فرقہ بندی یا مسلک پرستی میں
موضوع فرقہ پرستی / مسلک بندی پڑھا۔میرا تبصرہ اسی سلسلہ میں ہے ہماری مسلم
قوم کی ایک بد قسمتی رہی ہے کہ ہم افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ
جو امت اسلامیہ کے بارے میں قرآن میں کہا گیا تھا کہ "تم امت وسط ہو۔ ۔ ۔
۔" تو وسط سے مراد اعتدال بھی ہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اعتدال سے
کوسوں دور ہیں۔ اعتدال سے دوری کی ایک اور مثال فرقہ پرستی ہے۔فرقہ پرستی
میں بھی دو انتہائیں ہیں۔ اگر ہم ان انتہاؤں سے بچ جائیں تو شاید ہم اس
طریق پر عمل پیدا ہونے میں کامیاب ہو جائیں جس کو محمد عربی(صلی اللہ علیہ
وسلم) کا طریقہ کہا جاتا ہے۔اس سلسلہ کی ایک انتہا تو وہی ہے جس کو نام ہی
فرقہ پرستی دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں تو اوپرمندرجہ بالا پوسٹس میں کما
حقہ بحث کی جا چکی ہے۔کوئی خود کو سنی کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہے اور اسی
کو حق بجانت سمجھتا ہے۔کوئی شیعہ کہلاتا ہے اور کوئی شافعی تو کوئی
حنبلی۔کچھ خود کو برملا حق پر کہتے ہوئے دوسروں کو جھٹلاتے اورعذاب آخرت کی
وعیدیں سناتے ہیں اور اکثر خود کو دل میں حق جانتے ہوئے انجانے میں دوسروں
کی تکفیر کر رہے ہوتے ہیں۔الغرض فرقہ پرستی کے جنجال نے ملت اسلامیہ کی روح
سلب کر لی ہے ۔اور اس انتہا کی انتہا ایک دوسرے کی تکفیر کے بعد ایک دوسرے
کو اللہ کے نام پر قتل کرنا ہے۔لیکن اس سلسلہ کی دوسری انتہا اس کے رد عمل
کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک مسلمان ان فرقوں کے پیروکاروں کو اس
گندے کھیل میں ملوث دیکھتے ہیں تو انکے دماغ میں سوچ پیدا ہوتی ہے کہ ہم کر
کیا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں اس کے دل میں ان فرقوں کے لیے ایک نفرت سی
پیدا ہو جاتی ہے اور وہ حنفی، حنبلی، شیعہ، مالکی، دیو بندی ،بریلوی کہلانے
والوں سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ان سے بیزاری کا اعلان کرتا ہےاگر ہم یہ سمجھ
لیں کہ آخر فرقہ بندی ہے کیا تو ہمارے کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔کیا فرقہ
بندی یہ ہے کہ کوئی شخص حنفی مسلک پر عمل پیدا ہے اور کوئی شخص مالکی اور
کوئی حنبلی اور کوئی شیعہ؟ یا فرقہ بندی اس سے ہٹ کر کوئی اور چیز کا نام
ہے؟
اگر ہم چند نکات کو سمجھ لیں تو ہم ان دونوں انتہاؤں سے بچ سکتے ہیں۔پہلا
سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا حنفی،شیعہ،مالی،حنبلی،دیوب ندی، بریلوی
مسالک فرقہ ہیں؟ اور فرقہ آخر ہوتا کیا ہے؟فرقہ سے مراد گروہ ہوتا ہے جو
اپنی رائے کو الگ کر کے اس کو حق جاننا اور دوسروں کو باطل ٹہرانا شروع کر
دیتا ہے۔ اس تعریف کو اگر ہم تھوڑا سا مزید وضاحت سے بیان کریں تو ہم کہہ
سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص صرف اپنی رائے کو حق جانتے ہوئے دوسروں کی تکفیر
کرنا شروع کر دے وہ فرقہ بندی کر رہا ہے۔جبکہ مندرجہ بالا تمام مسالک
درحقیقت مکتبہ فکر یعنیSchool of Thoughtہیں۔ یعنی کسی مسئلہ پر مختلف آرا
رکھنے والے ادارے۔اور اختلاف کرنا کوئی جرم نہیں۔قوموں کی ترقی کا سب سے
بڑا فیکٹر ان میں موجود اختلاف رائے ہی ہوتا ہے۔ خود نبی پاک نے اختلاف کو
اپنی امت کے لیے رحمت قرار دیا ہے۔مسئلہ صرف تبھی پیدا ہوتا ہے جب ہم اس
اختلاف کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کی تکفیر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مکتبہ فکر یا School of
Thoughtsمیں اختلاف کیوں پیدا ہوا؟تو اس کا جواب بھی آسان ہے۔احادیث پر نظر
رکھنے والے افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے
مسلمانوں کی سہولت کے لیے ایک کام کےلیےایک سےزائد ہدایات دی ہیں۔ آپ (صلی
اللہ علیہ وسلم )سے نماز اول وقت میں بھی پڑھی ہے اور درمیانی وقت میں بھی
اور آخری وقت میں بھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نےنماز کبھی ایک طریقے سے
ادا کی اور کبھی دوسرے طریقے سے۔ تو اس وقت دور دور سے قبائلی آیا کررتے
تھے تاکہ نبی پاک(صلی علیہ وسلم)سے اسلام کی تعلیم حاصل کر سکیں۔ توکبھی
کسی کو کسی طریقہ کی تعلیم ملی اور کسی کو دوسرے طریقہ کی۔ تو ان مکاتب فکر
نے ان مختلف احادیث کو اپنے مختلف فیصلوں کی بنیاد بنایا۔اسی وجہ سے تمام
مسالک درحقیقت مکاتب فکر یا School of Thoughtہیں نہ کہ فرقہ۔ہاں ! یہ فرقہ
تب بنتے ہیں جب یہ اپنی رائے کو حق مان کر دوسروں کی تکفیر کرنا شروع کر
دیں اور دوسروں کو مجبور کریں کہ انکی رائے کو مانیں۔ چناچہ فرقہ بندی کسی
گروہ کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے اور ایک فرد کی شکل میں بھی۔ فرقہ بندی
مذہبی معاملہ میں بھی ہو سکتی ہے اور کسی دنیاوی معاملہ میں بھی۔
میں اپنے موقف کی تائید و توثیق میں مزید دلیل یہ پیش کر سکتا ہوں کہ میرے
نزدیک سبھی مکاتب فکر کے افراد جنت کے حق دار ہیں (تصور فرمائیں کہ صرف ایک
فرقہ جنت جانے کی صورت میں مسلمانوں کی کس قدر بڑی تعداد جنت سے محروم ہو
جائے گی۔)ایک فرقہ جو جنت جائے گا سے مراد یہ ہے کہ وہ گروہ جو خود کو
مسلکی اختلافات کے دوزخ سے بچائے رکھے گا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمان
کہتے کسے ہیں؟ قانونی مسلمان کے لیے جو شرائط ہیں وہ یہ ہیں۔ ایک اللہ کو
مانے۔ نبئی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم)کو آخری نبی مانے۔ اور اسکی مزید
ایکستینشن یہ ہے کہ قراں اور دوسری الہامی کتابوں اور سابقہ نبیوں پر ایمان
لائے۔فرشتوں اور علم غیب پر ایمان رکھے۔تو آج بھی وہ کونسا مسلک یا مکتبہ
فکر ہے جو ان احکام سے انکار کرتا ہے؟ وہ کونسا مسلک ہے جو ان سے اختلاف
کرتا ہے؟کوئی بھی نہیں !تو قانونی طور پر تو سبھی مسلمان ہوئے اب دل کا حال
تو اللہ بہتر جانتا ہے۔اور اسکا معاملہ پر اللہ پر چھوڑ دینا زیادہ بہتر
ہوتا ہے۔اس لیے سنی مسلک سے تعلق رکھنا، خود کو شیعہ مکتب فکر سے جوڑنا،
حنبلی فقہ پر عمل کرنا کوئی فرقہ بندی نہیں ہے۔فرقہ پرستی تبھی بننی ہے جب
آپ صرف ایک مسلک کی ہدایات کو حق مان کر دوسرے کی تکفیر کریں۔ |