اُہ خدایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تعلیم ہے؟

یہ آواز میرے دِل کے پردوں کو چیڑتی ہوئی نکلی جب میں نے ایک اخبار میں شائع ہونے والی خبر اور تصویر کو دیکھا۔کہ ایک اچھی یونیفارم میں ملبوس طالب علم گویا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بہت ہی اچھے ادارے کا طالب علم ہے اوروہ بس کے انتظار میں بس سٹاپ پر اپنا بیگ زمین پر رکھ کربڑے ہی اطمینان سے اس بیگ پر بیٹھا ہوا تھا گویا کہ یہ کتابوں کا بیگ نہیں اس کی آرام دہ کرسی ہو۔ میں بحثیت استاد اپنے اندر ہی اندر شرم کے سمندر میںڈوب گیا اور میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا آج کا نوجوان ایسی تعلیم حاصل کررہا ہے؟جسے اس کی قدر ومنزلت کا ہی نہیں پتہ ،میں نے خود سے کہا اس طالب علم سے اچھا شخص تو وہ دوکاندارہی ہے جوکہ اپنے سامنے رکھے ہوئے میز پر نہ خود بیٹھتا ہے نہ کسی کو بیٹھنے دیتا ہے۔ کیونکہ اس کا یقین ہوتا ہے یہ میری روزی کا اڈا ہے اور یہ ایک پاک جگہ ہے جس کے ذریعے اللہ پاک مجھے روزی دیتا ہے۔ پر آج کا طالب علم بیگ کو کیا عزت دیتا ہے۔ یہ شعر آج اس قوم کی تعلیم کی عکاسی کرتاہے۔
حیرت ہے کہ تعلیم وترقی میں ہیں پیچھے
آغاز جس قوم کا اقراءسے ہوا تھا

یہ تو ہمارا پاکستانی طالب علم ہے اوراب میں آپکو انڈونیشیاءکے ان بچوں کا حال بتاتا ہوں جو روزانہ بلاناغہ دریا عبور کرکے اپنے اسکول پہنچتے ہیں۔ تو کچھ کے والدین انہیں گاڑی پر اسکول چھوڑنے آتے ہیں لیکن انڈونیشیا ءکے جزیرے سماترا کے ان ننھے بچوں کا کیا کہیے ،جو اپنے اسکول تک آنے کیلئے دریائی راستہ عبورکرتے ہیں۔ (Suranth) دریا کے کمر تک آتے پانی کے درمیان یہ بچے روزانہ اپنا اسکول یونیفارم اور بستہ سر سے اونچاکرکے 25میٹر طویل راستہ طے کرتے ہیں۔ دریا کنارے پہنچنے کے بعد یہ بچے اپنا یونیفارم تبدیل کرکے اسکول کیلئے رواں درواں ہوجاتے ہیں کہتے ہیں ارادہ پختہ ہو تو بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان وجاتی ہے۔ اور شاید یہ بچے بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جب ہی تو انہوں نے بہتے دریا کو کبھی اپنی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

انڈونیشیاءکے ایسے بچوں کیلئے ہی تو ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا۔
جرات ہے تو افکارکی دنیا سے گزر جا
ہیں بحر خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے

انڈونیشیاءکے ان بچوں کو کسی مشکل کی پرواہ نہیں ہے تب ہی تو وہ روزانہ بلانا غہ دریا عبور کرکے تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں۔ میری بات تو اپنے ملک سے دوسرے ملک تک جا پہنچی میں واپس اپنے ملک ہی آتا ہوں۔ اس تصویر کے نیچے شائع ہونے والی تحریر کچھ اس طرح تھی ۔انسان کو جہالت اور حیوانی رویوں سے نجات دلاکر علم اور شعور میں لانے والی کتابوں کا احترام بھی ضروری ہے کتابوں سے بھر ے بستے پر بیٹھا طالب علم والدین اور اساتذہ کی تعلیم وتربیت پر سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔؟ لیکن یہ آج کا کونسا نوجوان ہے؟؟؟ یہ نوجوان تو وہ طالب علم ہوا کرتے تھے کہ جو استاد کی جوتیاں اٹھانے میں بھی آپس میں جھگڑتے تھے یہ تو وہ طالب علم ہوا کرتا تھا جو استا د کے ہاتھ پکڑ کر چلنے سے اپنے پاﺅں میں جوتے پہننے بھول جایا کرتا تھا یہ تو وہ طالب علم تھا جو میلوں دور اپنے گھوڑے سے اتر کر اپنے استاد صاحب سے پڑھنے جایا کرتا تھا تاکہ استاد کی شان میں گستاخی نہ ہوجائے دراصل بات یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو تعلیم کے اصل مطلب کا پتہ تھا لیکن آج کا طالب علم کیا صرف ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے؟؟؟ یہ تصویر دیکھ کر ہم سب کو جو شرمندگی اٹھانی پڑی ہے اس سے بچنے کیلئے ہم سب کو بچوں کی تعلیم سے بھی پہلے دوچیزوں پر گہری توجہ دینی پڑے گی ''نشوونما''اور ''ماحول''اگر ہم بچوں کی نشوونما اور ماحول پر سبقت حاصل کرلیں تو ہم بچوں کو تعلیم کے اصل معانی سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ نشوونما اور ماحول ہی تو بچوں کو بگاڑتا اور سنوارتا ہے نہ کہ تعلیم...............میں انہیں دُعا یا ں کلمات سے اپنی بات کا اختتام کرتاہوں ۔
لُب پہ آتی ہے دُعا بن کر تمنامیری
عِلم کی شمع سے ہو مُجھ کو محبت یا رب

تحریر محمد نعمان نعیم کاہنہ نو لاہور کینٹ
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 514115 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.