آج خواتین کے حقوق کی جنگ تو بہت
سے خواتین و مرد لڑ ر ہے ہیں لیکن اصل بات کم ہی لوگ کرتے ہیں خاص طور پر
خواتین۔ جدت اور فیشن پسندی نے آج کی عورت کی آنکھوں پر فحاشی و جہالت کی
پٹی باندھ دی ہے۔ جس کی وجہ سے آزاد خیالی نے جن لیا اور عورت بڑی تیزی
اپنے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو دور جہالت کی طرف لے جا رہی ہے۔ میرے نزدیک
بننا سنورنا، صاف ستھرا اور خوبصورت لباس پہننا فحاشی یا بے حیائی نہیں
لیکن عوت ہو یا مرد انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ بنتا سنورتا ہے تو اس کا
دل کرتا ہے کہ دوسرے اس پرگہری نظرڈال کر دیکھیں خاص طور پر مخالف جنس بس
یہی چیز بے حیائی اور فحاشی کا سبب بنتی ہے۔
عورت کو بننے سنورنے کا حق ہے لیکن نمائش کا نہیں اگر عورت گھر میں رہتی
جہاں غیر محر م مرد وںکا آنا جانا نہیں ہے تو خوب بنے سنورے اور جب کسی
مقام پر غیر محرم لوگوں کی موجودگی پائے تو نہ صرف اپنے جسم کا بلکہ نیت ،آنکھوں
،کانوں اور زبان کا ٹھیک اس طرح پردہ کرے جس طرح اسلام نے اسے درس دیا
ہے۔جہاں تک بات ہے خواتین کے حقوق کی تو انہیں حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ
کے دین کے بعد اہم ترین کردار عورت کو ہی ادا کرنا ہوگا، کیونکہ زیادہ تر
عورت ہی عورت پر ظلم کرتی ہے۔
شائد میری بہنوں کو میری کوئی بات ناگوار گزرے اس لیے یہاں اپنی ایک بہن کے
لکھے الفاظ رقم کرتا چلوں ”کراچی سے شائع ہونے والے ایک روزنامے میں بہن
شیبا شیخ لکھتی ہیں کہ عورت ایک بہت ہی پیارا نام ہے جو کہیں ماں توجنت ،
بیوی توعزت ، بہن ، بیٹی تو بہت نازک اور محبت بھرے رشتے ، اگر کزن ، خالہ
، پھوپھی تو دوستی اور محبت کرنے والی دوستوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہمارے
معاشرے میں عورت پر بہت ظلم ڈھائے جاتے ہیں کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ ظلم
کرنے والے ہوتے کون ہیں ؟ ان میں زیادہ تر ظلم کرنے والی خود عورتیں ہی ہیں۔
تویہ عورت بیک وقت دو کردار کیوں رکھتی ہے ؟ ایک طرف تو وہ نہایت نرم دل
شفیق ماں ہوتی ہے تودوسری طرف ایک انتہائی سخت مزاج ساس ہوتی ہے۔ بہن شیبا
شیخ مزید لکھتی ہیں کہ اگر خدا نخواستہ کوئی عورت جلتی ہے تو اسے جلانے
والی بھی تو ایک عورت انتہائی سخت مزاج ساس ہوتی ہے۔
مختصر کہ شیبا شیخ لکھتی ہیں کہ گھر کو جنت بھی عورت بناتی ہے اور دوزخ بھی
عورت ہی بناتی ہے۔عورت اگر اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرے تو بچے اچھے اور
کامیاب انسان بنتے ہیں اور معاشرے میں با وقار ا ور مثبت انداز میں زندگی
بسر کرتے ہیں جبکہ اگر عورت اپنے بچوں کی پرورش اچھے انداز میں نہ کرے تووہ
چرسی ، شرابی ، جواری، چور اور ڈاکوں ہی بنتے ہیں جو نہ اپنے والدین اور
معاشرے کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی کوئی
مثبت رول پلے نہیں کرپاتے ”شیبابہن نے عورت کے ماں ، بیوی، بہن ، پھوپھی
اور خالہ کے محبت بھرے رشتوں کی تعریف بہت خوبصورت انداز میں کی ہے۔
میں تو فقط یہی جانتا ہوں کہ اگر میں ساری زندگی بھی ان محبت بھرے رشتوں کی
تعریف کرتا رہوں تو یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا، میرے الفاظ توختم ہوسکتے ہیں
لیکن ان رشتوں کی تعریف مکمل نہیں ہوسکتی۔ انسانی خاص طور پر مسلم معاشرے
میں عورت کا مقام کیا ہے ؟ ہر باشعور انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ
عورت پائوں کی جوتی نہیں بلکہ بڑی قابل عزت ہستی ہے۔ اسلام نے عورت کو کس
قدر عزت دی ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے جنت عورت (ماں)کے قدموں کے نیچے رکھی ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ اسلام کلی مساوات اور عدل وانصاف کی دعوت دیتا ہے اور
بچوں پر رحم وشفقت کے سلسلہ میں اسلام نے مردوعورت ‘مذکر، مونث اور نرومادہ
میں تفریق نہیں کی تاکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک پر عمل ہو سکے۔ اللہ
تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورة المائدہ میں ارشاد فرمایا کہ عدل کرو یہی بات
تقویٰ سے نزدیک ہے”لڑکی کولڑکے سے کمتر سمجھنے کی غلط ذہنیت کوختم کرنے کے
لیے اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر بہت زور دیا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار
دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”جس آدمی کے گھر دو لڑکیاں
پیداہوں اوروہ ان کی پرورش کرے حتٰی کہ وہ جوان ہوجائیں توان کا نکاح کرے
تو ایسا آدمی بالکل اسی طرح میرے ہمراہ جنت میں داخل ہوگا جس طرح شہادت کی
انگلی اور درمیانی انگلی ساتھ ساتھ ہیں(ترندی) راقم جیسے گناہ گار شخص کو
جنت کی تو خاص طلب نہیں لیکن اگر سرکار دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا ساتھ ملے اور وہ بھی اس قدر سستے داموں تو کون کم بخت ہے جو
ایسی جنت نہ خریدے ؟ اسلام سے پہلے اہل عرب بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے
تھے۔
اول توبیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا کرتے یا پھر جب بیٹیاں چلنے
پھرنے کے قابل ہوتیں تو باپ انھیں کسی بہانے سے جنگل میں لے جاتے اور کسی
گڑھے میں پھینک کرمٹی میں دفن کردیتے۔ اہل عرب کا یہ ظالمانہ عمل اللہ
تعالیٰ کو اتنا ناگوار گزرا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سخت مذمت کرتے
ہوئے ارشاد فرمایا کہ”اور جب اس لڑکی جو زندہ دفن کردی گئی ہوپوچھا جائے گا
کہ وہ کس جرم میں ماری گئی ٨۔٩”یہاں پوچھنے کا مقصد اس بچی کی گواہی ہے
ورنہ اللہ تعالیٰ سب دیکھتا سنتا اور جانتاہے۔
یقینا بچی گواہی دے کہ وہ تو معصوم تھی اسے تو معلوم ہی نہ تھا کہ جرم کیا
ہے۔ اہل یونان کی طرح اہل عرب معاشرہ میں بھی غلامی کا رواج عام تھا۔
لونڈیاں اورغلام بازار میں عام جانوروں کی طرح بیچے جاتے تھے۔غلام کی قیمت
ادا کرنے والے آقا اپنے غلاموں سے طرح طرح کے کام لیتے اور ان پرہرطرح کے
ظلم و ستم ڈھاتے تھے۔ایسے جاہل معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہوسکتا تھا۔
اہل شعور یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ میں اس دور میں موجود نہ تھا
اس لیے اندازہ ہی لگا سکتا ہوں۔
میرے خیال کے مطابق دور جہالت میں عورت صرف ایک جسم تھی جس کی کوئی قیمت
بھی نہ تھی اور اسے اپنی ہی زندگی پر کسی قسم کا کوئی اختیار نہ تھا۔جیسے
کوئی بھیڑیا بکری پالنے والا جب چاہے جہاں چاہے باندھ دے،جب چاہے جسے چاہے
بیچ دے اور جب چاہے ذبح کر دے۔
عورت دور جہالت میں عرب اور یونانی معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ تھی۔جاہل لوگ
بیٹیوں کو عار سمجھ کر پیدا ہوتے ہی قتل کردیتے۔ایک مرد جتنی عورتوں سے
چاہے شادی کرلیتا۔باپ کی بیوہ ورثے میں بڑے بیٹے کی داشتہ بن جاتی،عورت کے
لیے اس معاشرے میں کوئی عز ت واحترام نہ تھا۔عورت کا مقام پالتوں جانور سے
بھی کمتر تھا۔ جاری ہے۔ |