سوات میں طالبان کے حوالے سے بے
دخلی کے تین سال بعد بھی دہشت گردوں اور اُن کو سزا دلوانے کی کوششیں بڑی
حد تک ناکام کا شکار ہیں جبکہ حسب توقع مغربی شمالی علاقوں کےساتھ سوات میں
زیر حراست افراد کی ہلاکتوں کے مبینہ واقعات پر بھی تحفظات کا اظہارکیا
جارہا ہے۔ شدت پسندی کے 250مقدمات کے حوالے سے دسمبر2012تک صرف 29مقدمات کا
فیصلہ منظر عام پر آیا ہے ۔ یہ مقدمات گذشتہ تین برسوں میں قائم گئے گئے
اور اس وقت مختلف دہشت گردی کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔ افسوس ناک پہلو
یہ ہے کہ جن مقدمات کا فیصلہ سنایا گیا ہے اُس میں تیس حملہ آوروں کو سہولت
فراہم کرنے اور بم تیار کرنے میں سزا دی گئی جبکہ حیرت انگیز طور پر گرفتار
ہونے والے افراد کی بڑی تعداد عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردی گئی
ہے۔پراسکیوشن برانچ اور پولیس ذرائع کے اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ تین برس
کے دوران شدت پسندی ، خودکش حملوں اور بم دہماکوں کے سب سے زیادہ مقدمات
صوبہ خیبر پختونخوا میں درج ہوئے جن کی تعداد 104،بلوچستان میں85،صوبہ
پنجاب میں اڑتالیس اور صوبہ سندھ میں 23مقدمات درج ہوئے۔پنجاب میں تین برس
میں اڑتالیس مقدمات میں چھ میں سے تیرہ ملزمان کو سزائیں،سنائیں گئیں۔جبکہ
جی ایچ کیو ، واہ آرڈیننس فیکڑی ، پاک فوک کے سرجن جنرل اور کامرہ
میںفضائیہ بس میں خودکش حملوں کے متعدد گرفتار افراد رہا ہوچکے ہیں۔اسکے
علاوہ اسلام آباد میں فرئینٹر کانسٹیلبری ، سپیشل برانچ اور اقوام متحدہ کے
خوارک کے دفتر میں حملوں کے مقدمات میں گرفتار افراد بھی عدم ثبوت پر رہا
ہوچکے ہیں۔خیبر پختونخوا میں سیکورٹی فوسرز پر زیادہ حملے ہونے 30واقعات کے
پندرہ مقدمات درج ہوئے جبکہ باقی میں پولیس اور عوام نشانہ بنے۔جبکہ تین
برسوں میں 250سے زائد واقعات پیش آئے۔اطلاعات کے مطابق پولیس نے سو کے قریب
افراد کو گرفتار کیا جن کی اکثرےت کو عدم ثبوت کی بنا پر جبکہ سات افراد کو
جرم ثابت ہونے پر دو کو عمر قید اور بقیہ کو بالترتیب پانچ سال اور سات سال
قید کی سزا سنائی گئی۔جبکہ ذرائع کے مطابق 60سے زائد افراد اب بھی صوبے کی
مختلف جیلوں میںاپنے مقدمات کی سماعت کا سامنا کر رہے ہیں۔جبکہ سیکورٹی
فوسرز پر حملوں کے الزام میں ایک بڑی تعداد قبائلی علاقوں کی انتظامیہ اور
سیکورٹی ادادروں کے پاس بھی قیدہے۔بلوچستان میں گزشتہ تین سال کے دران 85سے
زائد مقدمات انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات بنے جو زیادہ تو پولیس ،
فرئینٹر کور اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنانے پر
بنے۔ایسے مقدمات کی تعداد35جبکہ پولیس کی زیرحراست50سے زائد افراد کو حراست
میں لئے جانے کی اطلاعات ہیں۔مئی 2011میں صرف ایک مقدمہ میں عمر قید کی سزا
سنائی گئی جس کےخلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں اپیل داخل ہے۔سندھ میں
دہشتگردی کے 23درج مقدمات میں گرفتار ہونےوالے افراد کی تعداد 130کے قریب
ہے اور ان مقدمات میں صرف تین مقدمات کا فیصلہ سنایا گیا جس میں صرف ایک
شخص کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔بین لاقوامی ابلاغ عامہ کیجانب سے مرتب
رپورٹ میں پاکستان میں دہشت گردی کےخلاف پاکستانی قانوں کی سست رفتاری کو
تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور حکومتی ادارے کہتے نہیں تھکتے کہ دہشت گردوں
کےخلاف آئینی ہاتھوں سے نپٹا جائے جائے گا ۔قانوں کی گرفت سے کوئی نہیں بچ
سکے گا۔کراچی میں2012میں تقریبا 2730افراد ہلاک کردئےے گئے ،لیکن کسی ایک
بھی شخص کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔سوات میں حکومتی رٹ قائم کرنے
کے بڑے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب بھی عسکرےت
پسندوں اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے درمیان گوریلا جنگ جاری ہے ۔سوات میں
انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں 2007سے جون2012تک جن مقدمات کی کاروائی
مکمل کی جاسکی اس میں سزا دینے کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔
جبکہ914،مقدمات میں رجسٹرڈ مقدمات میں معمولی نوعیت کی سزائیںصرف چھ مقدمات
میں سنائیں گئیں۔سوات سے تعلق رکھنے والے مقامی وکیلوں کے مطابق اس کی وجہ
ایکشن (این ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن شروع سے متنازعہ ہونے کی وجہ سے
ہے۔دوئم دیگر عدالتوں میں عدم ثبوت ، گوہواں کو عدم تحفظ اورمشکل ترین ،
سست رفتار تفتیشی طریقہ کار اور قانونی خامیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا
ہے۔ملاکنڈ ڈویژن میں پاکستانی فوج کے کمانڈڑ میجر غلام قمر نے کہا ہے کہ
موجودہ قوانین تبدیلی لائے بغیر سوات میں فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کئے
جانے والے شدت پسندوں کےخلاف عدالتوں میں جرم کو ثابت کرنا بہت مشکل
ہے۔جناب چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ شاہ زیب جو کہ حکمران حکومت کے
بااثر شخص سردار نبیل گبول کی سالی کا لڑکاہے اور دوسری جانب اسی پائے کا
ایک صنعت کار سکندر جتوئی کا بیٹا شاررخ ، کراچی کے سب مہنگے ترین علاقے
میں رہنے والے یہ دونوں کسی غریب یا امیر طبقے کے درمیان بے انصافی طبقاتی
تفریق نہیںہے بلکہ با اثر افراد کے درمیان طاقت کا مظاہرہ تھا جیسے سوشل
میڈیا نے پروپیگنڈا کرکے عوام میں یہ تاثر پیدا کیا کہ کسی غریب کے بچے کو
کسی وڈیرے نے اپنے ظلم کا شکار بنایا ہے۔بےشک ازخود نوٹس لینا احسن اقدام
ہے لیکن کراچی میںسینکڑوںغریب بے گناہوں کو کب انصاف ملے گا ۔سوات میںدہشت
گردی کے شکار خاندانوں کو کون انصاف فراہم کرے گا ؟۔عدم ثبوت اور ناقص
تفتیش پر پولیس اہلکاروں کےخلاف قانون کب حرکت میں آئے گا۔جناب اعلی۔۔ضرورت
اس بات کی ہے کہ عدلیہ کے نظام کو نچلی سطح سے اوپر تک کرپشن فری بناتے
ہوئے انصاف کو سستا اور فوری بنانے کےلئے عدالتی اصلاحات کو مستحکم اور سخت
اقدامات قائم کئے جائیں۔دو بااثر ترین افراد کے درمیان ، لڑائی کے بعد
سپریم کورٹ کی احکامات پر پولیس کی پھرتیوں سے غریب عوام میں شدید مایوسی
پھیلی ہے۔ ان غریبوں کو تعلیم تک رسائی کی ، سوشل میڈیا اور الیکڑونک میڈیا
کی توجہ نہیں ہے۔اپیل ہے کہ قانون سب کےلئے ایک ہو، انصاف کا معیار ایک ہو
اور انصاف سب کےلئے ایک ہو۔ صوابی کی استانیوں کی طرح ،سوات کی عوام جیف
جسٹس کیجانب سے انصاف کے منتظر ہیں۔ سواتی عوام کو یکساں نظام قانون کو
میسر ہو تا تاکہ سپریم کورٹ کے وکلا ءکے لاکھوں روپوں کی فیس ادا کئے بغیر
انھیں سستاانصاف مل سکے |