شر میں کبھی خیر کا پہلو بھی نکل
آتا ہے یہی دہلی میں ایک لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی کے بعد سامنے آیا ہے۔
اسلامی معاشرہ، اسلامی تہذیب اور شریعت اسلامی کی خوبیاں سرچڑھ کر بولنے
والے جادو کی طرح بولنے لگیں۔ تہذیب و ترقی کے نام پر مساوات اور حقوق
نسواں کے نام پر جس ’’مادر پدر‘‘ آزاد معاشرے کی تشکیل کے مضر اثرات کھل کر
سامنے آرہے ہیں اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ زنا کے جرم کی فوجداری ضوابط
میں جو سزا ہے وہ خاصی نرم خیال کی جارہی ہے اور زنا کے جرم کی سز ا ’’موت‘‘
مقرر کئے جانے کا مطالبہ زور شور سے ہر طرف سے کیا جارہا ہے۔ شریعت اسلامی
میں شادی شدہ اگر زنا کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو ’’سنگسار‘‘ (یعنی پتھر مار
مار کر ہلاک) کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔ غیر شادی شدہ کو80مرتبہ کوڑے لگائے
جاتے ہیں۔ بیشتر اسلامی ملکوں میں موت کی سزأ دی جاتی ہے چاہے ظاہر نہ کیا
جائے لیکن پھانسی کا مطالبہ اسی کو ذہن میں رکھ کر کیا جارہا ہے۔ حیرت کی
بات تو یہ ہے کہ اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ اور غیر انسانی اور نہ جانے کیا
کیا کہنے والوں کو اسلامی سزاؤں کی افادیت اور اسلامی معاشرہ کی پابندیوں
کی خوبیاں نظر آنے لگی ہیں۔
دہلی کے اس حادثہ پر جس طرح سارا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اس تعلق سے
بھی بہت کچھ کہا اور سناجارہا ہے بلکہ لکھا بھی جارہا ہے لیکن اس ہی کالم
میں ہم نے غالباً سب سے پہلے یہ بات کہی تھی کہ یہ سارا غم و غصہ ایک لڑکی
پر ہوئے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کے خلاف دل ہی
دل میں پکنے والے غم و غصہ کااظہار ہے بعد میں لوک سبھا کی اسپیکر میرا
کمار نے بھی عوامی احتجاج کو عوام کے دل میں عرصہ سے جمع ہونے والے لاوا کے
پھٹ پڑنے سے تعبیر کیااسی لیے حکومت اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر عوام
کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اسی احتجاج کے بارے میں ہم اور بہت
کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن ہم جو کہنا چاہ رہے ہیں وہ کہنے کا یہ موقع نہیں ہے۔
تاہم اس سارے احتجاج پر مغربی دنیا سے درآمد شدہ طرز و انداز زندگی کی چھاپ
نظر آتی ہے۔ موم بتیاں جلاکر احتجاج کرنے کا انداز ہم نے دو تین سالوں سے
اختیار کیا ہے۔ اسی سے ہماری روزمرہ کی زندگی اور معاشرہ پر مغربی اثرات کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مظلوم لڑکی سے ہمدردی جتانے والوں میں ایسے لوگوں
کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے جن کی ناک کے نیچے ان کے ماتحت آئے دن معصوم
لڑکیوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے رہے اور ان کے کان پر جوں بھی نہیں
رینگی ہماری مراد ہماری افواج کے سابق کمانڈر انچیف جنرل وی کے سنگھ سے ہے
جن کے ’’جیالے‘‘ سپاہیوں نے نہ صرف کشمیر میں بلکہ منی پور میں بھی ہر سال
سینکڑوں معصوم و مظلوم لڑکیوں کی عصمت دری کی اور جنرل صاحب نے ان کو سزا
دینا تو دور کی بات ہے ان کا دفاع کیا اب جنرل وی کے سنگھ کس منہ سے
احتجاجیوں میں شامل ہوئے؟ ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔ مختصر یہ کہ اس
احتجاج کے ذریعہ لوگ سیاسی و ذاتی فائدے اور شہرت کے حصول کی خاطر خاصی
تعداد میں شامل ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جو نہ ٹی وی کیمروں کے سامنے آتے ہیں
لاٹھیاں کھاتے ہیں، پانی کی دھار کی مار اور سخت سردی میں بھیگتے ہیں اشک
آور گیس کی اذیت سہہ کر بھی نام نمود اور خود نمائی سے دور رہتے ہیں۔ یہی
مخلص احتجاجی ہیں۔
ساری ہندوستانی قوم اس وقت جس ذہنی انتشار سے گذررہی ہے اس کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف چند دن قبل موت کی سزا برخواست کرنے کی بات
زور شور سے ہورہی تھی اور اب زنا باالجبر کے مجرم کو پھانسی دینے کی بات
زور شور سے ہورہی ہے۔ اس انتشار و تضاد کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی
اقدار و روایات سے منہ موڑ کر مغرب کی تقلید یا نقالی کو ہی تہذیبی ترقی کے
لیے ضروری سمجھ لیا۔ اگر ہم غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ایک عام ہندوستانی
(بلالحاظ علاقہ و مذہب و زبان) کا طرز زندگی و معاشرت صرف دس پندرہ سال میں
کس قدر بدل چکا ہے اور اگر 25یا 30سال قبل کی بات کریں تو پتہ چلے گا کہ سب
کچھ بدل گیا ہے۔ بزرگوں کے سامنے فلمی گانے تک سننا برا سمجھنے والے معاشرہ
میں اب اولاد ماں باپ کے ساتھ فلم دیکھتی ہے۔ سر کو ڈھانکنے بغیر بزرگوں
اور غیر مردوں کے سامنے نہ آنے والی لڑکیاں اور عورتیں دو پٹہ تو دور کی
بات ہے جینز اور ٹی شرٹس (اکثر بغیر آستین والی) میں گھروں سے باہر بلا
جھجھک نکل رہی ہیں۔ اپنی تہذیبی اقدار کو ترک کرنے کے بھیانک نتائج اب
سامنے آرہے ہیں۔ تیز رفتار ترقی اور تہذیبی طور پر مغرب کی برابری کا دعویٰ
کرنے والوں کی وجہ سے ہی آج ہندوستانی کا سرشرم سے جھک گیا ہے ہم اپنے آپ
سے شرمندہ ہیں۔ اسلامی قوانین ’’سعودی عرب میں دی جانی والی سزاؤں کو دور
جہالت کی نشانی طالبان کو درندے قرار دینے والے آج کو دور جہالت یا درندگی
کا شکار سمجھ رہے ہیں۔
گزشتہ صدی کے آخر میں جب بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے برسر اقتدار آئی
تھی تو ہم جیسوں کو امید تھی کہ ’’بھاررتی سنسکرتی (تہذیب) کی دہائی دینے
والے معاشرہ پر مغرب پر مغرب کے بڑھتے ہوئے اثرات کی روک تھام کریں گے لیکن
ہندوتوا کے علم برداروں نے اس ہندو تہذیب کے احیاء کا اعلان کیا جو ان کے
بقول بہت آزاد تھی اور پابندیاں تو اس پر مسلمانوں کی آمد کے بعد عائد ہوئی
تھیں عورت مرد کے تعلقات پر اسلامی تہذیب و قانون نے پابندیاں عائد کی تھیں
چنانچہ این ڈی اے نے معاشرہ کو ’’واقعی آزادی دلائی‘‘ فلموں پر سے سنسرشپ
ختم ہوگئی ٹی وی کو آزاد رکھا گیا بوس و کنار ہی نہیں بے حیائی بے لباسی و
فحاشی عام ہوگئی۔ روزگار کے سلسلے میں خلیجی ممالک خاص طور پر سعودی عرب سے
جانے والوں کا سلسلہ بڑھ گیا سعودی عرب میں قتل زنا اور چوری کے مجرموں کو
دی جانے والی سزاؤں کا بڑا چرچا ہونے لگا۔ عورت و مرد کے اختلاط سے آزاد
معاشرہ کو دقیانوسی کہا جاتا تھا گردن مار دینے اور ہاتھ کاٹنے کی سزاؤں کو
بربریت کہنے والوں میں اور معاشرہ کو مخلوط نہ ہونے دینے والی پابندیوں کی
وجہ گھٹن کااحساس کا ذکر کرنے والوں میں مسلمان بھی تھے۔ دوسری طرف جرائم
سے تقریباً پاک معاشرہ میں محفوظ و مامون رہنے کا احساس سب ہی کو تھا ۔
سعودی عرب میں جرائم کی شرح ساری دنیا سے کم ہونے کے باوجود سخت سزاؤں، خدا
کا خوف رکھنے والے افراد پر مشتمل معاشرہ کو سالہا سال سے دقیانوسی اور
دورِ جہالت کی یادگار کہا جاتا رہا ہے۔ ہندوستان میں تہذیبی ترقی کے ساتھ
مذہبی قوانین اور ضوابط پر عمل کم ہوگیا یہ بات غیر مسلموں کے تعلق سے بھی
صحیح ہے رام مندر بنانے کا عزم رکھنے والے رام کی تعلیمات سے دور اور
ناآشنا تھے کرپشن باعث فخر ہوگیا دولت کی فراوانی جرائم کی ترغیب کا سبب
ہوتی ہے۔ مغرب کی تقلید کا بھوت ہم پر اس بری طرح سوار ہے کہ ’’ہم جنس
شادی‘‘ اور شادی سے قبل جنسی تعلقات کی تائید ہونے لگی ہے۔ اس کی مخالفت
دقیانوسیت قرار دی جارہی ہے تو ایسے معاشرہ میں جو بھی نہ ہو وہ کم ہے اس
آزادی کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ میں جہاں ایسی آزادی کو اپنا حق سمجھنے
والوں کے ساتھ اس کو برا خیال کرنے والے لوگ بھی ہیں یہ دراصل تہذیبوں کا
ٹکراؤ ہے امن و قانون نافذ کرنے والے ایک طرف کرپشن کا شکار ہیں تو دوسری
طرف ان کی کارکردگی کا معیار یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی کی
مہم میں کتنے افراد (زیادہ تر مسلمانوں) کو پکڑتی ہیں (وہ بھی فرضی و من
گھڑت الزامات لگاکر) دہشت گردی کے کتنے جعلی منصوبوں و سازشوں کو بے نقاب
کرنے کا ڈرامہ کرتی ہیں جب یہ معیار کارکردگی ہوتو جرائم کی بیخ کنی کی
زحمت کی ضرورت کیا رہتی ہے؟ اسی وجہ سے جرائم بڑھ رہے ہیں۔
اسلام، اسلامی شریعت کے اندھی مخالفت کا زور کم تو نہیں ہوا ہے لیکن اسلامی
نظام اور سزاؤں کی افادیت کا یہ اعتراف ہے کہ موت کی سزا کے خاتمے کا
مطالبہ کرنے والے زنا کی سزا پھانسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ طالبا ن کی
دقیانوسیت اور بربریت کا ذکر کرتے ہوئے نہ تھکنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے
کہ ان کی قید میں رہی ہوئی ایک برطانوی خاتون صحافی طالبات یا اسلامی نظام
کی سختیوں سے ملے ہوئے تحفظ سے متاثر ہوکر وہ مسلمان ہوجاتی ہے اور ترقی
پذیر، روشن خیال آزاد معاشرہ والے ہندوستان میں عورتوں کو تحفظ کیوں حاصل
نہیں ہے۔ دہلی عورتوں کیلئے دنیا کا سب سے غیر محفوظ شہر کیوں قرار دیا
جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی طرح ہندوستان کو جرائم
سے پاک کرنے کے لئے اسلامی نظام کے نفاذ کا سوال خارج ازامکان ہے لیکن
اسلام سے نفرت کی وجہ سے اس نظام کی ہر اچھی چیز سے اجتناب کی ذہنیت کا
تدارک ضروری ہے۔ |