شروع اﷲ کے نام سے جوبڑا مہربان
اور نہایت رحم والا ہے
آج بھی میرے سامنے ایک موٹر سائیکل اور رکشہ کے درمیان ٹکراﺅ ہوا۔ جانیں تو
بچ گئیں لیکن نہ ہونے کے برابر۔ اﷲ اپنی حفاظت میں رکھے۔ یہ واقعہ صرف اور
صرف تیز رفتاری اور غلط ڈرائیونگ کا نتیجہ بنا۔لیکن ہم پھر بھی یہی کہتے
ہیں کہ اﷲ کو جو منظور تھا۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہماری کیا غلطی تھی جو یہ
واقعہ ہوا۔ گنجائش سے زیادہ سواریوں لوڈ کرنااور پھرگاڑیوں کو بغیر خطرہ کے
سڑکوں پر دوڑانا بہت بڑا قانونی جرم اور خطرناک کھیل ہے۔ لیکن عوام اور
گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات اپنی اور دوسرے لوگوں کی جان کی پرواہ نہ کرتے
ہوئے خود کو جلد از جلد ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی
وجہ سے ڈرائیوروں اور گاڑی مالکان کی بے حسی کلہرکہار کے واقعہ کی ذمہ دار
بنی۔ جن پھولوں کو ابھی خوشبو بکھیرنی تھیں۔وہ کھِلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے۔
اِن پھولوں کو کیا پتہ کہ گاڑیوں کی فٹنس کیا ہوتی ہے؟ آج کل کے جدید دور
ہونے کے باوجود بھی ہم بغیر سوچے سمجھے گاڑیوں میں اوورلوڈ ہو کر، گاڑیوں
کی چھتوں اور کناروں پر لٹک کر سفر کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ گاڑیوں میں
اوورلوڈنگ سے مسافروں میں گھٹن، موڑ کاٹتے ہوئے مسافروں اور سامان کے گرنے
کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ چند روپوں کی اضافی لالچ میں ڈرائیور خود،
سواریوں اور گاڑی کو خطرے میں ڈال کر سڑکوں پر چل پڑتے ہیں۔جو کہ آنے والی
دوسری ٹریفک اور کراسنگ کرنے والی گاڑیوں کے لئے بہت خطرات کی وجہ بنتے
ہیں۔گاڑیاں تو مرمت ہو جاتی ہیں بلکہ حادثہ کے بعد اصل سے بھی خوبصورت بن
جاتی ہیں لیکن زندگی جو ایک دفعہ ہی ملتی ہے اور یہ اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
وقت پر موجود اگر ٹریفک پولیس کے اہلکار موجود بھی ہوں توا ن کو چکما دیتے
ہوئے دوسرے راستوں سے نکل جاتے ہیں۔بہت کے تو چالان اور جرمانے کئے جاتے
ہیں۔ لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کو دھوکہ دے کر اچھا کام کر رہے ہیں تو
یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔وہ جو کہاوت مشہور ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں
سے نہیں مانتے، جتنے جرمانے یا چالان کرو ،ان کے کانوں پر جوں تک نہیں
رینگتی۔ اس کے علاوہ سکولوں اور کالجوں کی گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ
طالبعلموں کو سوار کیا ہوتا ہے۔جو کہ سراسر جرم ہے۔ چند روپوں کی خاطر کیوں
گاڑیوں کے مالکان اور ڈرائیور نہیں سوچتے کہ ان کی تھوڑی سی غفلت و
لاپرواہی کی وجہ سے طالبعلموں کی جانوں کو کتنا خطرہ ہو سکتا ہے۔اس معاملہ
پر طالبعلموں کے والدین کو غوروفکر اور سوچنا ہو گا کہ وہ پیسے دے کر بھی
اپنے بچوں کو زندگیاں داﺅ پر لگا رہے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ جس گاڑی
والے کے ساتھ اپنے بچوں کی ڈیوٹی لگا رہے ہیں۔کیا وہ ڈرائیور کردارکے لحاظ
سے ٹھیک ہے۔جسمانی طور پر مکمل فٹ ہے۔بینائی ٹھیک ہے۔ گاڑی کی مکمل فٹنس
جیسے مسائل کو بھی مدِنظر رکھیں کیونکہ زندگی اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اورجن
تاروں نے ملک کے لئے آگے روشن مستقبل بننا ہے ان کی حفاظت کے لئے کسی سے
بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرنا خود اپنے
اور دوسروں کی جانوں کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ٹریفک سگنل پر ذمہ
داری کا مظاہرہ کم ہی ملتا ہے۔ایک دوسرے سے جلدی نکلنا، اشاروں کے بند ہونے
کے باوجود بھی سگنل کی پراوہ کئے بغیر سڑکوں کو کراس کرنا اور سب سے بڑی
بات قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اور قانون کی خلاف ورزی کرنا ملکِ پاکستان
کے لئے المیہ بن چکا ہے۔پاکستان میں اگر ہر شخص قانون پر عمل کر ے تو کہی
بھی کوئی حادثہ وغیرہ نہ ہو۔گاڑیوں کی مکمل فٹنس،ٹوکن ٹیکس وغیرہ کے
Certificateباقاعدہ ٹریفک پولیس اور محکمہ ایکسائیز کے اہلکاروں کو چیک
کروانے چاہیں۔ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ اگر صحیح طور پر گاڑیوں وغیرہ کی
چیکنگ شروع کی جائے تو پھر لائنوں کی لائنیں لگ جائیں۔اوورلوڈنگ، گاڑیوں کا
مکمل فٹ نہ ہونا وغیرہ جیسے ہزاروں کیس ہوتے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے کہ
باربار چالان اور جرمانہ کے پھر بھی سڑکوں پرگاڑیاں دوڑرہی ہوتی ہیں۔اگر
ٹریفک پولیس والے تھوڑی سی بھی سختی کریں تو پھر ہر کوئی گلہ شکوہ کرنے لگ
جاتے ہیں۔کہ غریبوں کو تنگ کرتے ہیں۔پیسے لیتے ہیں، ڈیوٹی ٹھیک سرانجام
نہیں دیتے، اسکو نہیں روکتے۔ اور دوسری طرف اگر یہی اہلکار نرمی کا مظاہرہ
کریں تو ہر کوئی حد سے زیادہ کی رفتار سے خود اُنہی کو للکارتے ہوئے ہوا کی
طرح جاتا ہوا نکل جاتا ہے۔ تو پھر اس موقع پر ٹریفک اہلکار کیا کریں؟روکتے
نہیں تو بھی بدنام، روک لیں تو بھی بدنام۔اگر کسی کا چالان کرنے لگیں تو کو
ئی نہ کوئی تعلق درمیان میں آجاتا ہے۔اور چھوڑدیں تو وہی آگے جا کر حادثے
کا شکار ہو جاتا ہے ، خود بھی اور اوورں کا بھی نقصان کا باعث بنتا ہے۔پھر
بھی گلہ ٹریفک والوں پر آتا ہے۔ کبھی ہم نے اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھا
ہے کہ ہم اپنی کتنی ذمہ داری سے ڈرائیونگ کرتے ہیں۔اور ٹریفک اہلکاروں سے
تعاون اور قانون پر عمل کرتے ہیں۔ غلط ڈرائیونگ، اوورلوڈنگ، غلط کراسنگ،
سگنلزکی خلاف ورزی سب ایک غیر قانونی عمل ہے۔اگر ہم اپنی ذمہ داریاں ٹھیک
طور پر نبھائیں اور پولیس اہلکار بھی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں قانون
کے مطابق نبھائیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ سڑکوں پر حادثات میں نمایاں
کمی واقعہ ہو۔سکولوں و کالجوں کی بسوں اور گاڑیوں کی مکمل فٹنس رپورٹ ہر
سال ٹریفک پولیس والوں کے پاس تصدیق کروانی چاہیے۔غلط ڈرائیونگ اور گاڑیوں
کی مکمل فٹنس نہ ہونے پر متعلقہ ڈرائیور کا چالان اورمالک کو جرمانہ کرنا
چاہیے۔ ٹریفک کے سلسلہ میں سب سے پہلے عوام پر ذمہ داری آتی ہے۔ کیونکہ
موٹر سائیکل، گاڑیاں ٹریفک پولیس والے نہیں ہم چلا رہے ہوتے ہیں۔اور حفاظت
بھی ہم کو خود کرنی چاہیے۔ان کا بنیادی مقصد تو ٹریفک کو کنٹرول کرنا ہوتا
ہے۔اس ضمن میں پٹرولنگ پولیس کی مدد بھی لی جاتی ہے۔بے شک غلط فہمیاں دونوں
طرف ہوتی ہیں لیکن، ٹریفک اہلکاروں کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرنا چاہیے کیونکہ
وہ ہماری ہی سہولت اور جانوں کی حفاظت اور زندگیوں کی اہمیت کو جانتے ہوئے
ہر وقت دن ہو یا رات، گرمی ہو یا سردی، بارش ہو جا دھند ہمہ تن جوش ہو کر
اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ لہذا س سلسلہ میں اگر وہ سختی کرتے
بھی ہیں تو وہ ہمارے مستقبل اور جانوں کی حفاظت کے لئے ایک سبق ہوتا ہے۔اس
ضمن میں طالبعلموں میں ٹریفک کے قوانین اور عام شہریوں میں شعور اُجاگر
کرنے کے لئے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔اس کے علاوہ پولیس اہلکاروں کو سی
این جی گیس سلنڈروں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہمارے معاشرہ میں
چلتے پھرتے ایٹم بم ہیں۔غیر معیاری گیس سلنڈروں کی بھرمار جو کہ لوکل
مارکیٹوں میں تیار ہو رہے ہیں۔کسی بھی وقت جانوں کے ضائع کا اندیشہ لگا
رہتا ہے۔اس سلسلہ میں میری گزارش ہے کہ میانوالی کے اعلیٰ ٹریفک پولیس
کنٹرول آفیسر سے کہ آپ کی ذاتی دلچسپی سے سی این جی سلنڈروںکے میعار کے
بارے میں بھی چیکنگ ہونی چاہیے۔اور باقاعدہ سلنڈروں کے معیار کو چیک کیا
جانا چاہیے۔اور اس ضمن میں بہتر حکمت عملی بنانی چاہیے ہوگی۔تاکہ آنے والے
وقت میں میانوالی ایسے ناگہانی حادثات سے بچ سکے۔ہم سب کی تھوڑی سے دلچسپی
ملک و قوم کے لئے سودمند ثابت ہو گی۔اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا
رکھنا چاہیے۔ اور موجودہ دور میںطالبعلموں اورعام نوجوانوں کو اپنے اردگرد
کے ماحول پر توجہ دینی چاہیے تھوڑا سہ شبہ ہونے پر کسی بڑے کو یا نزدیک
موجود پولیس چوکی یا تھانہ میں انفارمیشن دینی چاہیے۔ |