کامیڈی کا سُونامی

کہتے ہیں وقت خراب چل رہا ہو تو اونٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے! حیران نہ ہوں۔ محاوہ حیرت انگیز تو ہے مگر اِس سے زیادہ قابل غور ہے۔ اگر کتا بھی اسی اونٹ پر یا کسی اور اونٹ پر سوار ہو یا پھر وہ اونٹ بیٹھا ہوا ہو جس پر بدنصیب انسان بیٹھا ہوا ہو تو کتے کو کاٹنے سے کون روک سکتا ہے!

بات ہو رہی ہے بدنصیبی کی۔ جس زمانے میں ہم نے لکھنا شروع کیا تھا تب سنجیدگی عام تھی۔ ہم سنجیدہ لکھنے پر مائل ہوئے تو احباب نے مطلع کیا کہ تحریروں سے مزاح برآمد ہو رہا ہے! ہم نے عرض کیا کہ ہم تو کسی نہ کسی طور صرف صلاحیت آزما رہے ہیں جسے مقدر آزمانا بھی کہا جاسکتا ہے۔ جواب ملا آپ جسے صلاحیت کے اظہار کی کوشش قرار دے رہے ہیں وہ طالع آزمائی سے کم نہیں! اور جس طور طالع آزما کا کیا ہوا قوم کو بھگتنا پڑتا ہے اسی طرح آپ کی طالع آزمائی قارئین کو صبر آزمائی سے دوچار کر رہی ہے!
ہم بچپن ہی سے ضدی واقع ہوئے ہیں یعنی صحافیانہ مزاج کے ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ لوگوں کے اشاروں کنایوں اور بعض احباب کے واضح انتباہ کے باوجود ہم لکھنے سے باز نہ آئے۔ باز آتے بھی کیسے؟ جب اتنے لوگ کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ لکھ ہی رہے تھے تو پھر ہم میں کیا کمی تھی! جناب رئیس امرہوی کی رہنمائی میں ہم نے شعر کہنا اور مضامین لکھنا شروع کیا تب (1984 کے زمانے میں) اخباری مزاج میں سنجیدگی نمایاں تھی۔ ہم نے بھی سنجیدگی کا چولا اوڑھا اور لکھنے، بلکہ لکھتے رہنے پر کمربستہ ہوگئے! تب فکاہیہ آئٹم ایک آدھ ہوا کرتا تھا اور وہ بھی ادارتی صفحے پر۔ خبروں سے مزاح کو الگ رکھنے پر توجہ دی جاتی اور خاصی محنت کی جاتی تھی! یہ ٹرینڈ فلموں سے آیا تھا۔ رونے دھونے، ایثار و قربانی کا درس دینے اور ناظرین کے جذبات کو مہمیز لگانے کا فریضہ ہیرو خاصی سنجیدگی سے ادا کرتا تھا اور کہیں کہیں ہنسانے کے لیے کامیڈین کو لایا جاتا تھا۔

مگر یہ کیا؟ ابھی ہم نے مضمون نویسی کا قلمدان ڈھنگ سے سنبھالا بھی نہ تھا کہ اخباری مزاج میں مزاح نے نقب لگانا شروع کردیا! ہم تو سنجیدہ رہنے کی قسم کھا بیٹھے تھے اور یاروں نے ہر طرح سے ہنسانے کا بیڑا اٹھالیا! یہ ٹرینڈ بھی فلموں سے آیا۔ ہوا یہ ہیرو ہی سے کامیڈین کا بھی کام لیا جانے لگا۔ بالی وڈ نے پہل کی۔ اور ہماری فلم انڈسٹری کا معاملہ تو یہ رہا ہے کہ
کمال اس نے کیا اور میں نے حد کردی!

ہمارے ہاں کچھ دن تو ہیروز نے کامیڈی کا حق ادا کیا مگر پھر ہیرو اور کامیڈین دونوں کے لیے کامیڈی فرمانے کی گنجائش نہ رہی۔ جب پوری فلم ہی ہر اعتبار سے فل ٹائم کامیڈی ہو تو الگ سے کامیڈی کے ارتکاب کی ضرورت ہی کیا ہے! اور اب تو ہمارے ہاں خیر پوری انڈسٹری ہی کامیڈی نیٹ ورک ہے! کہانی، مکالمے، اداکاری، سیٹ، موسیقی، نغمات .... غرض ہر چیز سے محظوظ ہوا جاسکتا ہے! جب کبھی کسی فلم میں کامیڈی نہ فرمانے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے تو لافانی کامیڈی وجود میں آتی ہے اور ناظرین کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی!

اب اخبارات کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ خبروں میں اِس قدر کامیڈی گھس گئی ہے کہ قارئین الگ سے فکاہیہ کالم پڑھنے کی زحمت سے بچ گئے ہیں! اخبارات کا ہر صفحہ کسی نہ کسی طور مزاح کے محاذ پر ڈٹا ہوا لگتا ہے۔ جن کی خبروں سے اخباروں کے صفحات بھرے ہوتے ہیں انہوں نے بھی شاید مزاح پیدا کرتے رہنے کی قسم کھا رکھی ہے! خبر، پریس کانفرنس، تقریر، بیان اور آنکھوں دیکھے احوال سمیت ہر شے میں قارئین کے لبوں پر تبسم بکھیرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے۔ رپورٹرز کی لایعنی ہینڈ رائٹنگ اور پروف ریڈرز کی کوتاہیاں بھی لافانی مزاح کو جنم دینے میں اہم کردار کرتی آئی ہیں۔ حد یہ ہے کہ تصاویر کے نیچے درج عبارت (کیپشن) میں بھی ہنسی کے گول گپّے چھپے ہوئے ہوتے ہیں! مثلاً ”لائنیں چوک ہوجانے کے باعث علاقے میں سوریج کا گندا پانی کھڑا ہے۔“ کس میں ہمت ہے جو کیپشن رائٹر سے پوچھے کہ کیا سیوریج کا صاف پانی بھی ہوا کرتا ہے! اجتماعی شادی کی ایک تقریب میں کھینچی جانے والی تقریب میں دس بارہ دولھے بیٹھے تھے اور کیپشن کچھ یوں تھا۔ ”شادی کی تقریب میں دولھے بھی شریک ہیں۔“ سبحان اللہ! کرم نوازی ہے کہ دولھے بھی شریک ہوگئے! کبھی کبھی کیپشن میں ایسی جامعیت ہوتی ہے کہ پڑھنے والا ہنسی کو ادھورا چھوڑ ہی نہیں سکتا۔ مثلاً ”گیس کی قلت کے باعث لوگ کشتی پر لکڑیاں رکھ کر دریائے راوی عبور کر رہے ہیں!“

اگر لکھنے والے مزاح لکھنے کا تہیہ کرکے قلم تھامیں اور طے کرلیں کہ کسی نہ کسی طرح مزاح کے اسٹیشن ہی پر تحریر کی ٹرین روکیں گے تو چیز مزاحیہ ہوکر دم لیتی ہے اور قارئین کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں! ایک بڑے اخبار میں حالات پر مختصر تبصرہ دو کالمی خبر کی شکل میں شائع ہوتا ہے اور خبر کی طرح سرخی اور ذیلی نکالی جاتی ہے۔ ذیلی کے آخر میں ”فکاہیہ تجزیہ“ درج ہوتا ہے! یہ صراحت شاید اِس لیے ضروری سمجھی گئی ہے کہ کوئی اچھی خاصی مزاحیہ تحریر کو سنجیدہ و سنگین نہ سمجھ بیٹھے! ایک بڑا اخبار اپنے ادارتی صفحے کے ماتھے پر احتیاطاً ”ایڈیٹوریل“ تحریر کرتا ہے تاکہ کوئی اُس صفحے کو کسی اور کھاتے میں نہ ڈال دے!

ہمارا مشاہدہ ہے کہ مزاح کے معاملے میں شوبز اور ضلعی خبروں کے صفحات ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں! شوبز کے صفحے پر کامیابی کے ایسے ایسے فارمولے شائع ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ضلعی خبروں کے صفحے پر شائع ہونے والی خبریں ہوش و حواس کے چودہ طبق روشن کرکے دم لیتی ہیں۔ مثلاً ”داماد کو 55 لاکھ کا چونا لگاکر چار سُسرالی گرفتار!“ یا ”زہر پینے کی شرط جیتنے والی بیوی اسپتال پہنچ گئی!“ اس صفحے پر کبھی کبھی خاصے بڑے مجمع کی تصویر دیکھ کر آپ سمجھتے ہیں کوئی جلسہ ہو رہا ہے۔ کیپشن سے پتہ چلتا ہے کہ مُرغے یا بٹیر لگائے جارہے ہیں! اور مجمع بڑا اس لیے لگ رہا ہے کہ قصبے کی پوری آبادی یہ تماشا دیکھ رہی تھی!

کامیڈی کا یہ سُونامی اُنہیں اپنے ساتھ بہا لے جانے کے لیے بے تاب ہے جو الگ سے کچھ ہلکا پھلکا لکھنا چاہتے ہیں! جب پوری فلم ہی کامیڈی ہو تو الگ سے کامیڈین کا خرچ کوئی کیوں برداشت کرے!

حالات نے تو خیر قسم ہی کھا رکھی ہے کہ ہمیں ہنسا ہنساکر مار ڈالیں گے۔ آج کل اسلام آباد میں دھرنے اور احتجاج کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ مزاح کے محل میں صدر دروازے کا کردار ادا کر رہے ہیں! اگر ڈاکٹر نے زیادہ ہنسنے سے منع کیا ہے تو لائیو نشریات دیکھنے سے گریز کیجیے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483456 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More