے
والے ہماری تفریح طبع کی خاطر یومیہ اُجرت کے لیے اپنی جان پر ہی تو کھیل
رہے ہوتے ہیں۔ اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں جسم و جاں کا رشتہ
برقرار رکھنے کی کیسی سادہ و آسان جدوجہد کا آپشن میسر ہے! آپ سوچ رہے ہوں
گے کہ معمولی یومیہ اُجرت کے لیے جان کی بازی لگانا کہاں کی دانش مندی ہے۔
آپ کی سوچ غلط نہیں۔ مگر صاحب! اِس بات پر بھی تو غور کیجیے کہ جہاں لوگ
کسی منفعت کے حصول کی تمنا کے بغیر بھی جان کی بازی لگا دیتے ہیں وہاں کچھ
پانے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھناکون سی انوکھی بات ہے؟ بڑے شہروں کی بڑی
باتیں۔ کسی مضبوط سہارے کے بغیر بلندی پر کام کرنے والوں کو دیکھ کر یہ
اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے، اپنے اہل خانہ سے اور زندگی کے تسلسل سے
کتنی کمٹمنٹ رکھتے ہیں۔ غلط طریقوں سے پیسہ کمانے کے سو طریقے ہیں۔ کوئی
بھی غیر اخلاقی طریقہ اختیار کرکے بہت کچھ کمایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں محنت
کرنے والے روشن مثال ہیں۔ بڑی ہورڈنگز اور بل بورڈز پر لٹک کر کام کرنے
والے محنت کش اُن نوجوانوں سے تو بہر حال بہتر ہیں جو صنفِ نازک کی توجہ
پانے یا محض دِل پشوری کیلئے ون وھیلنگ کرتے پھرتے ہیں اور پھر کسی دن
حادثے کی نذر ہوکر اہل خانہ کو روتا ہوا چھوڑ کر اِس دنیا سے رخصت ہو جاتے
ہیں! جان کی بازی لگانے سے گریز اچھی بات ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ جو
اپنی جان جوکھم میں ڈال کر کچھ کمانے کی کوشش کرتے ہیں اُنہیں بھی معلوم ہے
کہ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے مگر کیا کیجیے کہ اِسی زندگی کو تسلسل سے
ہمکنار بھی رکھنا ہے۔ جو لوگ جان جوکھم میں ڈال کر کام کرتے ہیں اُن کا صرف
معاوضہ ہی نہ بڑھایا جائے بلکہ بہتر حفاظتی انتظامات بھی کئے جائیں تاکہ
کوئی جان بلا جواز ضائع نہ ہو۔ جو ادارے جان خطرے میں ڈالنے والے کام کراتے
ہیں اُنہیں پابند کیا جائے کہ متعلقہ لوگوں کو ایسی تمام سہولتیں فراہم
کریں جن سے اُن کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا ہو۔
(فوٹو گرافی : سید رضوان علی) |