دہلی عصمت دری واقعہ نے کسی نہ
سطح پر ہر ایک شعبہ کو متاثرکیا ہے ، حتی کہ صدر جمہوریہ اور وزیرا عظم تک
نے لوگوں کو اس واقعہ کے پیش نظر مختلف پیغامات دئے ہیں ، ان موقر شخصیات
کے دیگر پیغام اور مشوروں سے قطع نظر تعلیمی پیغام اور مشورہ بھی اپنے آپ
میں ایک اہم پیغام ہے ،صدر جمہوریہ نے کہا کہ جرائم کے سدباب کے لئے تعلیمی
پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے ۔وہیں وزیر اعظم نے بھی کہا کہ اسکولی
تعلیم سے ہی اخلاقیات پر مشتمل تعلیم دینا ضروری ہے ، تاکہ اس صورت میں
عورتوں اورمردو ں کے جنسی مساوات اور خواتین کے احترام کا پہلو بھی اجاگر
ہوگا ۔ سی ایم او نے فروغ انسانی وسائل کی وزرات کی توجہ اس جانب مبذول
کرائی ہے کہ وہ اخلاقیات پر مشتمل تعلیم کو نصاب میں جگہ دے ، لیکن قومی
تعلیمی تحقیق کمیشن اور ٹریننگ کونسل نے اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس
منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا فی الحال محال ہے ، کیونکہ سرمایہ کی کمی حائل
ہے ۔
صدرجمہوریہ اور وزیر اعظم کا یہ مشورہ صد فیصد بجا ہے ، کیونکہ تعلیمی نظام
کی خرابی اور اچھائی کا براہ راست اثر نہ صرف طلباءپر ہوتا ہے بلکہ پورا
سماج متاثر ہوتا ہے ، سماج کے ہر شعبہ پر اپنا کردار ادا کرتاہے ، اگر نصاب
مثبت ہوگا اور اخلاقیات کے پہلو کو اپنے اند ر سموئے ہوگا تو لازما ً طلبا
پاک طینت ہوں گے ، انہیں ہر طبقہ کے لوگوں سے پیش آنے کا طریقہ معلوم ہوگا
، جس سے سماج میں ایک خوشگوار فضا قائم ہوگی ، رواداری ، انس ومحبت اور
باہمی تعلق داری کا اچھا سماں ہوگا ، ایک دوسرے کے حقو ق کا پاس ولحا ظ
رکھیں گے ،لیکن جب صورتحال مختلف ہوتو معاشرہ کا منظرنامہ بھی جداگانہ ہوگا
، اخوت جانثاری کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی ، لوگ خود غرض ہوں گے ،
کسی کو کسی کا کوئی خیال نہیں ہوگا ، انسانی قدروں کی پامالی ایک عام بات
بن کر رہ جائے گی ۔
اس تناظر میں آج اپنے معاشرہ پر نگاہ ڈالتے تو یہی صورتحال نظر آتی ہے ،
روز بروز جرائم کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے ، یہانتک کہ اعلی تعلیمی گاہیں
بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ، وہاں بھی بے راہ روی اور بے غیرتی کا ماحول ہے
، نہ اساتذہ اپنے ساگردوں کے تئیں نیک جذبات رکھتے ہیں اور نہ ہی طلباءاپنے
اساتذہ کے تعلق سے ۔ ظاہر ہے جب اساتذہ اور طلبا ایسے کردار اداکریں گے
توسماج پر برا اثر پڑے گاہی ، کیونکہ طلباءیہاں سے جو سیکھ کر نکلنے لیں گے
، اسی کا مظاہر ہ باہر بھی کریں گے ، جس سے معاشرہ بے راہ رو ہوگا ،لوگ
تعلیم یافتہ حضرات کے کردار وعمل سے سیکھ کر ان کے جیسا رویہ اپنانے لگیں
گے ، جس لازمی نتیجہ سامنے آئے گا کہ سماج سکون کی سانس کے لئے کوترستا رہے
گا ۔
صدرجمہوریہ اور وزیر اعظم کا یہ بیان واقعی ا نتہائی توجہ طلب ہے ، مگر
سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر وہ اتنے کے بعد کیوں بیدار ہوئے ؟ جوبھی ہے دیر آید
اور درست کے مصداق ان کا یہ بیان خوش آئند ہے ۔ جرائم کا گراف تو روز بروز
بڑھتا ہی جارہا ہے ، دیگر کرائم کے معاملات سے قطع نظر اگر صرف تعلیمی
اداروں کے جرائم وکرائم پر نگاہ ڈالیں گے تو خون کے آنسو ں رونا پڑے گا ،
تعلیم یافتہ حضرات پر ایسے ایسے جرائم کے الزام ہیں ، جن سے حیوان بھی شرما
جائے ۔ ملک کی عزت مآب شخصیات کو ہمیشہ جرائم کے سدباب کے لئے اقدامات کرنا
چاہئے تھا ۔ تعلیم یافتہ حضرات اور تعلیمی اداروں کے کرائم وجرائم پر گفتگو
کے لئے چند صفحات نہیں ،دفتر درکار ہے ۔ ذیل میں صرف ایک واقعہ پر تجزیہ
کیاجاتا ہے ۔
چند دنوں قبل ایک خبر منظر عام پر آئی ، جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ واقعہ
کچھ یوں ہے کہ جالندھر پولس نے نشیلی اشیا ءکی خرید وفروخت کے معاملہ میں
چار نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے ۔ ان کا تعلق خوشحال گھرانوں سے ہے اور وہ
خود تعلیم یافتہ بھی ہےں ۔ ان کے پاس عالمی شہرت یافتہ تعلیمی اداروں کی
ڈگریاں بھی ہیں ۔ پولس کا دعوی ہے کہ اب تک کی سب سے بڑی نشیلی اشیا کی
خرید وفروخت کرنے والی یہ کھیپ ہے ۔ ان کی گرفتاری کے بعد متعدد اقسام کی
نشیلی اشیاء34کلو 200گرام میتھا ایم فیٹامائن اور 19کلو فیڈرن وغیرہ بھی
برآمد ہوئی ہےں ، جن کی قیمت بین الاقوامی بازار میں 200کروڑ سے زائد بتائی
جاتی ہے ۔ ان نوجوانوں کی شناخت امن دیپ سنگھ چیما ، سکھوند رسنگھ عرف لڈو
، ہرکنول جیت سنگھ عرف روپا اور ہرجندر سنگھ کی شکل میں ہوئی ہے ۔ ان گینگ
کا سرغنہ رنجیت سنگھ عرف راجہ ہے ۔ رنجیت سنگھ کے پاس جہاں دہلی سمیت متعدد
شہروں میں مکانات اور دیگر املاک ہیں وہیں چیما کے پاس نیوزی لینڈ کا مستقل
ریزیڈینٹ اسٹیٹس ہے ۔ چیما نے بی بی اے کیا ہے تو روپا کے پاس کیلی فورنیا
جیسی عالمی شہرت یافتہ اعلی ومعیاری یونیورسٹی سے کیمیکل تکنیک پروسیسنگ
میں ڈپلومہ کی ڈگری موجود ہے ۔
حقیت تویہ ہے کہ تمام تر معاشی مسئلہ اعلی تعلیم سے ہی وابستہ نہیں ہے ،
مگر ہر سطح پر تعلیم یافتہ کے لئے روزگار کے مواقع ضرور دستیاب ہوتے ہیں ۔
اعلی ومعیاری درس گاہوں سے تحصیل علم کے بعد معاش کوئی اہم مسئلہ نہیں رہ
جاتاہے ۔ لہذا غور وفکر کا موضو ع ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ ہوکر بھی ان
نوجوانوں نے ایسی روش کیوں اختیار کی جو کہ باعث شرمساری ہے ؟اگر یہ نوجوان
اپنی اعلی ڈگریوں کو ہی بنیاد بنا لیتے تو ان کو اچھی ملازمت مل سکتی تھی ،
ان کی بہترین ذریعہ آمدنی ہوسکتی تھی ، اپنے اہل خانہ کو بھی جائز طریقے سے
مدد بہم پہونچا سکتے تھے ، ملک وقوم کی بھلائی کے لئے اپنا تعاون دے سکتے
تھے ، مگر سوال یہ ہے کہ آخر ایسے بے راہ رو کیوں ہوگئے ؟کیوں قانون شکنی
پر اتر آئے ؟نشیلی اشیا جیسی مضرت رساں کی خرید وفروخت میں کیوں پھنس گئے
؟اس کا سید ھا سا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ حرص وطمع نے انہیں ایسا کرنے پر
مجبورکیا ہے ۔ فی الواقع حرص وطمع کا شکار ہوکر انسان جائز وناجائز اورحسن
وقبح کی تمیز تک کھوبیٹھتاہے ، چنانچہ حرص وطمع کو ”ام الجرائم “کہنے میں
کوئی مضائقہ نہیں ۔ حریص ، لالچ کی پیا س بجھانے میں کسی چیز کی پرواہ نہیں
کرتا ہے ۔لہذا یہیں سے بدعنوانی یعنی رشوت شتانی ، قانون شکنی، دھوکہ دھری
اورمکاری وعیاری کی داغ بیل پڑتی ہے ۔ اس میںبھی کوئی شک نہیں کہ ملک وقوم
کی ترقی کا انحصار علم پر ہی ہے ۔ بدون تعلیم اقبا ل وعروج کاخواب
سجاناانتہائی سطحی فکر ہے ۔ شخصیت کی نشو ونما اورکردار سازی میں اس کا ہی
عمل دخل ہوتا ہے ۔ اگرکوئی حریص ہوجائے تو اسے تعلیم بھی ،جو اقبال وعروج
کی جانب ہی رہنمائی کرتی ہے ، بے راہ رو ہونے سے نہیںبچا پاتی ہے ۔ اعلی
تعلیم یافتہ ہوکر بھی انسان بدکرداری سے نہیں شرماتا ہے ۔ قانون شکنی کرتے
ہوئے انہیں شرم محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ ان جوانوں کی حالت بھی اس سے ذرا بھی
مختلف نہیںکہ ان کی لالچی بلکہ
مادہ پرستانہ ذہنیت نے غیر قانونی عمل پر ابھارا دیا ہے ۔ علم سے غیر آشنا
اگر مادہ پرستی کا شکار ہوکر اس حدتک غیر ذمہ دارانہ قدم اٹھائے تو بھی
سوچنے کی بات ہے ، مگر تعلیم یافتہ مادہ پرستی سے اس درجہ مغلوب ہوجائے تو
نظام تعلیم پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ، کیونکہ اگر اعلی ومعیاری
اداروں سے تعلیم یافتہ ایسی اوچھی حرکتیں کریں تو یہ باعث شرمساری ہے ۔
آج اگر قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح کے نظام تعلیم پر نگاہ ڈالیں تو
بڑی مایوسی ہوگی ۔ نظام تعلیم کی خامیوں سے دل بے چین ہونے لگتاہے ۔ اس کی
دیگر خامیوں سے قطع نظر عنقا ہوتی ”اخلاقیات “ بھی سب سے بڑی خامی ہے ۔
اخلاقیات کے اسباق کے فقدان کی صورت میں ہی اعلی تعلیم یافتہ بھی اوچھی
حرکتوں سے جھجھکتے نہیں ، انہیں جائز وناجائز اور حسن وقبح کی حدیں
پھلانگتے شرم نہیں آتی ہے ۔ اخلاقیات سے عاری نصاب پڑھ کر ظاہرہے طلباءکے
اندر ہمدردارنہ قوت پیدا نہیں ہوگی ، جاں نثاری اوروفاشعاری کا جذبہ پیدا
نہیں ہوگا ۔ دوسروں کے دکھ درد کا احساس نہیں ہوگا ، بلکہ قابل قدر ڈگری
یافتگان بھی بے حسی کا ثبو ت دیں گے ۔ طبی تعلیم کو ہی لیجئے ، اطبا ءجنہیں
”مجازی خدا“بھی کہاجاتا ہے ، آج بے حسی کا ثبوت کا دینے لگے ہیں ۔ وجہ یہی
ہے کہ اخلاقیات وشفافیت ہرجگہ سے عنقا ہوگئی ہے۔ اچھے میڈیکل کالج میں
داخلہ کے وقت ہی اخلاقیات کا خون رشوت کی شکل میں خوب ہوتا ہے ۔ ظاہرہے
”تلافی مافات “کی صورت میں وہی طلباءڈاکٹربن کر وہ سب کچھ کر گزر تے ہیں
،جن کی امیدمجازی خدا سے قطعی نہیں کی جانی چاہئے ۔ سماج کے ہر شعبہ پر
تعلیمی نظام کی خامیوں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ چنانچہ بنیادی سطح سے اوپر
تک اس نظام میں شفافیت اور اخلاقیات کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے ، ا س
کے فقدان کی صورت میں ہرسطح پر برائیاں عام ہوسکتی ہوسکتی ہیں۔
ہندوستان میں بیدار مغز ،اصحاب فکر ودانش اورتعلیم دوست افراد تعلیمی فروغ
پر غوروفکر کرتے رہتے ہیں ، مگر علی العمو م بنیادی تعلیمی نظام پر توجہ کم
ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اعلی سطحی تعلیم کے لئے معیاری درسگاہوں میں جاکر
بھی طلباءاپنی شخصیت نہیں سنوار پاتے ہیں،ان نوجوانوں کی طرح دیگر خرافات
میں پھنس کر اپنی تمام تر توانائیاں ضائع کردیتے ہیں ، جن سے معاشرہ میں
برائیاں فروغ پاتی ہیں ، دیگر نوجوان بھی ان کی دیکھا دیکھی اپنے مستقبل کو
بھول جاتے ہیں ، دوسروں کے حقوق تلف کرتے ہیں انہیں کوئی خوف نہیں ہوتا ،
صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہر حد کو پھلا نگ جاتے ہیں ۔ نوجوانوں کو
اگر واقعی ملک وقوم کے حق میں مفید بنا نا ہے تو اس کے لئے موقع کے لحاظ سے
تعلیمی نظام پر نگاہ ڈالنا ہوگی ۔ سرسید مرحوم نے کہاتھا ’جوتعلیم حسب
احتیاج وقت نہ ہو وہ غیر مفید ہوتی ہے‘۔اسی طرح ایک دانا کا کہناہے ’اگر
حسب احتیاج وقت لو گوں کی تعلیم وتربیت نہ ہوتو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ
لوگ اول مفلس اورمحتاج ، پھر نالائق وکاہل ، اس کے بعد ذلیل وخوار ،پھر چور
و بد معاش ہوجاتے ہیں ‘۔ان نوجوانوں سمیت دیگر بے راہ رو نوجوان کو دیکھیں
تو مذکورہ قول کی صداقت دودوچار کی عیاں نظر آئے گی ۔ ملک کے نوجوانوں میں
جو بے راہ روی اور عدم رواداریپائی جارہی ہے وہ ہرایک کے لیے باعث تشویش ہے
، خود ملک کے وزیر اعظم نے کہاکہ ’ملک کے نوجوانوں میں عدم رواداری بڑھتی
جارہی ہے جو کہ ملک کے لئے باعث تشویش ہے ،چنانچہ نصاب تعلیم میں اخلاقیات
پر زور دینا انتہائی ضروری ہے ‘۔ بس اب دیکھنے کی بات ہے کہ تعلیمی اداروں
میں کس قدر اخلاقیات پر زور دیا جاتا ہے ۔ |