اسلام نظامِ محکم ہے ہر دور کی
خاطر عام بھی ہے
اس قصرِ مُشَیَّد میں آؤ یہ عام بھی ہے اور تام بھی ہے
آزاد روی میں فکر و غم افسوس ہے لیکن کچھ بھی نہیں
پابندیِ حق میں تلخی ہے تکلیف بھی آرام بھی ہے
(بدرالقادری مصباحی)
سرورکائنات ﷺ نے اس خاکدانِ گیتی پر جلوہ فرما ہوکر سسکتی بلکتی انسانیت کو
اطمینان و سکون کی دولت نصیب فرمائی۔ کوہ کنوں کو پرویز کامقام دیا ۔ زیر
دستوں کو زبردستوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی قوت و توانائی بخشی۔
اونٹوں کے چرواہوں کو اقوام و ملل کا امام بنادیا۔ بالکل قلیل عرصے میں
طویل خطۂ ارضی کو اسلام کے زیرِ اثر کرلیا اور دنیا کے بیش تر ممالک میں
اسلام کا پرچم پوری آب و تاب اور شان و شوکت سے لہرانےلگا ۔ آپ یہ نہ
سمجھیں کہ یہ اسلام کی عسکری قوت اور شمشیرو سناں کے زور پر ہوا۔ نہیں نہیں
! بل کہ یہ تو درحقیقت سرورِ کائنات ﷺ کے اعلیٰ ترین اَخلاق و کردار کے
ساتھ ساتھ آقا ﷺ کے سیاسی حکمت و تدبّر کا ثمرہ تھا۔
مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں ایسی واضح مثالیںموجود ہیں ، جو آپ ﷺ
کے کمال درجہ سیاسی تدبّر و ذکاوت پر دلالت کرتی ہیں اور جن کی روشنی میں
بلا تردد کہہ سکتے ہیں کہ کس قدر دانش مندی اور دوراندیشی سے آپﷺ روزمرہ
میں وقوع پذیر ہونے والے مسائل کو حل فرمادیا کرتے تھے۔ اختلافِ آرا کو دور
فرمادیتے تھے معاہدے کرتے اور نبھاتے بھی تھے۔ آپﷺ کی زیرکی اور دانائی کا
یہ نتیجہ تھا کہ ظاہری و باطنی مصلحتیں حاصل ہوجاتی تھیں اور جس کے سبب نفع
و فائدہ مل جاتا، بُرائی دور ہوجاتی ، ذرائع کا بندوبست ہوجاتا اور ہر کام
اپنی اپنی جگہ پر مناسب انداز سے انجام پاجا تا۔دنیاوی معاملات میں بھی آپ
ﷺ کو ایسی کامیابی عطا ہوتی تھی کہ جو پہلے کسی کو نہیں ملی۔ اور یہ
کامیابی ایسی بے نظیر تھی کہ امورِ دنیا کے انجام دینے کے باوجود آپ ﷺ کی
عبادت گزاری ، زہد و تقویٰ اور نیکی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ یہ ایک
مسلمہ حقیقت ہے کہ آقاے کائناتﷺ کی پاکیزہ زندگی میں ہمارے لیے عظیم
رہنمائی موجود ہے، جو انھوں نے قولاًنہیں بل کہ عملاً ہمیں کرکے دکھائی،
اور ایسے واضح اور رہنما اصولِ ہدایت دے گئے جن کو اپنا نا حکامِ زمانہ اور
اربابانِ سیاست کے لیے از بس ضروری ہے۔
جب آقاے کائنات ﷺ مدینۂ منورہ میں تشریف لائے تو آپﷺ کو انتہائی پیچیدہ
صورتِ حال کا سامنا تھا۔ مگر آپ
نے بہ کمالِ حکمت و دانش حُسنِ تدبیر سے موقع ومحل کو سمجھا اور پوری صورتِ
حال کو بہتر طور پر قابو میں کرلیا ۔ بلا شبہ یہ آپﷺ کی اعلیٰ ترین سیاسی
حکمت و تدبر کی بین دلیل ہے یہ آپﷺ کی راست سیاست کا نتیجہ تھا کہ جب آپﷺ
نے مدینۂ منورہ میں لوگوں میں ان کےاختلافِ عقائد کے سبب عدم محبت و اُنس
کو دیکھا توآپ ﷺ نے اپنے نظام میں ایسے قوانین کا اِجرا فرمایا جن کے تحت
لوگوں کے حقوق کا تحفظ ، عقیدے کی آزادی ، جان و مال اور عزت و آبرو کی
حفاظت کا مقصد حاصل ہوجاتا تھا۔
یہ سرورِ کائنات ﷺ کی سیاسی بصیرت و حکمت ہی تھی کہ مدینۂ منورہ کی تمام
قوتیں یکے بعد دیگرے آپ ﷺ کے قدومِ ناز میں آلگیں۔ آپ نے جتنے بھی معاہدات
کیے ہر ایک میں آپ کو مکمل کامیابی و کامرانی ہوئی کیوں کہ معاہدے کا تقاضہ
ہی یہی ہوتا ہے کہ اختلاف کی صورت میں فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہو۔ یہی وہ وقت
تھا جب اسلامی حکومت کی بنیاد کا پتھر رکھ دیا گیا۔حضور رحمتِ عالم ﷺ کی
سیاسی بصیرت کا ایک ایمان افروز واقعہ ہے کہ غزوۂ بنی مصطلق کے موقع پر
ایک دن پانی لینے پر ایک مہاجر اور ایک انصاری میں کچھ تکرار ہوگئی مہاجر
نے بلند آواز سے کہا: " یاللمہاجرین " ( اے مہاجرو! فریاد ہے) اور انصاری
نے کہا: " یاللانصار" ( اے انصاریو ! فریاد ہے)کا نعرہ مارا یہ نعرہ سنتے
ہی انصار و مہاجر دوڑ پڑے اور اس قدر بات بڑھ گئی کہ آپس میں جنگ و جدل کی
نوبت آگئی رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو شرارت کا ایک موقع مل گیا اس
نے اشتعال دلانے کےلیے انصاریوں سے کہا کہ :" یہ تو وہی مثل ہوئی کہ تم
اپنے کتّے کو فربہ کرو تاکہ وہ تمہیں کھاڈالے۔" جب عبداللہ بن ابی منافق کی
یہ بے ہودہ باتیں حضرت سیدنا عمر فارقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے کانوں میں پڑی
تو آپ نے حضور ﷺ سے عرض کیا :"یارسول اللہ! کسی کو حکم دیں کہ ابن ابی کو
قتل کردے۔" مگر اس کے جواب میں حکیم دانا ، رحمتِ عالم ﷺ نے حکمت و تدبّر
سے فرمایا کہ:" اے عمر! یہ بات کیسی ہوگی کہ لوگ کہیں گے کہ محمد (ﷺ) اپنے
ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگے ہیں، یہ سن کرحضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش
ہوگئے ، ابن ابی جتنا اسلام اور بانی اسلام ﷺ کادشمن تھا اس سے کہیںزیادہ
اس کے بیٹے جن کا نام بھی عبداللہ تھا سرورِ کائنات ﷺ کے عاشق و شیدائی اور
جاں نثار صحابی تھے۔ جب انھیں اپنے باپ کی بکواس کی خبر لگی تو بارگاہِ
رسالت مآب ﷺ میںآکر عرض کی کہ :"یارسول اللہ! اگر میرے باپ کا قتل کرنا آپ
کو پسند ہے تو آپ مجھے حکم دیں کہ میں خود ہی اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے
قدموں میں ڈال دوں۔" رؤف و رحیم ﷺ نے جواب دیا :" نہیں اے عبداللہ! بل کہ
اپنے والد کے ساتھ نرمی کرو ، مَیں کبھی تمہارے باپ کے ساتھ بُرا سلوک نہیں
کروں گا۔"آپ ﷺ کے اس سیاسی تدبّر اور حکمتِ عملی کا اس قدر دوررس اثر پڑا
کہ بعد میں جب کبھی ابن ابی کوئی شرارت کرتا تو لوگ سرورِ کائناتﷺ کا یہ
قول اُسے یاد دلادیتے۔
اسی طرح سرورِ کائنات ﷺ کی بالغ نظری کا بڑا ثبوت صلح حدیبیہ کی شرائط بھی
ہیں جو بہ ظاہر مسلمانوں کو ذلت آمیز دکھائی دیں ، مگر کچھ عرصہ گذرا تو
مسلمانوں کو معلوم ہوگیا کہ ہادیِ برحق ﷺ کی نظر کس قدر بالغ اور تیز تھی
کہ مسلمانوں کو صلح حدیبیہ کے نتائج نے تسلی و تشفی کرادی ۔ صلح حدیبیہ کا
نتیجہ یہ تھاکہ مکۂ مکرمہ کے کمزور نہتے مسلمانوں کا تحفظ ہوگیا ۔ کفار کے
مسلمانوں سے ملنے جلنے ، ان کے مدینۂ منورہ آنے جانے، اقوالِ رسول ﷺ سننے
کا عظیم ترین فائدہ یہ بھی ہوا کہ وہ مسلمان ہونے لگے جن باتوں کو مسلمانوں
نے ذلت سمجھا وہ ان کے لیے عزت و وقار ، قوت و طاقت اور باعثِ نصرت بنیں ،
اوراللہ رب العزت جل شانہٗ نے مشرکین کو ہر اُس کام میں ذلیل و رسوا کیا جس
سے وہ عزت و قوت کے خواہاں تھے اور جہاں انھوں نے غلبہ پایا وہاں مغلوب
ہوئے۔ یہ سب سرورِ کائنات داناے حکمت ﷺ کے سیاسی حکمت و تدبّر کا نتیجہ تھا
۔
آج ساری دنیا میں گندی سیاست کا دور دورہ ہے اس کی لپیٹ میں وہ ممالک بھی
ہیں جنھیں اپنے اسلامی ملک ہونے کا دعویٰ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے
اربابانِ سیاست اور حکامِ زمانہ سرورِ کائنات ، حکیم دانا، ہادیِ برحق ﷺ کے
اعلیٰ ترین و زرین اصولِ سیاست کو اپنا کر آگے بڑھیں اور اپنا فاسد اور
فرسودہ طریقۂ سیاست ختم کریں کہ اس میں دنیوی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ
اُخروی نجات کا راز بھی پوشیدہ ہے۔
(روزنامہ اردو ٹائمز 28ؕ/11/2003)بروز جمعہ) |