پاکستان اگر مسلمانوں نے نہ
بنایا ہوتا تو یقیناً ہر سال کیا ہر ماہ اس کے نظریئے میں نہ صرف ترمیم ہو
تی بلکہ اتنی ترامیم ہو چکی ہوتی کہ اصل نظریہ ناپید ہو چکا ہوتا۔اسی طرح
پاکستان صرف پنجابی بناتے تو یقینا نظریہ پاکستان پنچابیوں کی نمائندگی
کرتا ، صرف سندھی بناتے تو سندھیوں کے افکار و خیالات کی ترجمانی کرتا اسی
طرح صرف بلوچی ، پٹھان یا کشمیری بناتے تو یقینا یہ نظریہ انہی کی نمائندگی
کرتا مگر نہ ہی یہ ایسا ہوا اور نہ ہی ایسا ہے۔
پاکستان دراصل مسلمانوں نے بنایا ہے اور یہ مسلمانوں کی ہی نمائندگی کرتا
ہے چاہے وہ مسلمان پنجاب سے ہوں ، سندھ ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ یاکشمیر
سے ہوں لہذا نظریہ اسلام ہی نظریہ پاکستان ہے جس کی اساس در حقیقت دین
اسلام ہے اسلامی نظام کا ہر حصہ قرآن پاک اور حضور پاک ﷺ کی سنت و احادیث
کا مجموعہ ہے اور یہی وہ عنصر تھا جس پر ذات پات ، معاشی و معاشرتی اقدار
اور علاقہ کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں نے قربانیاں دی اور ایک اسلامی
جمہوریہ پاکستان کو جنم دیا۔اور اب جب کہ پاکستان کو بنے پینسٹھ سال بیت
چکے تو کوئی یہ کہہ دے کہ پاکستان کے نظریہ میں ترمیم یا تبدیلی کی جائے تو
یقیناً یہ نہ صرف پاکستان کی اساس میں رخنہ ڈالنے کے برابر ہے بلکہ ان
مسلمانوں کے ساتھ بے وفائی ہے جنہوں نے نظریہ پاکستان میں اسلام کو ڈھال کر
پاکستان کے لیے تن من دھن قربان کیا۔
دن تو یاد نہیں لیکن ابھی کچھ دن کی ہی بات ہے پشاور یونیورسٹی میں کانفرنس
سے خطاب کرتے ہوئے گورنر خیبر پختونخواہ مسعود کوثر نے کہا کہ دوسرے ملکوں
کی طرح پاکستان کو بھی اپنے نظریہ میں ترمیم کرنی چاہیے اور پاکستان کا سب
سے بڑا مسئلہ مذہب ہے۔
جہاں تک نظریہ پاکستان میں ترمیم کی بات ہے تو یہ ناممکن تب ہے کہ اسی
نظریہ سے پاکستان کی بقاء و استقامت وابستہ ہے اس پینسٹھ سالہ دور زندگی
میں اس وطن عزیز نے ایسے نا مساعد حالات کا سامنا کیا کہ تاریخ میں کوئی
اور ملک ، سلطنت یا حکومت ایسے نامساعد حالات کا سامنا کرتی تو وہ صفحہ
ہستی سے ہی مٹ چکی ہوتی مگر یہ مملکت خداداد قائم دائم ہے اور تب تک قائم
دائم رہے گی جب تک یہ اپنے اسلامی نظریہ پر قائم دائم رہے گی۔
نظریہ پاکستان کی آبیاری حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ ، حضرت شاہ ولی
اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ ، حضرت سید احمد شہید رحمۃ اﷲ علیہ ، علامہ محمد اقبال
رحمۃ اﷲ علیہ اور قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اﷲ علیہ نے کی ۔قائد اعظم
محمد علی جناح رحمۃ اﷲ علیہ نے پاکستان بننے سے بہت پہلے ہی نظریہ پاکستان
کی وضاحت صاف اور واضح الفاظ میں کر دی تھی جس کا ثبوت آپ کے بیشتر خطبات
سے ملتا ہے جن میں سے چیدہ چیدہ مندرجہ ذیل ہیں :
’’ پاکستان تو اسی روز وجود میں آگیا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا‘‘
’’ہمارا راہنما اسلام ہے اور یہی ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے ‘‘
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں
؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے ؟ وہ کون سا لنگر ہے
جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر
خدا تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید ہے ‘‘
’’میں چاہتا ہوں کہ آپ سندھی ، بلوچی ، پنجابی ، پٹھان اور بنگالی بن کر
بات نہ کریں ۔یہ کہنے میں آ خر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ، سندھی یا پٹھان
ہیں ہم تو بس مسلمان ہیں ‘‘
’’پاکستان کے مطالبے کامحرک اور مسلمانوں کے لیے جدا گانہ مملکت کی وجہ کیا
تھی ؟ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ اس کی وجہ ہندوؤں کی تنگ نظری
ہے نہ انگریزوں کی چال ، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے ‘‘
مذکورہ بالا چند خطبات قائد ہیں جن سے نظریہ پاکستان واضح طور پر چھلکتا
نظر آتا ہے ان چند خطبات سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسلام ہی نظریہ
پاکستان کامحرک بنا اورنظریہ اسلام ہی نظریہ پاکستان ہے مگر شاید گورنر
خیبر پختونخواہ کو اس کا ادراک نہیں یا ہوسکتا ہے کہ ادراک ہو نے کے باوجود
ماڈرون ڈگر پر چل کرنظریہ پاکستان میں ترمیم کے حامی ہوں جو کے پاکستان کی
سلامتی اور استقامت کے لیے باعث ہلاکت ہے ۔مگرکیاکریں ہمارے اوپر مسلط ہی
ایسے افراد ہیں جو ہماری ہی بوئی ہوئی کھیتی کا نتیجہ ہیں پھر کیاافسوس اور
کیسا افسوس۔
غلامی کی چکی میں پسنے والی یہ قوم شاید کبھی کسی نظریئے پر بے دریغ جان و
مال نچھاور نہ کرتی اور اگر کر بھی دیتی تو یہ قوم الگ وطن حاصل کر کے فنا
ہو چکی ہوتی مگر نظریہ اسلام نے اس خواب غفلت میں ڈوبی قوم کوایسا یکجا کیا
کہ یہ قوم اپنی ذات او رقومیت کو بھول کر وجہ پاکستان بنی۔گو کہ نظریہ
پاکستان میں تبدیلی و ترمیم پاکستان کی بقاء و سلامتی کے لیے خطرہ تو ہے ہی
مگر یہ لاکھوں قربانیاں دینے والے مسلمانوں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے جو
کسی غیرت مند قوم کو زیب نہیں دیتی ۔
گورنر خیبر پختونخواہ کا یہ کہنا کہ ’’ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مذہب
ہے‘‘بجا طور پر درست ہے اگر مسلمانان پاکستان اپنے مذہب کا دامن تھامے ہوتے
تو آج اتنے برے حالات کاسامنا نہ کرنا پڑتاکہ عمر فاروق رضی اﷲ عنہ جیسے
حکمرانوں کے بجائے بے حس و لاپرواہ حکمران مسلط ہوتے ۔مسئلہ مذہب کا ہی ہے
کہ پاکستان بدترین حالات کا سامنا کررہاہے وہ ملک کہ جو مذہب اسلام کے لیے
حاصل کیا گیا اور پھر اسی ملک میں اسی مذہب اسلام کوجگہ جگہ اور ہر دور میں
بدنام کرنے کے لیے سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا ۔مسئلہ مذہب کا
ہی ہے کہ اس ملک کے باسی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ
گورنر خیبر پختونخواہ نے کس لحاظ سے پاکستان کا مسئلہ مذہب قرار دیا ہے
لیکن حقیقت یہ کہ واقعی پاکستان کا مسئلہ مذہب ہی ہے لیکن یہ مسئلہ مذہب سے
دوری کا ہے مذہب کو اپنانے کا نہیں ۔ |