پِہلا پِہلا پیار

ہر انسان کو زِندگی میں پیار کی اشد ضرورت ہُوتی ہے۔ یہ پیار اُسے زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے مدد فراہم کرتا ہے۔ اُور مشکل وقت پڑنے پر یہی پیار اُس میں ہمت و حوصلہ پیدا کرتا رِہتا ہے۔ جِسکے سہارے انسان ہر آزمائیش سے بخیر و عافیت گُزر جاتا ہے۔ لیکن ہر انسان کی زندگی میں اُسکے پہلے پہلے پیار کی اہمیت خاص مُقام رکھتی ہے۔

مجھے یہ بات ماننے سے بالکل انکار نہیں کہ مجھے ہمیشہ اِس بات نے اُلجھائے رکھا کہ میری زندگی میں پہلا پہلا پیار بن کر کُون داخل ہُوا تھا۔

میرے ذِہن میں سب سے پہلا خاکہ اپنی منگیتر کا تھا۔ جُو کبھی میری شریک حیات بن ہی نہ سکی۔ ایک معمولی سی بات نے میری والدہ کے جذبات کو مُشتعل کردیا۔ جسکے سبب امی جان نے یہ رِشتہ شادی سے کُچھ عرصہ قبل ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔ اُور میں اُس رشتہ کیلئے قریباً تین برس تڑپتا رَہا۔ اکثر نماز کے بعد میں زارُ وقظار رُوتے ہُوئے دُعائیں مانگتا رِہتا کہ کسی نہ کسی طرح یہ رشتہ بحال ہُوجائے۔ لیکن وُہ رشتہ کبھی بحال نہ ہُوسکا۔

پھر میری پہلی شادی کا مرحلہ آیا۔۔۔ شادی سے قبل مجھے اِس نئے رِشتہ کی ذرا بھی پرواہ نہیں تھی۔۔۔۔ لیکن شادی کے بعد آنے والی کے حُسنِ اخلاق نے مجھے اِسقدر مُتاثر کیا۔۔۔۔ کہ میرے خیالات میں تبدیلی واقع ہُوتی چلی گئی۔ اُور مجھے لگنے لگا کہ میرا پہلا پہلا پیار دراصل میری شادی کے بعد میری بیوی کی صُورت میری زِندگی میں دَاخل ہُوا ہے۔ پھر یہ خیال تب مزید مستحکم ہُوگیا جب صرف چار برس بعد میری شریک حیات اچانک ایک دِن گُردے فیل ہُوجانے کی وجہ سے اِس دارِ فانی سے کُوچ کر گئیں۔

ایک برس تک میں خُود کو سنبھال نہیں پایا ۔ سُوتے جاگتے ،کھاتے پیتے اُسی کی صورت نِگاہوں میں پھرنے لگی دِن کا اکثر وقت قبرستان میں گُزرنے لگا۔ اگلے برس اَماں کی ضد کے آگے مجبور ہُوکر پھر رشتہ ازدواج میں بندھ گیا۔ لیکن میرے ذہن کے کسی گُوشے میں یہ بات بیٹھ گئی کہ،، میری پہلی بیوی ہی دراصل میرا پہلا پہلا پیار تھا۔۔۔ ۱۸ برس گُزر گئے لیکن میرے خیال میں تبدیلی واقع نہیں ہُوئی۔۔۔۔ لیکن ۲۸ دسمبر کی شب جب چھوٹے بھائی نے رُوتے ہُوئےضیاالدین ھسپتال کراچی سے فون پر مجھے اِطلاع دی کہ،، اب ابا جان ہم میں نہیں رہے ہیں۔

تب چند لمحوں کے سکتے کے بعد مجھے یُوں محسوس ہُونے لگا۔۔۔ جیسے محمود بھائی کہہ رہے ہُوں،، کہ بھائی اب ہم نہیں رہے ہیں۔۔۔ بُہت مشکل تھا اِس بات پر یقین کرنا۔ کیوں کہ آج صبح ہی تُو میں اُن کے پاس تین دِن گُزار کر کراچی سے میرپورخاص آیا تھا۔ اُور بقول ڈاکٹرز اُن کی حالت سنبھلتی جارہی تھی۔۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہُورہا تھا۔ جیسے میں کوئی مُوم کا مجمسہ ہُوں۔ جو اچانک حدت بڑھ جانے سے پگھلنے لگا ہُو۔۔۔ جیسے ریت کا کوئی چھوٹا سا ٹیلہ ہُوں جو تیز ہَواوٗں کے جھکڑ سے بکھرنے لگا ہُو۔۔۔

میں اسقدر کمزور انسان ہُوں۔۔۔ آج سے پہلے مجھے خبر ہی نہ تھی۔۔۔ کئی اہم ترین رشتے مجھے چھوڑ کر جا چُکے تھے۔۔۔کئی مرتبہ زندگی میں متاعِ حیات لُٹنے کا احساس جاگا تھا۔۔۔ اپنی محبوب ترین زُوجہ کے انتقال کا سانحہ اپنی جگہہ ۔۔۔اپنی ڈیڑھ برس کی لخت جگر کو قبر میں اُتارنا بھی بُہت تکلیف دہ تھا۔۔۔لیکن اپنا وجود۔۔۔۔ آج پہلی مرتبہ احساس ہُورہا تھا کہ جیسے آج متاعِ اصل کھو چُکا ہُوں۔۔۔۔

جسقدر تکلیف کا احساس بڑھ رہا تھا۔ مجھے اپنی قُوت کے گھٹنے اُور بکھرنے کا احساس بھی شدید اذیت میں مُبتلا کئے جارہا تھا۔۔۔ گھر کے ہر ایک فرد کی خاموش بِہتی نِگاہوں پر میری نظر تھی۔ مگر مجھے وُہ کاندھا نظر نہیں آرہا تھا۔ جِس پر اپنا سر رکھ کر خُود کو سمیٹ سکوں۔۔۔ بلاآخر جاوید بھائی نے بڑھ کر مجھے سینے سے لگالیا۔۔۔ اُور اِسطرح میری آنکھوں کو برسنے کیلئے کُچھ پل مُیسر آگئے۔ ۲۹ دسمبر ۲۰۱۲ کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں بعد نمازِ جنازہ جب ابا جان کا چہرہ دِکھایا گیا ۔ تب بے شُمار لوگوں کی زُبان پر یہی جُملہ تھا۔۔۔ ماشاٗاللہ چہرے پر کتنا سکون و اِطمینان ہے۔ جیسے کوئی اپنی ذمہ داری پُوری کرنے کے بعد سکون سے سُوگیا ہُو۔۔۔ پھر وُہ وقت بھی آیا جب ابو کے جسم کو سُپرد خاک کردیا گیا۔

لیکن ابو کی تدفین کے بعد ایک سوال بار بار میرے ذِہن میں گونجتا رہا۔۔۔ کہنے والا کہہ رَہا تھا۔۔۔ آج اپنے دِل سے پُوچھو۔۔۔ کہ میرا پہلا پہلا پیار کُون تھا۔۔۔؟ آج جواب میں کوئی سِقم نہ ہُوگا۔۔۔ آج اِبہام کے اختتام کا دِن ہے ۔بس ذرا سا دھیان اپنے قلب کی آواز پر دُو۔۔۔ یہ راز آج آشکار ہُو جانے دُو۔۔۔ اُور اپنے حقیقی پہلے پیار کو جان جاوٗ۔۔۔ میں نے سُوچا آج آخر اِس سوال کی کیا تُک ہے۔۔۔؟ جواب فقط ایک تھا۔۔۔۔۔ کہ آج ہی صحیح وقت ہے۔ اگر اِس وقت کو کھو دِیا تو پھر کبھی جواب تلاش نہیں کرپاوٗ گے۔

سُو میں نے اپنے غم سے مُہلت طلب کی اُور سُوچنے لگا۔۔۔ کہ محبت پیار کی اَصل ہے۔ اُور مُحبت حُوصلہ دیتی ہے۔ مُحبت طاقت کا سرچشمہ ہے۔ مُحبت آگہی ہے۔ مُحبت سراپا شفقت ہے۔ محبت اخلاص ہے۔ مُحبت اگے بڑھنے کا جذبہ ہے۔ مُحبت جینے کی اُمنگ ہے۔ محبت عیب چھپادیتی ہے۔اُور محبت دُوسروں کیلئے ایثار کا نام ہے۔۔۔۔

تو آخر وُہ کون تھا۔۔۔۔؟ جِس نے مجھے حُوصلہ دِیا۔ طاقت بخشی ۔ آگہی کی پہلی سیڑھی پر گامزن کیا۔ شفقت کی بارشوں میں پروان چڑھایا۔ جسکی مُحبت میں کوئی لالچ نہیں تھا۔ کوئی قرض نہیں تھا۔ کِس نے ہمیشہ مجھے آگے بڑھنے میں مدد دِی۔ کِس نے ہمیشہ میرے پست حوصلوں کو جِلا بخشتے ہُوئے جینے کی اُمنگ کو بڑھایا۔۔۔ اُور دوسروں کی مدد کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار کیا۔اُور کس نے ہمیشہ میرے عیب چھپا ئے۔۔۔

میں جُوں جُوں سُوچتا چلا گیا میری آنکھوں کے سامنے میرے بابا کی تصویر واضح ہُوتی چلی گئی۔۔۔ میں فقط اپنے والد کی رُوح سے اتنا ہی کہہ پایا۔ بابا مجھے مُعاف کردینا۔۔۔ میں نے یہ جاننے میں بُہت دیر کردی کہ درحقیقت آپ ہی میرا پہلا پہلا پیار تھے۔۔۔ اُور میری اِس تاخیر میں قصوروار میں اکیلا نہیں ہُوں۔ بلکہ آپ بھی اِس میں شامل ہیں کہ،، آپ نے کبھی جتایا ہی نہیں کہ میری پرواز آپ ہی کے دَم قدم سے تھی۔ لیکن میں آج جان گیا ہُوں۔۔۔لیکن میں آج جان چُکا ہُوں۔۔۔

کُون لایا تھا خبر۔دِل کون دِہلا کر گیا
کُون مجھکو میرے ہی اَشکوں سے نِہلا کر گیا

جِس نے اُنگلی تھام کر مجھ کو چَلایا تھا سَدا
آج وُہ بابا میرا مجھ کو اکیلا کرگیا۔

لَمس جسکے ہاتھ کا دیتا تھامجھکو حُوصلہ
رُخ کو مجھ سے پھیر کر سُونا وُہ میلہ کر گیا
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1058819 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More