تعلیمات مصطفےٰ ﷺ کی ضیا پاشیاں

اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور بالخصوص مومنین سے خدا پرستی کس قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتی ہے اور اُن اخلاقیات کا ظہور کس طرح انسان کی عملی زندگی میں اور انفرادی و اجتماعی رویہ میں ہونا چاہیے؟ تو یہ ایک وسیع مضمون ہے جس کوایک مختصر سے مضمون میں سمیٹنا مشکل ہے ۔مگر میں نمونے کے طور پر نبی کریم ﷺ کے چند ارشادات آپکے سامنے پیش کروں گا جن سے آپکو اندازہ ہو گا کہ حضور اکرم ﷺ کے مرتب کئے ہوئے نظام زندگی میں ایمان ،اخلاق اور عمل کا امتزاج کس نوعیت کا ہے ، حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں:”یعنی ایمان کے بہت سے شعبے ہیں اُس کی جڑیہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود نہ مانو اور آخری شاخ یہ ہے کہ راستے میں اگر تم کوئی ایسی چیز دیکھو جو بندگانِ خدا کو تکلیف دینے والی ہو تو اُسے ہٹا دو اورحیاءبھی ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے ۔“دوسری جگہ ارشاد ہوا:اَلطُّہُورُ شَطرُالاِیمَانِ ۔ ”یعنی جسم و لباس کی پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے ۔“پھر فرمایا: ”مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جان و مال کا کوئی خطر ہ نہ ہو۔“پھر ارشاد ہوا: یعنی ”اُس شخص کا ایمان نہیں ہے جس میں امانت داری نہیں اور وہ شخص بے دین ہے جو عہد کا پابند نہیں۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:اِذَا سَرَّتکَ حَسَنَتُکَ وَسَائَ تکَ سَیِّاَتُکَ فَاَنتَ مُومِن۔یعنی جب نیکی کر کے تجھے خوشی ہو اور برائی کر کے پچھتاوا ہو تو تو مو من ہے ۔“ پھر فرمایا:اَلاِیمَانُ الصَّبرُ وَ السَّمَاحَةُ۔”یعنی ایمان تحمل اور فراخدلی کا نام ہے ۔“پھر ارشاد ہوا:”یعنی بہتر ین ایمانی حالت یہ ہے کہ تیری دوستی اور دشمنی اللہ کے واسطے ہو تیری زبان پر اللہ کا نام جاری ہو اور تو دوسروں کے لئے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور اُنکے لئے وہی کچھ نا پسند کرے جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہے ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:” اہل ایمان میں سب سے زیادہ کامل ایمان اُس شخص کا ہے جسکے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:” جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہوا سے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے،اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دینی چاہےے۔ اُس کی زبان کھلے تو بھلائی پر کھلے ورنہ چُپ رہے ۔“

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:” مومن کبھی طعنے دینے والا ،لعنت کرنے والا ،بد گو اور زبان دراز نہیں ہواکرتا۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:یعنی :” مومن سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا اور خائن نہیں ہو سکتا۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کی بدی سے اُس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”جو شخص خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کے پہلو میں اس کا ہمسایہ بھوکارہ جائے وہ ایمان نہیں رکھتا۔“

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”جو شخص اپنا غصہ نکال لینے کی طاقت رکھتا ہو اور پھر ضبط کر جائے اس کے دل کو اللہ ایمان اور اطمینان سے لبریز کر دیتا ہے ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”جس نے لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھی اُس نے شرک کیا ۔ جس نے لوگوں کو دکھانے کے لئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے لوگوں کو دکھانے کے لئے خیرات کی اُس نے شرک کیا ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:یعنی:”چار صفات ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے ۔امین بنایا جائے تو خیانت کرے ،بولے تو جھوٹ بولے ، عہد کرے تو اُسے توڑ دے اور لڑے تو شرافت کی حد سے گزر جائے۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”جھوٹی گواہی اتنا بڑا گناہ ہے کہ شرک کے قریب جا پہنچتا ہے ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”اصلی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرمانبرداری میں خود اپنے نفس سے لڑے اور اصلی مہاجر وہ ہے جو اُن کاموں کو چھوڑ دے جنہیں اللہ نے منع فرمایا۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”جانتے ہو قیامت کے روز اللہ کے سائے میں سب سے پہلے جگہ پانے والے لوگ کون ہوں گے ؟وہ جن کا حال یہ رہا کہ جب بھی حق ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے مان لیا اور جب بھی حق اُن سے مانگا تو انہوں نے کھلے دل سے دیا ۔اور دوسروں کے معاملہ میں انہوں نے وہی فیصلہ کیا جو وہ خود اپنے معاملہ میں چاہتے تھے ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”تم چھ باروں کی مجھے ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں ،بولو تو سچ بولو ،وعدہ کرو تو وفا کرو ، امانت میں پورے اترو، بدکاری سے پرہیز کرو، بد نظری سے بچو، اور ظلم سے ہاتھ روکو۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”دھوکہ باز اور بخیل اور احسان جتانے والا آدمی جنت میں نہیں جا سکتا ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جنت میں وہ گوشت نہیں جا سکتا جو حرام کے لقموں سے بنا ہو ۔حرام خور سے پلے ہوئے جسم کے لئے تو آگ ہی زیادہ موزوں ہے ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”جس شخص نے عیب دار چیز بیچی اور خریدار کو عیب سے آگاہ نہ کیا اس پر اللہ کا غصہ بھڑکتا رہتا ہے اور فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”کوئی شخص خواہ کتنی ہی بار زندگی پائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کر کے جان دیتا ہے مگر وہ جنت میں نہیں جا سکتا اگر اس پر قرض ہو اور وہ ادا نہ کیا گیا ہو ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”مرد ہو یا عورت اگر انہوں نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال اللہ کی فرمانبرداری میں بسر کےے لیکن جب ان کی موت کا وقت آیا تو وصیت میں کسی کی حق تلفی کر کے اُسے نقصان پہنچایا تو دونوں دوزخ کے مستحق ہوں گے ۔“ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:لَا یَدخُلُ الجَنَّةَ سَیِّی ئُ المَلکَةِ۔”وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جو اپنے ما تحتوں پر بری طرح افسری کرے گا۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”میں تمہیں بتاﺅں کہ روزے اور خیرات اور نماز سے بھی افضل کیا چیز ہے؟ وہ ہے لڑائی میں صلح کرانا۔لوگوں کے باہمی تعلقات میں فساد ڈالنا وہ فعل ہے کہ جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے ۔“

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”اصل مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز اللہ کے حضور اس حال میں حاضر ہو گا کہ اس کے ساتھ نماز، روزہ ، زکوٰة، سب ہی کچھ تھا مگر اس کے ساتھ وہ کسی کو گالی دے کر آیا تھا ،کسی پر بہتان لگا کر آیا تھا ،کسی کا مال کھاکر آیا تھا ،کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارپیٹ کر آیا تھا ۔ پھر اللہ نے اس کی ایک ایک نیکی ان مظلوموں پر بانٹ دی اور جب اس سے بھی حساب مکمل نہ ہوا تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دئے اور اسے دوزخ میں جھونک دیا ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:لَن یُھلَکَ النَّاسَ حَتّٰی یَعذَرُوا مِن اَنفُسِھِم۔”لوگ کبھی نجات سے محروم نہ ہوں اگر اپنی برائیوں کی تاویلیں کر کے اپنے نفس کو برائیوں پر مطمئن نہ کرتے ہوں۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:اَلمُحَتَکَرَ مَلعُون۔”جو تاجر قیمتیں چڑھانے کے لئے مال روک رکھے وہ ملعون ہے ۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:مَنِ احتَکَرَ طَعَامًا اَربَعِینَ یَومًا یُرِیدُ بِہ الفَلَائَ بَرِیَ مِنَ اللّٰہِ۔”جس نے چالیس روز غلہ اس نیت سے روک رکھا کہ قیمتیں چڑھ جائیں تو اللہ کا اُس سے کوئی تعلق نہیں۔“حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:مَنِ احتَکَرَ طَعَامًا اَربَعِینَ یَومًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِہ لَم یَکُن لَّہ کَفَّارَة۔”چالیس دن غلہ روکنے کے بعد اگر آدمی اُس غلہ کو خیرات بھی کردے تو معاف نہ کیا جائے گا۔“یہ حضور نبی کریم ﷺ کے بہت سے اقوال و ارشادات عالیہ میں سے چند ہیں ۔جوکتب احادیث سے جمع کر کے محض نمونے کے طور پر آپ کے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔ان سے قارئین کو یہ اندازہ ہو گا کہ حضور اکرم ﷺ نے ایمان سے اخلاق و کردار کا اور اخلاق و عمل سے زندگی کے تمام شعبوں کا تعلق کس طرح قائم کیا ہے ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ان باتوں کو صرف باتوں کی حد تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ عمل کی دنیا میں ایک پورے ملک کے نظامِ تمدن و سیاست کو انہی بنیادوں پر قائم کر کے دکھایا۔اور آپ ﷺ کا یہ وہ بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی بناءپر آپ دوسرے امتیازات و خصائص کے علاوہ نوع انسانی و خصوصاً انبیاءسابقین میں ممتاز ہیں۔قارئین ان احادیث کو پڑھیں اور آگے بیان کریں ۔تشریح نہ کی ہے تاکہ فرمودات نبوی ﷺ کی برکات سمیٹی جا سکیں۔اللہ تعالیٰ آپ کی طفیل ہم سب کو ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 658673 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.