لیڈروں کا میڈیا سے شکوہ

پختون خوار کے زیادہ تر لی ڈر میڈیا اور خصوصا الیکٹرانک میڈیا سے گلہ کرتے ہیں کہ انہیں قومی سرکٹ پر خبروں میں شامل نہیں کیا جاتا اور ان کی آواز کو اٹھانے والا کوئی نہیں اس طرح کے گلے شکوے تقریبا ہر جگہ پر سننے کو ملتے ہیں اور ان کا یہ گلہ اور شکوہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ پنجاب اور سندھ سے لانچ ہونیوالے ٹی وی چینل اپنے مقامی علاقوں کی خبروں کو زیادہ وقت دیتے ہیں جبکہ ان کی بہ نسبت ہمارے پختون خوار کی خبروں کو کم وقت دیا جاتا ہے بعض مخصوص چینل اور اخبارات تو ہفتے میں ایک بار حاضری لگوانے کیلئے خیبر پختون خوار کی خبریں پیکجز چلوا دیتے ہیںلیکن یہ بھی سچ ہے کہ جن لوگوں نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی ہے انہیں نہ تو اس صوبے سے اشتہارات ملتے ہیں تو یہاں پر وقت دینے کی ضرورت ہی کیا ہے ہاں خبروں اور خصوصا دھماکوں کے حوالے سے بننے والی خبروں کیلئے خیبر پختونخوار ہی سب کو یاد ہے لیکن اب روز ہونیوالے دھماکوں میں بھی ہمارے صوبے کیساتھ متعصبانہ رویہ رکھا جاتا ہے -جس کا اندازہ کراچی میں ہونیوالے کریکردھماکے میں تین زخمیوں کی خبراور قبائلی علاقوں میں ہونیوالے بمباری اور دھماکے میں مرنے والے پانچ دس افراد کی ہلاکتوں کی خبرسے لگایا جاسکتا ہے- کچھ عرصہ قبل ایک نیوز ڈائریکٹرجن کا تعلق کراچی سے ہے پشاور دورے پر آئے تھے ملاقات میں انہوں نے سوال کیا کہ یہاں پر آپ لوگوں کو کیا کیا مسائل درپیش ہیں -اس سطح کے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی ادارے میں صحافیوں کے درمیان دراڑ ڈال کر اندر سے خبریں نکالنے کی کوشش کریں راقم نے جواب میں کہا کہ مسئلہ تو بہت سارے ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے اور یہاں کی خبروں کی کوریج ٹھیک نہیں ہوتی جبکہ اس کی بہ نسبت دیگر صوبوں خصوصا پنجاب اور سندھ پر کرم نوازی بہت ہے جس پر نیوز ڈائریکٹرنے مزید وضاحت چاہی تو راقم نے بتایا کہ ہمارا صوبہ صرف دھماکوں کی خبروں کیلئے آپ کو یاد ہے لیکن اس میں بھی یہاں کے لوگوں کو وہ کوریج نہیں ملتی جو دوسرے صوبوں کے زخمیوں کو ملتی ہیں ہمارے ہاں ہلاک ہونیوالوں کو بھی نہیں ملتا جس پر موصوف غصے میں آگئے اور کہا کہ اس طرح کی باتیں مت کرو اور کچھ اور بتا دو راقم نے رسپانس دیکھ کر جواب دیا کہ اور کوئی مسئلہ ہی نہیں-جس پر وہ خاموش ہوگئے-

لی ڈروں کی میڈیا پر تنقید سے پہلے اگر بہت سارے لی ڈر جنہوں نے ماشاء اللہ ایزی لوڈ کی وجہ سے جائیدادیں اور زمینیں بنا لی ہیں اس صوبے میں سرمایہ کاری نہیں کررہے خصوصا میڈیا کے شعبے میں نہ تو کسی یہاں نے لی ڈر نے ٹی وی چینل کا لائسنس حاصل کیا نہ ہی ریڈیو چینل اور نہ ہی کسی اخبار میگزین کا آغاز کیا کہ چلو یہاں پر کام کرنے والے خشاکیانو)صحافیوں( کو روزگار کے مواقع بھی ملیں گے اور اس کی مدد سے وہ اپنی آواز بھی آگے لے جاسکیں گے لیکن مجال ہے جو کبھی کسی نے اس حوالے سے سوچا بھی ہو بقول پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی دوست کہ موجودہ پٹھان اب صرف پھٹے آن رہ گئے ہیں ان کے لی ڈر بھی نسوار کی فیکٹریاں اور اسلحہ کی دکان کھولنے کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہیں انہیں لکھنے لکھانے سے کیا کام- پختون خوار میں کوریج نہ دینے کا گلہ ہمارے ہاں خدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی دکھانے والے حکمران زیادہ کرتے ہیں لیکن ان کی سمجھ اور بوجھ اتنی ہی ہوتی ہے کہ علاقائی سیاست اور کمی کمینوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے تقریریں پشتو زبان میں کرتے ہیںاور مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں 9 بجے کے بلیٹن میں دکھایا جائے اب اسلام آباد میں بیٹھے کسی عام شخص بیورو کریٹ سفیر کو کیا پتہ کہ پشتو زبان میں موصوف کیا فرما رہے ہیں اگر تقریر اردو میں ہوتو پھر بھی وہاں پر بیٹھے لوگوں کو سمجھ آجاتی ہیں کہ انہیں کیا مسئلہ ہے قومی سرکٹ پر چلنے والے اردو کے ٹی وی چینل پر کوئی پاگل ہی ہوگا جو پشتو زبان میں کی گئی گفتگو کو نشر کرے گا- اور اگر یہ سلسلہ اس طرح شروع ہوا تو پھر سندھ کے لوگ اپنی زبان میں پنجاب کے لوگ پنجابی میں اور بلوچستان کے لوگ بلوچی میں بات کریں گے اور ڈیمانڈ بھی کوریج کا کرینگے جس کے بعد ٹی وی چینل خبریں تو نہیں البتہ زبانوں کا ملغوبہ چلائیں گے -

ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافی جانتے ہیں کہ پختون خوار کے لی ڈر جو جلسوںمیں دھوم دھڑکے والی باتیں کرتے ہیں انہیں کتنی مشکل ہوتی ہے کئی مرتبہ ان کے لی ڈروں کے سیکرٹریز کو سمجھانے کیلئے چٹیں بھجوانی پڑتی ہے کہ خدا کیلئے دو تین جملے اردو میں بھی کہہ دیں تاکہ آپ کی آواز صوبے سے بھی باہر نکل جائے اور چٹیں بھیجنے کی یہ مشق ہر مرتبہ جلسے جلوس میں کرنی پڑتی ہے -کچھ عرصہ قبل پولیس لائن چارسدہ میں سرکارکے چھتری تلے ہونیوالے جلسے میں ایک بڑے لی ڈر نے اردو میں بات کرنے سے قبل کہا کہ"پہ پختو کے چہ خبرہ اوکڑم نہ ٹٹر مے یخ شی" یعنی پشتو زبان میں بات کرنے سے کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے اب موصوف کو کون بتائے کہ اگر کلیجہ ٹھنڈا کرنے کا شوق ہے تو ٹھنڈا پانی پی لیا کرے لیکن اپنی آواز پورے پاکستان میں پہنچانے کیلئے قومی زبان اردو میں بات کرنا ضروری ہے تب ہی قومی سرکٹ پر چلنے والے چینل خبر چلاتے ہیں-اس صوبے میں کام کرنے والی کچھ سیاسی پارٹیاں ان کے لی ڈر اور مردہ باد زندہ باد کی آوازیں نکالنے والے کمی کمین صحافی اور اخبارات کو اپنا ذاتی ملازم سمجھتے ہیں خصوصا اگر پارٹیاں حکومت میں ہوں حکومت میں رہنے والوں کا رویہ تو صحافیوں کیساتھ ایسا ہوتا ہے جیسے صحافیوں کے گھروں میں کھانا ان کے حجروں سے جاتا ہے یا انہیں رزق دینے والے یہی لوگ ہیں ان میں پچاس فیصد قصور اگر پارٹیوں کا ہے توپچاس فیصد ہمارے اپنے صحافی برادری کا بھی ہے جو جی حضوری اورتالی سٹ ہونے کو اپنا قانونی اخلاقی اور دینی فریضہ سمجھتے ہیں حالانکہ صحافی کسی بھی پارٹی سے نہیں ہوتا-گذشتہ پانچ سالوں کے دوران حکومتی پارٹیوں کی کوریج کا بدترین تجربہ راقم سمیت بہت سارے صحافیوں کو ہوا ہے سب سے عجیب بات کہ ان کے جلسوں میں ڈھول بجانے والے کیلئے تو جگہ ہوتی ہے لیکن صحافی کے بیٹھنے کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی ایسے میں یہ لوگ گلہ کرتے ہیں کہ ہمیں عزت اور مقام نہیں ملتا اگر صحافیوں کو دوران ڈیوٹی بے عزتی ملے گی تو پھر ان سے عزت کی توقع رکھنا بھی عبث ہے -یہی صورتحال خاندانی پارٹی کے پروگراموں کی بھی ہے یا اللہ یا رسول اور چور بے قصور کے نعرے لگانے والے صحافیوں کی درگت بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے یہ لوگ صحافیوں کو بھی سندھی وڈیروں کے ملازم سمجھتے ہیں خود کو پھنے خان سمجھنے والے لی ڈر کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی آپسی جھگڑوں کی خبریں نہ آئے لیکن جو بکواس وہ کر تے ہیں وہ نمایاں جگہ پر شائع یا براڈکاسٹ ہو ان کے مقابلے میں مخصوص مذہبی پارٹیوں کے کارکن اورلی ڈروں میں قدرے تمیز بھی ہے اور ان کا رویہ بھی صحافیو ں کیساتھ قدرے شائستہ ہوتا ہے یہ بھی صحافیوں کا مشاہدہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لی ڈر اپنے کرتوتوں سے متعلق سوال پر بعض اوقات صحافیوں کو لتاڑ دیتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں مذہبی جماعتوں کے لی ڈر اس طرح کی حرکات کرنے سے گریز کرتے ہیں-

ان حالات میں اگر صحافی سچ بول دیتے ہیں تو لی ڈروں اور کارکنوں کو برا بھی لگتا ہے خیر ہماری علاقائی سیاست کرنے والوں لی ڈروں سے گزارش ہے کہ اگر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے گلہ کرنے کے بجائے اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیںتو یقینا انہیں اندازہ ہو جائیگا کہ اس صوبے سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے پھر بھی ان پر ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے اس لئے اگر گلہ کرنے کے بجائے اپنی غلطیوں پر نظر ڈالیں تو شائد اس اقدام سے بہتری آجائے
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499761 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More