’’ابّا پاکستان تو میرا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘

ننھے مُنّے دو سالہ سعد میاں کمرے میں داخل ہوئے اور اپنی ننھی ننھی پھولتی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے بولے:’’امّاں۔۔۔باہر۔۔۔۔گٹر ۔۔۔ مم۔۔۔۔۔بااَر(باہر) گٹر ۔۔۔مم۔۔۔۔امّاں با اَر گَٹَر مَم۔۔۔۔ابّا ۔۔۔۔با اَر گَٹَر مَم۔۔۔اُوں۔۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر سعد میاں نے اپنی ننھی سی ناک سکوڑی کیونکہ گھر سے باہر سڑک پر بہنے والے گندے پانی کی بُو کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔

ابّا کچھ دیر پہلے نماز ادا کرکے مسجد سے گھر آئے تھے ، باہر سڑک پر ایک گٹر اُبل گیا تھا اور متعلقہ ادارے کے اعلٰی حُکّام کی بارہا توجہ دلانے کے باوجود اس کام کو پسِ پُشت ڈالنے کی قومی عادت پر عمل کیا جا رہا تھا۔آج سعد میاں کا یہ انداز دیکھ کر ابّا خوشی سے نہال ہوگئے اور کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں بند کرکے خوب خوشبو چھڑکی (یعنی رُوم فریشر کیا ) اور پھر اپنے دو سالہ پوتے کو گود میں اُٹھا کر خوب پیار کیا جسے ٹھیک طرح سے بولنا بھی نہیں آیا تھا لیکن پھر بھی وہ معصوم پھول گھر والوں کی اعلٰی و بہترین تربیت کے باعث اس کم سنی میں بھی خوشبو دینے لگا تھا۔ابّا نے سعد میاں کو گود میں لے کر پیار کیا۔سعد میاں کی ننھی ننھی آنکھوں میں ابّا کی ڈاڑھی کے بال چُبھے تو جھٹ ننھی مُٹھیّوں کو آنکھوں میں رگڑنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔
اب تو ابّا خُوب ہنسے ۔۔۔۔۔ ’’ ٹھاہ۔۔۔ٹھاہ۔۔۔۔۔ٹھاہ!!!!‘‘

گرمی خوب پڑ رہی تھی اور حبس کا عالم تھا،اسکولوں میں موسمِ گرما کی تعطیلات تھیں،حسن میاں شربت کا دوسرا گلاس بلی مانو کو پلا کر آرہے تھے،وہ شربت لے کر جاتے تو مانو کے نام پر کہ ماما نے بہت اچھا شربت بنایا ہے او ر مانو آج تھری (تین) گلاس پیئے گی اور خوب موٹی تازی ہوجائے گی اور پھر گندے چُوہے کھانا چھوڑ دے گی۔۔۔۔لیکن دراصل شربت وہ مانو کے سامنے رکھ کر خود پی رہے تھے کیونکہ مانو بیگم تو شربت کا گلاس دیکھتے ہی منھ موڑ لیتیں اور حسن میاں کہتے: ’’مانو۔۔۔۔پی لو پی لو۔۔۔۔ہم بھی تو ابّا کے کہنے سے دودھ پی لیتے ہیں حالانکہ ذرا نہیں اچھا لگتا ۔۔۔۔۔لیکن ابّا تو بہت مشہور ہیں اوراُن سے ڈر بھی لگتا ہے کیونکہ وہ بابا کے بھی بابا ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘

مانو بلی کو حسن میاں کی پوری بات میں صرف ’’ دودھ‘‘ والا لفظ اچھا لگتا اور وہ نہایت سُریلی آواز میں ’’ میاؤں!!!‘‘ کہتیں لیکن چھ سالہ حسن میاں کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ مانو صاحبہ شربت کی بجائے دودھ کا تقاضا فرمارہی ہیں ۔۔۔۔۔وہ سمجھے کہ جس طرح دودھ انھیں نہیں پسند اسی طرح مانو کو بھی کہاں پسند ہوگا۔۔۔۔۔جب مانو کی میاؤں میاؤں حد سے تجاوز کرنے لگی تو اندر کمرے سے امّاں کی آواز آئی کہ حسن یہ شربت نہیں پیئے گی ۔۔۔۔دودھ لاتی ہوں۔۔۔۔یہ شربت تُم پی لو ۔۔۔۔۔اسٹرانگ(طاقت ور) ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔‘‘

اب تو حسن میاں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا کہ وہ اسٹرانگ اور جلدی سے بڑے ہوجائیں گے ، دو ہی تو خواب تھے اُن کے، ننھے ننھے معصوم خواب کہ خُوب اسٹرانگ(طاقت ور) ہوجائیں اور جلدی سے بڑے ہوکر ابّا کی طرح کالج میں لڑکوں کو پڑھائیں۔

جب مانو محترمہ ٹس سے مَس نہ ہوئیں تو ناچار دوسرا گلاس جو گلابی پھولوں والا خوبصورت گلاس تھا،وہ بھی حسن میاں نے خود پی لیا اور خالی گلاس لے کر ماما کو باورچی خانے میں دینے جارہے تھے کہ یکایک ابّا کا گولیوں کی طرح فائر کرتا قَہقَہہ کانوں میں پڑا۔۔۔۔فوراً رُک گئے اور کمرے کا منظر دیکھ تو محمد حسن نوید میاں کی ننھی سی جلن اور معصومانہ حسد اپنی انتہا پر پہنچ گئی کہ نرم و نازک گورے چٹّے سعد کو ابّا پیار کررہے تھے۔۔۔۔یہ تو سراسر حسن میاں کا حق دن دہاڑے لُوٹا جا رہا تھا۔۔۔وہ فوراً آگے بڑھے اور ننھی ننھی مُٹھیّاں بھینچ کر بولے:’’ ابّا آپ نے سعد کو گود میں کیوں لیا ہے؟‘‘

ابا نے مزے کرنے چاہے:’’ کیوں کیا یہ میرا پوتا نہیں ہے، اس کی تربیت میرا فرض نہیں ہے،تم سے چار سال چھوٹا ہے اور تمہارا چھوٹا بھائی ہے حسن میاں !‘‘

حسن میاں بھی ابّا ہی کے پوتے تھے، تَڑ سے بولے : ’’ وہ تو ٹھیک ہے ابّا ،لیکن سعد کچھ اتنا خاص اچھا تو نہیں لگ رہا ابھی۔۔۔۔اس سے اچھا سوٹ تو یو۔۔یو (جو۔۔۔جو) آپ مجھے لائے تھے بہت مہنگا والا ابّا ۔۔۔۔وہ میں پہنا ہوا ہوں اور میں سعد سے زیادہ اچھا لگ رہا ہوں!‘‘

’’اوہو۔۔۔۔اب میں سمجھا کہ آپ بھی گودی میں آنا چاہ رہے ہیں ،کیسا پکڑا۔۔۔۔‘‘ ابّا نے کہا ہی تھا کہ حسن میاں نے زور زور سے اُچھلنا شروع کردیا حالانکہ اُن کی چوری پکڑی گئی تھی۔’’ جی نئیں ۔۔۔۔جی نئیں۔۔۔۔میں تو ایسے ہی کہہ رہا تھا ابّا!‘‘ وہ اُچھلتے جاتے اور کہتے جاتے�آ ابّا نے سعد میاں کو نیچے اُتار کر محمد حسن نوید میاں کو اپنی گود میں لے لیا’’ میرا ولی عہد تو بڑا ہورہا ہے ماشا اللہ اب۔۔۔۔۔اب اسے گود میں لیتے ہوئے شرم آتی ہے۔۔۔۔‘‘ ابّا ہنسے۔

’’جی نئیں ۔۔۔۔جی نئیں۔۔۔۔ابّا آپ کو تو پتا ہی نہیں ہے کہ اکبر کے ماموں حض(حج) کرنے گئے تو نانی جان بھی گئی تھیں یعنی اکبر انکل کی ماما ۔۔۔۔تو۔۔۔تو اکبرانکل نے اُن کو اپنی گود میں اُٹھا کر حض (حج) کرایا تھا۔۔۔اکبر مجھے بتا رہا تھا۔۔۔یو یو (جو۔۔جو) بہت بوڑھی سی ہیں نا۔۔۔اکبر کی نانو(نانی جان) وہ گود میں آتی ہیں۔‘‘ حسن میاں کی اس بھرپور معلومات پر امّاں ، ابّا ، ماما اور سعد تک خوب ہنسے۔حسن میاں حیران تھے کہ انہوں نے ایسا کون سا لطیفہ سُنایا ہے۔امّاں بولیں ؛’’ آئے ہئے۔۔۔وہ تو ہمارا حسن اور سعد بھی ہمیں گود میں اُٹھا کر حج کرائیں گے انشاء اللہ تعالٰی ۔۔۔۔۔۔‘‘

حسن میاں بدک گئے ’’ جی نئیں۔۔۔۔اماں آپ اور ابّا تو بہت موٹے سے ہیں ،میں اور سعد تو گر پڑیں گے ۔۔۔۔۔ہم آپ کو کیسے اُٹھائیں گے؟‘‘

امّاں مسکرائیں اور بولیں:’’ ائے ہئے جوان جہان ہوجائیں گے انشاء اللہ میرے دونوں گلاب۔۔۔۔خوب مہکیں گے انشاء اللہ تعالٰی،اپنے علم اور بہترین عمل کی خوشبو خُوب خُوب بکھیریں گے دونوں!‘‘ ابّا بولے ’’ آمین!‘‘ اچانک حسن میاں چونکے اور ابّا سے پوچھا کہ انہوں نے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں کیوں بند کی ہیں۔اس پر سعد نے پورے جوش و خروش سے بتایا ’’ بھائی۔۔باہر گٹر مم!‘‘

اب تو حسن میاں کو خوب غصہ آیا ، ابا سے بولے ’’ ابا آپ اپنے کالج والا ڈنڈا نکال کر اس لڑکے کی پٹائی لگائیں جس نے ہماری روڈ (سڑک) پر گندا پانی ڈال دیا ہے اور گٹر بھی صاف نہیں کرتا۔ابّا مس افشاں اسلامیات کے پیریڈ میں بتا رہی تھیں کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کو صفائی نہایت پسند تھی اور آپ ﷺ جمعہ کے علاوہ بھی خوشبو اپنے کپڑوں پر لگاتے تھے۔۔۔روز صاف سُتھرے دُھلے ہوئے کپڑے بھی پہنتے تھے۔ابّا یہ گٹر صاف کرنے والے کون ہوتے ہیں؟‘‘

حسن میاں کے معصوم پریشان چہرے پر کئی سوالات تھے۔ابّا مُسکرا کر خاموش ہوگئے۔اچانک حسن میاں چونکے اور ’’ سُوں۔۔۔سُوں۔۔۔ ‘‘ کرکے اپنی ناک کو پھُلانے اور پِچکانے لگے،اچانک کچھ سُونگھ کر بولے: ’’ ابّا ۔۔۔۔۔۔یہ اتنی گندی( بد) بُو کہاں سے آرہی ہے؟‘‘
ابّا مسکرا کر بولے : ’’ ہمارے گھر سے !‘‘
’’ ہمارے گھر سے! وہ کیسے ابّا ؟‘‘حسن میاں حیران رہ گئے۔

’’ مُنّے میاں ۔۔۔۔۔ہمارے گھر کے باہر والی سڑک پر گٹر کا پانی بہہ رہا ہے اور صفائی کرنے والے بار بار بُلانے کے باوجود نہیں آئے،اب کیا کرا جاسکتا ہے سوائے صبر کے۔۔ دروازہ کھولو گے اور کھڑ کیاں بھی کھولو گے تو بدبُو اوربڑھ جائے گی!‘‘

’’ ہائے میرا سر تو مارے درد کے پھٹا جا رہا ہے ، اتنی گندی بُو سے اور جراثیم جو اُڑ رہے ہیں اس گندے پانی کی وجہ سے اُن سے بچّے اور بڑے الگ بیمار ہوجائیں گے اور طرح طرح کی بیماریوں میں مُبتلا ہو جائیں گے۔۔۔۔اللہ یہ حکومت کے ملازم کتنے کام چور اور لا پروا ہوتے ہیں ،ذرا جو کسی کا خیال کرتے ہوں۔۔۔۔رشوت اور بدامنی عام سی بات ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ امّاں نے اپنا سر پکڑ کر کہا۔

ابّا بولے : ’’ اس کے علاوہ نمازیوں کو بھی آتے جاتے اس قدر تکلیف ہو رہی ہے کہ بس کچھ نہ پوچھیے !‘‘
سعد بولے : ’’ بھائی ۔۔۔۔با اَر ۔۔۔۔۔گٹر ۔۔۔۔مَم !‘‘ ( یعنی بھائی باہر گٹر کا پانی بہہ رہا ہے)

حسن میاں نے سعد کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’ چلو سعد۔۔۔۔ہم اپنے گھر کے سامنے والی سڑک کو صاف کرکے آتے ہیں تاکہ بابا کو ، ابا کو اور دوسرے انکل، آنٹی اور بچوں کو تکلیف نہ ہو !‘‘

’’ کیوں میاں ۔۔۔تم کیوں صاف کرو گے سڑک پر بہتا گندا پانی؟‘‘ امّاں نے ماتھے پر تیوریاں ڈال کر پوچھا۔
ابّا بڑی دلچسپی کے ساتھ یہ مکالمہ سُن رہے تھے، اچانک حسن بولے :’’ نئیں امّاں۔۔۔ہمارا گھر یو ۔۔یو ( جو ۔۔جو ) پاکستان میں ہے تو جب ہمارا گھر گندا ہوگا ۔۔۔۔۔اس کے سامنے گندا پانی بہے گا تو پاکستان بھی تو گندا ہوجائے گا نا ، اسی لیے میں اور سعد اپنے پیارے وطن پاکستان کو صاف رکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ سارے بچّے بیمار ہو جائیں گے۔۔جیسا آج صفائی کے پیریڈ میں مِس غزالہ بتا رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔یو ۔۔۔۔ یو ( جو ۔۔۔۔ جو ) پِنک (گلابی) رنگ کا اسکارف پہنتی ہیں نا ۔۔۔وہ والی مِس غزالہ!‘‘ جذبات کی شدت سے حسن میاں کا معصوم چہرہ لال ہورہا تھا اور وہ اپنے ننھے سے ہاتھ میں سعد میاں کا ہاتھ پکڑے ہوئے اپنے پیارے پاکستان کی حفاظت کرنے اور اسے صاف سُتھرا کرنے جارہے تھے۔

اچانک ابّا اپنے لائق ، فائق پوتوں کے سامنے فرش پر اُکڑوں بیٹھ گئے اور اپنے دونوں ہاتھوں میں چار ننھے مُنے ہاتھ تھام لیے،ابّا کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ یکایک رونے لگے اور امّاں سے مخاطب ہوکر بولے:’’ بیگم۔۔۔۔۔اللہ گواہ ہے کہ جب تک پاکستان کی حفاظت ایسی نئی نسل کرے گی تو خداکی قسم پاکستان کو قیامت تک کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔اے میرے رَب تیرا لاکھ لاکھ شُکر ہے کہ تُو نے ہی اس ملک کو قائم کیا اور ہر آنے والی نئی نسل کے ننھے معصوم دلوں تو میرے رب اس خستہ حال اور پریشان وطن کی محبت منتقل کردیتا ہے جو تیرے پاکستان کے معمار ثابت ہوتے ہیں۔۔۔۔۔واہ میرے رَب تیرے بھید تُو ہی جانے۔۔۔۔۔!‘‘ اتنا کہہ کر ابّا نے اپنے معصوم پوتوں کے ہاتھ چُومے ، روشن آنکھیں، چمکتی پیشانیاں چُومیں اور اللہ تعالٰی کے آگے سر بسجود ہونے کی غرض سے مغرب کی نماز کے لیے اُٹھ گئے۔

وہ کمرے سے باہر نکلنے ہی والے تھے کہ سعد اورحسن ایک ساتھ بولے: ’’ ابّا ۔۔۔پاکستان تو میرا ہے۔۔۔۔‘‘ سعد میاں جو بہت کم بولتے ہیں اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی مدد سے بات کرتے ہیں ، اچانک ہنسے’’ کھی۔۔۔کھی۔۔۔۔کھی!‘‘ ، حسن میاں ہنسے ’’ ہی ۔۔۔ہی۔۔۔۔ہی۔۔۔۔‘‘ ، امّاں ان دونوں کو دیکھ کر ہنسیں ’’ ہاہاہاہا ! ‘‘ اب سب لوگ ہی ہنس چکے تھے تو ابّا کی باری تھی،ابّا واپس مُڑے اور اپنے دونوں پوتوں کو گود میں اُٹھا کر زور سے ہنسے : ’’ ٹھاہ۔۔۔ٹھاہ۔۔۔ٹھاہ۔۔۔۔ٹھاہ اااا !!!‘‘

’’ ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔ہا ہا ہا ! ‘‘ کمرہ قَہقَہوں سے بھر گیا۔میرے بچّو دعا کرو کہ اسی طرح ہمارا پیارا پاکستان بھی قہقہوں سے بھرا پُرا رہے یہاں کوئی غم ، آفت ، پریشانی اور ناگہانی نہ ہو۔۔۔سب خوش رہیں ۔۔۔یہاں کے بچے ہنستے مُسکراتے رہیں اور انھیں دیکھ دیکھ کر اُن کے بڑوں کے دل مطمئن اور پُرسکون رہیں۔۔۔۔میرے عزیزو۔۔۔۔۔پاکستان تو ہمیشہ قائم رہنے کے بنا ہے،اسے دُشمن کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اس کی حفاظت کو ذمہ تو اللہ رب العزت نے خود لیا ہے ، کیا سمجھے ؟؟؟

(نوٹ : دورانِ علالت اسپتال کے بستر پر لکھی گئی ایک یادگار تحریر جو ’’بابائے ادب اطفال‘‘پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی صاحب نے وطنِ عزیز کے ننھے مُنّوں کے لیے اپنے بے تاب دھڑکتے دل اور کانپے ہاتھوں سے کتنے ہی وقفوں میں لکھی ، سید یوسف علی شاہ،خادم: پاکستان چلڈرن رائٹرز گِلڈ )
Prof Dr Mujeeb Zafar Anwar Hameedi
About the Author: Prof Dr Mujeeb Zafar Anwar Hameedi Read More Articles by Prof Dr Mujeeb Zafar Anwar Hameedi: 14 Articles with 17382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.