لمحہ موجود میں مغرب میں مسلمانوں کی سب سے
بڑی محسن کیرن ایمسٹرانگ ہے جس طور پر وہ عقل استدلال اور فلسفیانہ سطح پر
اسلام اورمسلمانوں کا دفاع کرتی ہے اس کی مثال ملنا ناممکن ہے ہم سب کواس
کا شکر گزار ہونا چاہیے اور میری رائے میں اس کی کتابوں کے اقتباس ہماری
یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیے جانے چاہئیں ۔ کیرن جیسا کہ بہت سے لوگوں
کو علم ہوگا ایک مذہبی خاتون ہیں اگرچہ انہوں نے مذہب کے فلسفے کو کسی ایک
عقیدے کے سچ تک محدود نہیں کیا بلکہ اسے ایک کائناتی سچ کے حوالے سے پرکھا
ہے اوربیان کیا ہے۔
کیرن نے نوجوانی کے عالم میں مذہبی جذبے کی تسکین کی خاطر ایک راہبہ کی
زندگی اختیار کی۔ ایک رومن کیتھولک نن کی حیثیت سے اس نے سات برس عبادات
میں گزارے اور پھر بھی اس کی بے چین روح کو قرار نہ آیا اسے اپنے سوالوں کے
جواب نہ ملے اوراس نے راہبہ کی زندگی ترک کرکے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ
لے لیا تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ لنڈن یونیورسٹی میں جدید ادب پڑھانے لگی
اس نے اہم ترین مذہبوں ، یہودیت ،عیسائیت اور اسلام کے بارے میں وسیع
مطالعہ کیا اور ایک تاریخی اور مذہبی مفکر کی حیثیت سے یورپ اورامریکہ میں
متعارف ہوئی بقول اس کے وہ اب ایک باعمل عیسائی نہیں رہی لیکن مذہب پر یقین
رکھتی ہے یہودیت کے بارے میں اس کے علم اور تحقیق کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ یہودی حضرات کے علماء کرام کا جو آخری انٹرویو ہوتا ہے
جس میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ان کی عبادت گاہوں میں تعینات ہوسکیں تو اس
انٹرویو پینل میں کیرن ایمسٹرانگ بھی شامل ہوتی ہے عیسائیت پر بھی اسے ایک
اتھارٹی مانا جاتا ہے اور اسلام کے بارے میں تو اس کی وسعت نظری کی کوئی
مثال نہیں اگر اس کی کتابوں کو تفصیل سے پڑھا جائے تو شک ہوتا ہے کہ وہ
مسلمان ہوچکی ہے جیسا کہ ڈاکٹر ایناماری شمل کے بارے میں کہا جاتا تھا
گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ میں اسلام کے حوالے سے سب سے زیادہ فروخت ہونے
والی کتاب "محمد خدا کے پغمبر" تھی میرے محدود علم کے مطابق سیرت النبی کے
حوالے سے لکھی جانے والی تحریروں میں کیرن کی یہ کتاب نہایت بلند مرتبے پر
فائز ہے اس کا عنوان ہی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کیرن رسول اللہ کی نبوت
پر یقین رکھتی ہے۔
مہاتما بدھ کے بارے میں بھی اس نے ایک انوکھا تصور پیش کیاہے علاوہ ازیں "خدا
کیلئے جنگ " بھی اس کی اہم تصنیف ہے "اسلام ایک مختصر تاریخ" بھی اس لائق
ہے کہ بار بار اس کامطالعہ کیا جائے اس تاریخ میں بھی مصنفہ کا اسلام کی
جانب جھکاؤ اور دردمندی بہت واضح ہے بی بی سی اوردیگر یورپی ٹیلی ویژن
چینلز پر اس نے اسلام کے بارے میں نہ صرف لیکچر دیئے ہیں بلکہ مختلف
دستاویزی فلموں کیلئے تحقیقی مواد بھی مہیا کیا ہے اگر آج یورپ اور امریکہ
میں اسلام کے بارے میں ایک مثبت رویہ جنم لے رہا ہے تو اس میں کیرن کی
تحریروں کا کمال بھی شامل ہے میں نے اس کی صرف چند کتابوں کا حوالہ دیا ہے
جبکہ اس کی تصنیفات کی تعداد ڈیڑھ درجن کے قریب ہے۔ ان میں "بیت المقدس ،ایک
شہر تین مذہب" بھی نہایت اعلیٰ پائے کی تصنیف ہے۔
ابھی حال ہی میں مجھے کیرن کی کتاب" مقدس جنگ" پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔
بنیادی طور پر صلیبی جنگوں کی تاریخ اور یورپی ذہنوں پر اسلام کے حوالے سے
جو تعصبات ثبت ہیں ان کاایک تفصیلی بیان ہے مجھے یہ کہہ لینے دیجئے کہ اس
کتاب کے مطالعہ سے پیشتر میں بے شمار تاریخی حقیقتوں سے بے خبر تھا اور میں
نے آج تک کروسیڈز یا صلیبی جنگوں کے بارے میں جوکچھ پڑھا تھا وہ کیرن کی
تحریر کے بعد بہت معمولی اورسرسری ثابت ہوا۔ اس کتاب کے تازہ ترین ایڈیشن
میں کیرن نے ایک تازہ دیباچہ تحریر کیا ہے جس میں اس نے گیارہ ستمبر کے
حادثے کے بعد صدر بش کے اس بیان کوموضوع بنایا ہے کہ ہم ایک صلیبی جنگ لڑ
رہے ہیں کیرن کاکہناہے کہ بش کامسلمانوں کے حوالے سے "کروسیڈ" کا لفظ
استعمال کرنا نہایت افسوسناک تھا کیونکہ تاریخی پس منظر میں یہ جنگ
عیسائیوں اور مسلمانوں کے حوالے سے ہی پرکھی جاسکتی ہے۔
"مقدس جنگ" کاآغاز کچھ یوں ہوتاہے کہ 25 نومبر 1095ء میں پوپ اوبن نے پہلی
صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا پوپ نے کہا کہ سلجوق ترکوں نے نہ صرف ایشیا مائز
پر قبضہ کرلیا ہے بلکہ عیسائی باز نطائن سلطنت کے بیشتر حصے بھی فتح کرلیے
ہیں بقول پوپ کے یہ ترک وحشی ہیں اور یہ خدا کے قہر کے مارے ہوئے ہیں انہیں
وہاں سے نکالنے کے لیے پورے یورپ کو متحد ہوکر ان پر حملہ کردینا چاہیے اور
ان سب کو قتل کر کے ان سرزمینوں کو پاک کر دینا چاہیے اور خاص طور پر بیت
المقدس کو ان "کافروں " سے آزاد کروانا ایک مذہبی فریضہ ہے کیونکہ عیسائیوں
کیلئے یہ ایک شرمناک صورتحال ہے کہ حضرت عیسیٰ کی قبر مسلمانوں کے قبضے میں
ہو یوں ان صلیبی جنگوں کاآغاز ہوا جو تقریباً دو سو برس تک جاری رہیں کیرن
کا کہنا ہے کہ مسلمان اپنے خطوں میں پرامن زندگی بسر کررہے تھے اور یہ
یورپی عیسائی تھے جنہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ مسلمان جنگ نہیں
چاہتے تھے لیکن ان غیر ملکیوں نے چونکہ ان کے شہروں اور بستیوں کو اجاڑ کر
آبادی کو مکمل طور پر ہلاک کرنا شروع کردیا اس لیے وہ اپنا دفاع کرنے پر
مجبور ہوگئے پوری کتاب میں کیرن قرآن پاک اور احادیث کے حوالے سے یہ ثابت
کرتی چلی جاتی ہے کہ اسلام ایک انتہائی پرامن مذہب ہے یہاں تک کہ رسول اللہ
نے اپنی پوری حیات میں کسی قبیلے کے خلاف بے وجہ جارحیت نہیں کی ہمیشہ صلح
صفائی کی تلقین کی ہے انہوں نے کسی بھی قبیلے پر صرف اس لیے حملہ نہیں کیا
کہ اسے زبردستی مسلمان بنایاجائے۔
کتاب کے آخر میں کیرن اس عالی شان کلیسا میں داخل ہوتی ہے جو اس مقام پر
تعمیر کیا گیا ہے جہاں روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ کومصلوب کیا گیا تھا اور
پھر انہیں صلیب سے اتار کر ایک تختے پر لٹکایا گیا تھا اور اس کے اندرونی
ماحول کو نہایت ڈراؤنا اور ہیبت ناک قرار دیتی ہے کیونکہ صرف اس کلیسا کو
فتح کرنے کیلئے لاکھوں معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا تھا بیت المقدس کی
پرامن فتح کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عیسائی پادریوں کے
ہمراہ اس کلیسا میں موجود تھے جب نماز کا وقت آگیا پادریوں نے ان سے
درخواست کی کہ وہ نماز کلیسا میں ہی ادا کرلیں لیکن انہوں نے یہ کہہ
کرانکار کردیا کہ نہیں اس طرح بعد میں آپ کے کلیسا کو مسجد میں تبدیل کرنے
کا جواز مہیا ہوسکتا ہے کہ میں نے یہاں نماز ادا کی تھی انہوں نے کلیسا سے
باہر نکل کر اس کے عین سامنے ایک خالی قطعہ زمین پر نماز پڑھی اور بعد میں
وہاں مسجد عمر کی تعمیر کی گئی کیرن کا کہنا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کایہ عمل مسلمانوں کی مذہبی رواداری کی درخشندہ مثال ہے۔
کیرن ایمسٹرانگ ہم سب کی محبت اورشکریے کی مستحق ہے۔
امت مسلمہ کی فکری رفعتوں پر بھی بغليں بجا لی جائيں جو زيتون کا تيل پينے
اور بچے پيدا کرنے ميں اتنی مصروف ہے کہ علم و تحقيق جيسی قباحتوں سے دامن
آلودہ کرنے کی متحمل ہی نہيں ہو سکتی۔
کيرن آرمسٹرانگ نے اسلام پر بہت کچھ لکھا ان کی فکر ميں يقيناً نقائص موجود
ہونگے ليکن
The Holly war" Battle of God zerusalem" One city three Faith
ان کی وہ کتابيں ہيں کہ علمی حلقوں ميں محتاج تعارف نہيں ۔
سوال يہ ہے کہ نيل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر پھيلی اس امت ميں کوئی
ايک صاحب علم بھی اس سطح کا زندہ ہے جس کے علمی کام کی عالمی سطح پر
پذيرائی ہوئی ہو۔ ويسے تو ايک اينٹ اکھاڑيں نيچے سے آٹھ دس شيخ التفسير اور
پندرہ بيس مجتہد العصر برآمد ہو جائيں گے ليکن علمی حيثيت ديکھو تو کل جمع
پونجی "ايک دفعہ کا ذکر ہے" سے زيادہ نہيں ہوتی۔ اور جب وہ ايک دفعہ کا ذکر
ہے کہہ کر علمی پھلجڑياں چھوڑتے ہيں تو ہم وارفتگی کے عالم ميں يہ بھی نہيں
پوچھتے کہ قبلہ شيخ الاسلام يہ "ايک دفعہ" کب ہوئی تھی، راوی کون ہے، علاقہ
کون سا تھا اور ايک دفعہ کا ذکر ہے میں جو بزرگ ہيں ان کا نام کيا تھا۔
سعودی عرب اسلامی دنيا کا مرکز تصور کيا جاتا ہے ليکن ميں آپ سے سوال کروں
کہ سعودی عرب کے کسی جيد عالم دين کا نام بتاديں جس کے علمی و فکری کام نے
اسے معتبر بنادیا ہو تو آپ بغليں جھانکنے پر مجبور ہو جائيں گے۔ عرب دنيا
کے پاس وسائل کی کمی نہيں ليکن يہ وسائل کہاں خرچ ہو رہے ہيں ؟ کتنی اعلیٰ
پائے کی يونيورسٹياں ہيں عالم عرب میں ہيں اور کتنی لائبريرياں ہيں وہاں ؟
ابھی اگلے روز ميں مستنصر حسين تارڑ کا سفرنامہ حج منہ دل کعبے شريف پڑھ
رہا تھا، چاچا جی لکھتے ہيں وہ جدہ کے سب سے بڑے بک سٹال پر گئے تو يہ ديکھ
کر حیران رہ گئے وہاں جتنی کتابيں تھیں اس سے زيادہ کتابيں ان کی ذاتی
لائبريری ميں موجود ہيں ، وہاں ترجيحات ہی اور ہيں اور شوق ہی مختلف، آپ
اسی بات سے اندازہ لگا ليں کہ جس کی ايک بيوی ہو وہ خود کو مسکين کہلاتا ہے۔
فلسطين اور عراق ميں مسلمانوں پر جو قیامت گزر رہی ہے اس کيخلاف عالمی
ميڈيا میں سب سے توانا آواز نام چامسکی اور رابرٹ فسک کی ہے۔ ان ميں سے ايک
يہودی ہے اور دوسرا عيسائی۔ کوئی ايک مسلمان دانشور نہيں جس کی تحرير کی
عالمی سطح پر کوئی وقعت ہو۔ چنانچہ ہمارے اردو کے کالم نگار اپنے کالموں
ميں بش کو مشورے ديتے پائے جاتے ہيں معلوم نہيں ان افلاطونوں کو کس نے
بتايا ہے بش ناشتے سے پہلے ہمارے اردو اخبارات خود پڑھتے ہيں ۔ آپ عالمی
سطح کے اخبارات و جرائد اٹھا کر ديکھ ليجئے کوئی ايک مسلمان دانشور نہيں
ملے گا آپ کو۔ چند برس پہلے نام چامسکی اسلام آباد آئے تو ان کا خطاب سننے
کيلئے فکری حلقوں ميں جو بے تابی تھی وہ قابل ديد تھی، تب ميں نے سوچا
اسلامی دنيا کے پاس کوئی ايک سکالر بھی ايسا ہے جو کہيں جائے تو لوگ اس کو
اسی توجہ اور اسی شوق سے سنيں جس توجہ اور شوق سے وہ چامسکی کو سن رہے ہيں
۔ ہمارے تعليمی اداروں کا بيڑہ غرق ہو چکا ہے۔ جب سے اسلامی انقلاب نے
يونيورسٹيوں کا رخ کيا ہے علم و تحقيق کی مٹی پليد ہو گئی ہے اور چاپلوس
کلچر عروج پر ہے۔ تعليمی ادارے پاور پالٹيکس کا اکھاڑہ بن گئے ہيں اور علم
و تحقيق کو طلاق بائن ديدی گئی ہے۔
مامون عباسی کے دور سے ليکر اب تک مسلم دنيا ميں جتنی کتابوں کا ترجمہ ہوا
ہے اس سے زيادہ کتابيں ہر سال سپين ميں ترجمہ ہوتی ہيں اور ہم جانتے ہيں
سپين دنيا کا علمی مرکز نہيں ہے تو جو دنيا کے علمی مراکز ہيں ان سے ہمارا
کيا مقابلہ؟ امام کعبہ کا منصب مسلم دنيا ميں نہايت معتبر ہے ليکن ہم نے ان
کو بھی وہ مقام نہ دیا جو دينا چاہئے تھا ہم انہيں پاکستان بلاتے ہيں تو
کسی علمی موضوع پر ان سے کچھ سمجھنے کے بجائے ان کی ذات کے سائے ميں
سياستيں کرتے ہيں اور اپنی بداعماليوں کو چھپانے کی کوششيں کرتے ہيں ۔ امام
کعبہ ايک ادارہ ہونا چاہئے تھا، وہاں ان کی نگرانی ميں علم و تحقيق کا عمل
جاری ہوتا اور ان کا فکری ادارہ دنيا بھر کے اہل دانش سے ڈائيلاگ کرتا ليکن
خواہش کب پوری ہوتی ہے۔ آج عالم عرب سے ہميں سوائے خوش الحان قرأتِ کلام
مجيد کے سوا کچھ نہيں مل رہا۔ کيا يہ بھی يہودی سازش ہے؟
ہماری حالت يہ ہے ہم بچيوں اور بہنوں کيلئے بطور خاص ايک کتاب لکھتے ہيں تو
اس ميں مردانہ جنسی امراض پر بحث شروع کر ديتے ہيں
اقبال نے ٹھيک ہی کہا تھا "اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر"
چنانچہ نوبت يہاں تک آن پہنچی ہے رياست مدينہ کے بعد لا الہ الا اللہ کے
نام پر قائم ہونيوالی دنيا کی واحد رياست کے پيران طريقت، مجتہد الدين
العصر، شيخان التفسير، قوم کو ديوبندی، وہابی، بريلوی بنانے ميں مصروف ہيں
اور کيرن آرمسٹرانگ آکر ہميں بتا رہی ہيں اسلام تفرقہ بازی کيخلاف ہے ہم
کفر کے فتوے بانٹ رہے ہيں
اور کيرن کہہ رہی ہيں اسلام محبت اور رواداری کا مذہب ہے
Courtesy
Daily Jinnah |