شہدا ء والی پارٹی کے دعویدار
پارٹی کے پختون خوار میں نئے بننے والے سربراہ نے گذشتہ دنوں تلوار کا تحفہ
وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں نے یہ وصول کیا تو اس سے
صحافیوں کا سر قلم کروں گا اور اس میں کسی سے رعایت نہیں برتوں گاہمیں تو
موصوف سے یہی امید تھی کیونکہ گذشتہ پانچ سالوں سے ان کی پارٹی نے کمی
کمینوں کیساتھ کیا نہیں کیا اور خاص کر صحافیوں کیساتھ ان سے اندازہ کیا
جاسکتا ہے کہ یہ کتنی آزاد میڈیا کے حق میں ہے ان کے حق میں نعرے بلند کرنے
والے اور مضامین لکھنے والے تو صحافی ہے اور ان کیلئے مراعات بھی بہت ہیں
بلکہ کچھ ہمارے ہاں کے صحافی جو کسی زمانے میں اپنے آپ کو کارکنوں کا
نمائندہ کہلواتے تھے خاندانی پارٹی کے سربراہ سے تعلق کی بناء پر سرکاری
نیوز ایجنسی کے سربراہ بن گئے اور پھر انہیں یہاں کے کارکن بھی یادنہیں رہے
لیکن اب انہیں وہاں سے کک آئوٹ کردیا گیا اسی لئے اب خیبر پختون خوار کے
کارکن پھر انہیں یاد آگئے خیر سچ لکھنے اور بولنے والے صحافی نہ تو ہماری
شہداء والی پارٹی کے گڈ بک میں ہیں اس لئے سچ بولنے والوں کے سر قلم کرنے
کی خواہش بھی ان جیسے لی ڈروں کی دلوں میں ہے سچ پر سر قلم کرنے والے
سرپھرے میدان صحافت میں بہت سارے ہیں ویسے بھی گذشتہ دنوں انہی کے پارٹی سے
تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر جو آج کل صحافیوں اور اخبارات کو ٹھیک کرنے
والی وزارت کے وزیر بھی ہے نے کیا خوب فرمایا کہ ملک میں سینکڑوں صحافی ہیں
اور ہر ایک صحافی کو سیکورٹی فراہم بھی نہیں کی جاسکتی ساتھ میں یہ بھی کہا
کہ حکومت آزادی صحافت پر قدغن نہیں لگائے گی بے حیثیت صحافی سیکورٹی لینے
کے خواہشمند بھی نہیں سوائے چند نام نہاد میراثیوں کے جو صحافت کی آڑ میں
اپنا کام نکالتے اور ان کی وجہ سے بہت سارے صحافی اور میدان صحافت بدنام
ہوا ہے-
اخبارات کو اشتہارات کی لگام سے پکڑ کر چلانے والے حکمران اپنے بارے میں
کتنا سچ برداشت کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ
دنوں قومی اسمبلی میں سی این جی کے حوالے سے بحث ہوئی اس دوران انکشاف ہوا
کہ صرف سات سی این جی پمپس روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر آنیوالے حکمرانوں
کی کابینہ میں ایک ایسے وزیر کے ہیں جنہیں مکھن لگانے میں خصوصی ملکہ بھی
حاصل ہے اور انہیں اوصاف کی بناء پر انہیں اخبارات کو لگام دینے والی وزارت
کا قلمدان بھی دیا گیا سات سی این جی پمپس کے مالک کے حوالے سے رپورٹ سرکار
کی مدح سرائی کرنے والی سرکاری نیوز ایجنسی نے چلا دی جو ان کی ویب سائٹ پر
بھی لگ گئی جس سے مختلف اخبارات نے اٹھا لی اور چلادی تاہم اس کا پتہ چلنے
پر رات گئے ادارے کے سربراہ خود ہیڈ کوارٹر آئے اور ویب سائٹ سے خبر ختم
کرتے ہوئے خبر بنانے والے صحافی سمیت ڈائریکٹر کو بھی گھر بھیج دیا کہ تم
لوگ چاپلوسی اور مکھن نہیں لگاسکتے اور جی سر کی اضافی صلاحیت بھی تم لوگوں
میں نہیں سو انہوں نے صحافیوں کو مستقل طور پر گھر بھیج دیا اس سے اندازہ
کیا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں میں برداشت کتنی ہے اور سچ کو برداشت کرنیکی ہمت
کتنی ہے کچھ عرصہ قبل تھائی لینڈ کی شہزادی نے خیبر پختون خوار کا دورہ کیا
تھا اس دوران سرکاری نیوز ایجنسی نے خبر چلوادی کہ دہشت گردی سے متاثرہ
صوبے میں کسی بھی غیر ملکی شخصیت کا یہ پہلا دورہ ہے خبر اخبارات میں آنے
کے بعد تھائی وزارت خارجہ نے نوٹس لیا اور کہا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس
معاملے کو میڈیا پر نہیں لایا جائیگا لیکن اس طرح سے ہمیں تو مسئلہ ہوگا جس
کے بعد سخت اقدام اٹھاتے ہوئے سرکار کی مدح سرائی کرنے والے کچھ صحافی لائن
حاضر کردئیے گئے تاہم بعد میں حالات اور معافی تلافی کے بعد معاملہ سلجھ
گیا حالانکہ ان صحافیوں نے حالات کے پیش نظر سچ لکھا تھا لیکن سرکار کو یہ
سچ بھی برداشت نہیں حالانکہ دہشت گردی کے نام پر انہیں ڈالر بھی بہت ملتے
ہیں - کچھ عرصہ قبل خیبر ایجنسی سے چلنے والے ایک سرکاری ایف ایم ریڈیو میں
کام کرنے والے صحافی نے تیراہ میں ہونیوالی بمباری کے بعد مقامی لوگوں کے
تاثرات لئے جس میں مقامی لوگوں نے اسے ظلم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ "کلا
دبے بے وار اور کلا دا بابا وار" یعنی کبھی بابا کی باری اور کبھی اماں کی
باری" قبائلی صحافی نے وہ رپورٹ متعلقہ ریڈیو سے آن ائیر کردی اور یہ سچ
ہمارے ہاں وفاق کی نمائندگی کرنے والے بابو جی کو اتنا برا لگ گیا کہ وہ
غریب قبائلی صحافی بھی سرکار کی نوکری سے نکلوا دیا گیا کچھ عرصہ فاٹا
سیکرٹریٹ اور بابو جی ہائوس چکر لگانے جی حضوری کے بعد اب اسے پروبیشن پر
دوبارہ لگا دیا گیا اب اسے کہا گیا ہے کہ اگر اس مرتبہ سچ بول دیا تو یہ
عارضی نوکری بھی چلی جائے گی اور پھر بازار میں چنا چاٹ فروخت کرتے پھرو گے
چنے چاٹ کی دکان کھولنے کے ڈر سے اب وہ صحافی ہر جگہ کانٹ چھانٹ کر خبر
بناتا ہے- ۔حالانکہ چنے چاٹ والے کی کمائی صحافی کی کمائی سے زیادہ ہوتی ہے
ویسے سرکار کی ترجمانی کرنے والے مخصوص قسم کے صحافی ہی حکومت کو اچھے بھی
لگتے ہیںجو ان کی بکواس کو دنیا جہاں کا سچ بنا دیں انہیں منہ پھٹ اور سچ
لکھنے والے لوگ اور صحافی تو بہت زیادہ برے لگتے ہیں -
کچھ دن قبل بشیر بلور کے گھر میں تعزیت کیلئے راجہ رینٹل نے آنا تھا
الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے چار دنوں سے بلور ہائوس میں
ڈیرہ جمایا ہوا تھا جس دن راجہ رینٹل نے آنا تھا اس ان ان کی سیکورٹی کے
افراد آئے اور کہا کہ نتھو خیرے قسم کے صحافی ادھر سے نکل جائے صرف سرکاری
صحافی ہی یہاں پر رپورٹنگ کرسکتے ہیں جب ہم نے تصدیق کیلئے متعلقہ ایس پی
سے بات کی تو اس نے بھی کہا کہ ہمیں اوپر سے آرڈر ہے اس لئے باہر نکل جائے
پولیس نے بھی اپنے آپ کو معصوم بنا دیا ہم نے بھی کہ دیا کہ راجہ رینٹل کو
دیکھنے کا ہمیں بھی کوئی شوق نہیں نہ وہ اتنا خوبصورت ہے کہ ہمیں اس کا
دیدار ہونے سے کچھ ملے گا وہاں سے باہر نکلنے کے بعد سیکورٹی والوں نے بھی
آنکھیں بدل ڈالی اور آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اس بات کا پتہ چلنے والے
مرحوم بشیر بلورکے بھائی کو غصہ آیا اور انہوں نے سیکورٹی والوں کو کہہ دیا
کہ یہ کون صاحب ہیں جو ہمارے گھر سے صحافیوں کو نکال رہے ہیں انہوں نے راجہ
رینٹل کے متعلقہ اہلکاروں کے نام پوچھے تاہم حالات کاپتہ چلنے پر سیکورٹی
اہلکار اور انفارمیشن کے لوگ معافی مانگتے ہوئے صحافیوں کو اندر لے آئے اس
عمل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سرکار کو وہی لوگ اچھے لگتے ہیں جو کنٹرول
خبریں ہی دیا کرے اور ان کے گھوں کو صاف کرے اور ان کے کرتوتوں کو کارناموں
میں بدل ڈالیںناکہ کرتوت کمی کمینوں کو صاف انداز میںبتا دیا کرے- |