مادی زندگی میں معیشت و
اقتصادیات کے مسائل نمایاں اہمیت کے حامل ہیں ۔ انسانوں نے مختلف ادوار مین
اپنی فہم و فراست کے مطابق مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی مگر وہ الجھ کر رہ
گئے ۔محکوموں نے خواب سے بیدار ہونے کی کوشش کی تو پھر انھیں حکمرانوں کی
ساحری نے سلادیا ۔ اور غلام داری کی بجاے جاگیر داری کا دور آیا۔ پھر صنعت
کاری یاسرمایہ داری کا عہد اپنی شان و شوکت کے ڈنکے بجاتا آیا۔ اور یہ بلند
بانگ دعوے کیے گئے کہ معاشی و اقتصادی مسائل حل ہوجائیں گے ۔ مگر وہاں بھی
مسائل سلجھنے کی بجاے الجھتے چلے گئے ۔ اور پھر اشتراکیت اپنی زبردست
صناعیوں کے خول میں ریزہ کاری کرتی ہوئی طلوع ہوئی ۔
مگر تاریخ شاہد ہے کہ اب تک انسانیت ظلم کی قہرمانی چکّی میں پس رہی ہے۔
اور ایک دفعہ پھر رہنمائی کے لیے اِدھر اُدھر دیکھ رہی ہے۔ لیکن سمجھنے
والے سمجھتے ہیں کہ ان کا اور ان جیسے مسائل کا حل عقل کی روشنی میں سوچنا
ممکن ہی نہیں۔ زندگی کے مسائل کا حل تو خالق کائنات جل شانہٗ کے پاس ہی
ہوسکتا ہے۔ اور اس نے صدیوں پیش تر ریگ زارِ عرب کے ایک اُمّی کی زبانِ
صداقت ترجمان سے یہ مسائل حل کروادئیے تھے۔
مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی ایک زبردست منارۂ نور کی
حیثیت سے ہماری رہنمائی فرمارہے ہیں ۔ انھوں نے ایک طرف تو لوگوں کی نگاہیں
دنیاوی دولت سے ہٹا کر اُخروی دولت کی طرف لگادی ۔ اور دنیا والوں کو
بتادیا کہ اصل کامرانی آخرت کی کامرانی ہے۔ اس لیے دنیا سے محبت محض نقصان
کی باعث ہے۔
انھوں نے فرمایا کہ دولت مندوں کے پاس جو مال ہے۔ یہ سب اللہ کا ہےوہ خود
بھی اللہ کے بندے ہیں ۔ اس طرح ان کی حیثیت یہ ہے کہ وہ امین کے طور پر اس
مال کو اپنے پاس رکھیں ،اور اسلامی حکومت کو جتنے مال کی ضرورت ہو خزانوں
کے دروازے کھول دیں۔ اس کی بہترین مثال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی
مقدس ذات ہے ۔ اسلامی حکومت کو جب بھی ضرورت ہوئی انھوں نے اپنا اثاثہ حاضر
کردیا ۔اِدھر حضور رحمتِ عالمﷺ نے ایسا ماحول پیدا کیا کہ غریب محض سوالی
بن کر اپنی صلاحیتوں کو ضائع نہ کربیٹھیںبل کہ اپنی تمام تر قابلیتوں کو
بروے کار لائیں۔ محنت کرکے اپنا رزق پیدا کریں۔ پھر دولت مندوں پر پابندی
عائد کردی گئی کہ وہ اپنی دولت تعیشات پر خرچ نہیں کرسکتے بل کہ اسے زکوٰۃ
و صدقات کے ذریعے مستحق عوام میں لٹاتے رہیں۔ تاکہ زر گردش میں رہے اور
دولت صرف چند دولت مند مراکز ہی میں گردش نہ کرتی رہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ
چندہی سالوں میں اسلام کی برکات سے پوری سلطنتِ اسلامیہ میں کوئی بھوکا نہ
رہا۔ لوگ اپنی زکوٰۃ لیے پھرتے رہے کہ کوئی مستحق مل جائے لیکن کوئی بھی
زکوٰۃ لینے والانہ ملا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں دولت کی زبردست ریل پیل
دیکھ کر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ مضطرب ہوگئے تھے اور فتویٰ دیا تھا
کہ :" دولت جمع کرنا حرام ہے۔" تو حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی یہ
آواز اس وقت پسندِ عام نہ ہوسکی ۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ زکوٰۃ کا قانون
پورے نظام کے ساتھ جاری و ساری تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دور
نبیِ رحمت ﷺ کی وضع فرمودہ معیشت کے زیرِ سایہ ایسا خوش حال تھا کہ ہر کوئی
آسودہ حال اور فارغ البال تھا ، کوئی بھوکا پیاسا نہ تھا اور جو تھے تو ان
کے لیے بیت المال سے کھانا پینا مقرر تھا۔
یہ اسلامی نظامِ اقتصادیا ت ہی کی برکت تھی کہ جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ ماضی میںکبھی چھ چھ روز بھوکے رہتے تھے آج وہی کتان کے کپڑے سے ناک صاف
کیا کرتے تھے، بحرین کے گورنرکا منصب انھیں حاصل تھا۔ اسی طرح حضرت علی
مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا معاملہ بھی تھا وہ خود فرماتے ہیں کہ :"
ایک زمانہ وہ تھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر
باندھتا تھا اور آج میرا یہ حال ہے کہ چالیس ہزار درہم میری سالانہ زکوٰۃ
کی رقم ہوتی ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے دور کی حالت مہاجربن
زید کی زبانی سنیے ، فرماتے ہیں کہ:" ہم لوگ صدقہ تقسیم کرتے تھے ایک سال
کے بعد دوسرے سال وہ لوگ جو پہلے صدقہ لیتے تھے خود دوسروں کو صدقہ دینے
لگتے تھے۔
اشتراکیت ذاتی جائداد کی بالکل نفی کردیتی ہے ۔ سرمایہ داری ملکیت پر کوئی
پابندی عائد نہیں کرتی ۔ ایک طرف افراط ہے تو دوسری طرف تفریط ، ان میں
اعتدال کی راہ وہی ہے جو انسانِ کامل مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ نے پیش کی تھی اور
جس کی برکات سے دنیا ایک دفعہ پہلے بھی سرفراز ہوچکی ہے ۔ ان تصریحات سے
واضح ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اگر صحیح رہنمائی مطلوب ہے اور
ٹھوکریں کھانا مقصود نہیں تو اس منارۂ نور کی طرف لوٹنا ہوگا جو سلسلۂ
تخلیق و ارتقا کی اولین نمود اور بزمِ آخریں کا اجالاہیں
خلق و تقدیر و ہدایت ابتدا است
رحمۃ للعالمینی انتہا است |