سپریم کورٹ کی سرزنش، پولیس کی پھرتیاں

کراچی میں25 دسمبر 2012ءکو قتل کیے گئے، نوجوان شاہ زیب کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سول سوسائٹی کا احتجاج رنگ لے آیا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے اس بہیمانہ قتل پر از خود نوٹس لے کر پولیس کی بااثر قاتلوں کو چھوٹ دینے اور فائل دبانے کی کوششیں ناکام بنادیں۔ 4 جنوری کو عدالت عظمیٰ میں شاہ زیب قتل کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس نے آئی جی سندھ کو 24 گھنٹوں میں ملزمان نہ پکڑنے پر عہدے سے برخاست کرنے کا انتباہ کیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ساری دنیا میں اس سفاکانہ قتل پر شور مچا ہوا ہے، لیکن آئی جی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ غریب کے بچے کو قتل کردیا گیا قاتلوں پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ عدالت عظمیٰ نے شاہ زیب کے مبینہ قاتلوں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کے پاسپورٹ منسوخ، بینک اکاﺅنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔

سندھ پولیس کے ڈی ایس پی اورنگزیب خٹک کے بیٹے شاہ زیب خان کے قتل کی تفتیش میں پولیس نے دانستہ عدم دلچسپی دکھائی جس کے باعث ملزمان کو فرار ہونے کا موقع ملا۔ جہاں تک قتل کی بات ہے تو میڈیا رپورٹوں کے مطابق شاہ زیب کی بہن کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر مقتول کی ملزمان سراج تالپور اور اس کے دوست شاہ رخ کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی تھی،جس کے بعد انہیں ڈیفنس میں واقع سلطان مسجد کے قریب قتل کیا گیا۔ مقتول شاہ زیب اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا جب کہ ملزمان کا تعلق اندرون سندھ کے بااثر وڈیرے گھرانوں سے ہے جس کے باعث پولیس پر دباﺅ تھا کہ کیس کو آگے نہ بڑھنے دے۔ قاتلوں کی عدم گرفتاری پر کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرے ہوئے ، سوشل میڈیا میں احتجاج ہوا،اخبارات میں خبریں لگیں، رپورٹیں شائع ہوئیں پھر چیف جسٹس نے اخباری تراشوں پر از خود نوٹس لیا۔ سپریم کورٹ کے نوٹس لینے اور آئی جی سندھ کو قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ڈیڈلائن دینے کے بعد یہ ہائی پروفائل کیس بن گیا ہے۔ عدالت کے احکام کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور اسلام آباد، حیدرآباد، سکھر سمیت متعدد شہروں میں پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے۔

اطلاعات کے مطابق پولیس نے مورو میں چھاپہ مار کر شاہ زیب قتل کیس میں نامزد ملزم سراج تالپور کو ان کے بھائی سجاد تالپور سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے۔ قتل کیس میں دوسرے نامزد ملزم شاہ رخ جتوئی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ملک سے فرار ہوچکا ہے۔پولیس کے مطابق شاہ زیب قتل کیس میں نامزد ملزم سراج تالپور سمیت 4 ملزمان کو حیدر آباد اور دادو سے گرفتار کرلیا گیا ہے، گرفتار ملزمان میں سراج تالپور، امداد، سجاد، اور غلام مرتضیٰ شامل ہیں۔ پولیس نے ڈیفنس کے علاقے خیابان بدر میں بھی چھاپا مارا جہاں سے ایک گاڑی برآمد کرکے 2 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق قبضے میں لی گئی گاڑی شاہ زیب قتل میں استعمال کی گئی تھی اور اس پر مورو 5 کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی، جبکہ گاڑی کے مالک کا نام آصف لوند تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ آصف لوند واردات کے وقت شاہ جتوئی کے ساتھ موجود تھا۔

سپریم کورٹ نے شاہ زیب کے قتل کا نوٹس لے کر مظلوموں کی داد رسی کی ہے۔ اگر عدالت نوٹس نہ لیتی تو پولیس اسی طرح بے حسی کا مظاہرہ کرتی اور کچھ روز بعد پولیس ملزمان کو مفرور ظاہر کرکے اس کیس کی فائل ہمیشہ کے لیے بند کردیتی جس کے بعد ملزمان عدالتوں سے اپنی ضمانتیں کروالیتے۔ یہ عدالت کی طاقت ہی تو ہے جب اس نے قاتلوں کی گرفتاری کا حکم دیا تو پولیس کی دوڑیں لگ گئیں۔ بلاول زرداری نے گزشتہ دنوں عدالت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وقت کے قاضی کے پاس سی این جی، آٹے و دیگر اشیاءکے نرخ مقرر کرنے کا وقت ہے لیکن میری ماں کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا وقت نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ ملزموں کو پکڑنا تو پولیس اور تفتیشی اداروں کا کام ہے، عدالت تو صرف احکام جاری کرسکتی ہے، بے نظیر قتل کیس میں خود حکومت قاتلوں کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتی۔ اور پھر قاتلوں کی عدم گرفتاری کا ڈھنڈورا پیٹ کر عوام کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنا چاہتی ہے اور اب انتخابات قریب آتے ہی اسے کیش بھی کرانا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہفتے کے روز پراسیکوٹر ایف آئی اے چودھری ذوالفقار نے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بے نظیر بھٹو قتل کیس کی جلد سماعت کے لیے درخوست دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بے نظیر قتل کیس گزشتہ 5 سال سے التواءکا شکار ہے اس کا ٹرائل جلد مکمل کیا جائے۔ دنیا جانتی ہے کہ خود ایف آئی کے پراسیکوٹر ہی عدالت میں اس کیس کا مکمل چالان پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

شاہ زیب قتل کیس میں بھی آصف زرداری کی حکومت نے سندھ کے بااثر وڈیروں کو تحفظ فراہم کیا، اب عدالت کے نوٹس لینے کے بعد ہی اس کیس میں پیشرفت کی امید پیدا ہوئی ہے، جب حکومت لوگوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوجائے اور مفاد عامہ کے کاموں کو کرنے سے ہچکچائے، ٹال مٹول سے کام لے، عوام کو انصاف فراہم نہ کرے تو پھر عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ پھر اس پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟

آصف زرداری کی پارٹی کے دور حکومت میں نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (NICL) اسکینڈل میںیوسف رضا گیلانی نے اپنے دوست ایاز خان کو چیئرپرسن شپ دلائی، اس دوران 5 ارب روپے کا غبن ہوا، سپریم کورٹ نے حج معاہدوں میں غبن پر سو موٹو نوٹس لیا، اسی طرح رینٹل پاور کیس میں عدالت عظمیٰ نے تقریباً 455 ارب روپے کا نقصان بچایا جو کہ فراڈ پر مبنی منصوبہ تھا۔ عدالت کے حکم پر رینٹل پاور پلانٹس کی ایڈوانس اور انٹرسٹ کی مد میں دی گئی 8 ارب 68 کروڑ کی رقم واپس لی گئی۔ پاکستان اسٹیل ملز جیسے عوامی ادارے سے 2008-09ءکے دوران 22 ارب روپے لوٹے گئے۔

2012ءمیں پاکستان اسٹیل ملز کے خسارے اور واجبات کا بوجھ 165 ارب روپے تک بڑھ چکا ہے۔ ایفی ڈرین اسکینڈل میںپی پی حکومت میں شامل افراد پر 7 ارب روپے کے ممنوعہ کیمیکل کی درآمد سے رقوم کمانے کا الزام ہے۔ پاکستان ریلوے کی حالت دیکھئے، 2008ءمیںریلوے کا خسارہ 17 ارب تھا لیکن آصف زرداری کے دور حکومت میں اب قریباً 100 ارب کے قریب پہنچ چکا ہے۔ پی آئی اے جو ایک منافع بخش ادارہ تھا، اقربا پروری اور بااثر افراد کے رشتہ داروں کی کلیدی عہدوں پر تقرریوں سے ڈوب چکا ہے، اس کا خسارہ 40 ارب روپے سے بڑھ کر 100 ارب ہوچکا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی کی حکومت نے گریڈ 21 کے 54 افسران کو بغیر کسی میرٹ کے ترقی دی، یہ عدالت عظمیٰ ہی تھی جس نے یہ ترقیاں کالعدم قرار دیں۔ وزیراعظم کے داماد راجا عظیم الحق کی ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر تقرری پر بھی عدالت نے نوٹس لیا۔

اگر سپریم کورٹ صدر زرداری اور ان کے رفقاءکی کرپشن کے آگے بند نہ باندھتی تو یہ لوگ پورا ملک ہی بیچ دیتے۔ عدالت نے متعدد مواقع پر شہریوں کی داد رسی کی ہے اور عوام کے حقوق انہیں دیے۔ لیکن لوٹ مار کرنے والوں کو عدالت کا یہ کردار ایک آنکھ نہیں بھارہا۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86389 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.