ہم تو خطاب سمجھ رہے تھے

کون سا معاملہ ہے جس میں ہم دنیا کے لیے مثال نہیں بن گئے؟ اب تو ہر معاملہ ہمیں دنیا کے سامنے کچھ اس انداز سے پیش کر رہا ہے کہ لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ عبرت پکڑیں یا محظوظ ہوں! اسلام آباد کے جناح ایونیو میں پیر کی شب دو بجے لانگ مارچ کے شرکاءسے ڈاکٹر طاہر القادری کا خطاب جس نے بھی سُنا اُس نے فقید المثال اعتماد کی بھرپور داد ضرور دی ہوگی۔ سرکس میں جب نیچے خاصا مضبوط جال بچھا ہو تو ”جان کی بازی“ لگانے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے!

ہم سمجھ رہے تھے کہ طاہر القادری خطاب کریں گے مگر اُنہوں نے وضاحت کردی کہ اِسے خطاب نہ سمجھا جائے۔ اُن کے لہجے کی پختگی بتا رہی تھی کہ تمام معاملات قابو میں ہیں! حاضرین سے تخاطب کی غایت خطاب سے زیادہ اعلامیے کا اجرا تھا! لانگ مارچ کے شرکاءسے عدم پسپائی کا حلف لینے کے بعد طاہر القادری نے اُنہیں آرام کی ہدایت دینے کے ساتھ مژدہ سُنایا گیا کہ منگل کی صبح گیارہ بجے ڈی اسکوائر میں خطاب ہوگا۔

طاہر القادری کے خطاب میں ایسی لذت اور گرم جوشی تھی کہ حاضرین ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو سخت سردی میں گرما گرم سوپ کا مزا آگیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی کہا دو ٹوک انداز سے کہا۔ یعنی صدر، وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان سب سابق ہیں، تمام اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں۔ ساتھ ہی اسلام آباد انتظامیہ کو حکم ہوا کہ اسٹیج ڈی اسکوائر منتقل کی جائے۔

اوروں کا پتہ نہیں، ہمیں تو یقین تھا کہ طاہر القادری نے سب کو سابق کہہ دیا ہے تو اب وہ سابق ہی سمجھے جائیں گے کیونکہ لاہور سے روانگی کے وقت اُنہوں نے کہا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکاءکے اسلام آباد پہنچنے سے قبل بلوچستان حکومت ختم ہو جانی چاہیے۔ اور ہوگئی! پیر کی شب انہوں نے کہا کہ حکومت کے ختم ہونے تک کوئی واپس نہیں جائے گا۔ ہمیں اِس بات سے ڈر لگ رہا ہے کیونکہ اِس میں دھمکی یا انتباہ کم، اعلامیہ زیادہ ہے!

منگل کو دھرنے کے شرکاءسے خطاب میں طاہر القادری نے کہا کہ ابھی آدھا خطاب ہوا ہے اور آدھا کام ہوگیا (یعنی وزیر اعظم کی گرفتاری کا عدالتی حکم آگیا!)، آدھا کام باقی خطاب سے ہو جائے گا۔ پوری قوم کو کچھ ایسا ہی تیقن درکار ہے!

ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ ہم نے پانچ سال کیوں ضائع کئے؟ ہمارے پالیسی میکرز (یعنی کنگ میکرز) کو کیا ہوا تھا کہ پانچ سال تک حالات کو جوں کا توں رہنے دیا گیا؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ چار پانچ سال قبل طاہر القادری کو بلالیا جاتا اور ایک آدھ خطاب کے ذریعے تمام بگڑے ہوؤں کی واٹ لگادی جاتی! اگر آپ نے کبھی جادو کی چھڑی نہیں دیکھی تو دیکھ لیں، طاہر القادری اس وقت اِسی حیثیت میں ہمارے سامنے موجود ہیں! چھوٹے بچوں کو ہم کمپیوٹر پر وڈیو گیم کھیلتے دیکھا کرتے تھے تو چھوٹی سی عمر میں غیر معمولی مہارت پر حیرت ہوا کرتی تھی۔ اب پتہ چلا کہ پروگرامنگ میں تو بڑے فائدے ہیں۔ سب کچھ پہلے سے اور خاصی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے۔ طاہر القادری صاحب نے بھی پروگرامنگ والے تیقّن ہی سے سب کچھ کہا اور وہ ہوتا بھی چلا گیا۔ دنیا والوں کے پاس اگر دیدہ ¿ عبرت نگاہ ہو تو دیکھیں کہ ایک پورے کے پورے، جیتے جاگتے ملک کو وڈیو گیم میں تبدیل کردیا گیا ہے! دنیا بھر میں ریاستی نظام رینڈم کے اصول پر چلائے جارہے ہیں۔ یہ تو خاصا فرسودہ طریقہ ہے۔ دنیا ہمیں دیکھے کہ ہم نے پورے ملک کو چلانے کے معاملے میں کچھ بھی رینڈم نہیں رہنے دیا! سب کچھ پہلے اور پورے توازن کے ساتھ طے کردیا گیا ہے تاکہ غریب غرباءبھی آسانی سے سمجھ جائیں، حیرت میں مبتلا نہ ہوں اور صدمے کی نذر نہ ہوں!

ہمیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی جیسے تمام احکام ہاتھ باندھے طاہر القادری کے سامنے کھڑے تھے۔ صرف لب کشائی کا انتظار تھا۔ وہ کچھ کہیں اور حکم خود بخود صادر ہو جائے! اسلام آباد میں رات اور دن کے وقت ان کا خطاب دیکھ کر ہمیں نسیم حجازی مرحوم یاد آگئے۔ ان کے ناولوں میں سپہ سالار کسی بھی معرکے سے قبل اپنے لشکر سے کچھ ایسے ہی بانکپن کے ساتھ خطاب کیا کرتا تھا! اگر نسیم حجازی آج ہوتے تو شاید اپنے کسی ناول کے لیے کچھ تحریک ضرور پاتے!

طاہر القادری کہتے ہیں کہ کراچی میں حکومتی گماشتوں نے دہشت گرد پال رکھے ہیں۔ مگر جناب! یہ سب تو پانچ سال سے چل رہا تھا۔ یہ سبھی کچھ اب کیوں دکھائی دے رہا ہے؟ قوم جاننا چاہتی ہے کہ طاہر القادری صاحب نے ایسا کون سا سُرمہ لگایا ہے جسے لگانے سے آنکھوں کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں اور ہر شے کی اصلیت دکھائی دینے لگتی ہے! ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چند سیاسی خاندانوں کے اثاثے چند برسوں میں ہزار گنا بڑھ گئے ہیں۔ یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف سیاست دانوں کے تو اثاثے نہیں بڑھے؟ یہاں تو سرکاری کلرک تک کروڑ پتی ہیں، ان کا علاج کون کرے گا؟

دھرنے کے شرکاءسے خطاب میں طاہر القادری نے عدلیہ اور فوج کو کلین چٹ دی۔ اس پر دونوں اداروں کو سکون کا سانس لینا چاہیے۔ جو بد خواہ یہ سمجھ رہے تھے کہ طاہر القادری کو پورے ملک اور قوم میں کیڑے ہی کیڑے دکھائی دے رہے ہیں وہ اپنا سا منہ لیکر رہ گئے ہوں گے! ہاں، اس بات کا ہمیں دکھ ہے کہ عمدہ کارکردگی کا سرٹیفکیٹ اور کلین چٹ دیتے وقت طاہر القادری میڈیا کو فراموش یا نظر انداز کرگئے! قوم کا حافظہ اب ایسا بھی کمزور نہیں۔ سب کو یاد ہے کہ انہوں نے پیر کی شب ڈھائی بجے لانگ مارچ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے دھرنے کے 40 لاکھ (!) شرکاءکی مناسبت سے میڈیا والوں کا بھی 10 لاکھ بار شکریہ ادا کیا تھا! میڈیا والے بہت خوش تھے کہ کسی نے تو انہیں ملین کی منزل تک پہنچایا! مگر یہ کیا، رات کی تاریکی میں دیا جانے والا سرٹیفکیٹ دن کے اجالے میں کہیں کا نہ رہا! صرف دو اداروں کو کلین چٹ دیتے وقت میڈیا کو نظر انداز کرکے طاہر القادری نے خراج تحسین کو خراج عقیدت میں تبدیل کردیا!

انقلاب برپا کرنے کے نام پر چند ایک اچھے اقدامات بھی ہو ہی جاتے ہیں۔ مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ بھی وقت پر نہیں ہوتا۔ پہلے بہت کچھ ہونے دیا جاتا ہے۔ پھر جب بہت کچھ ہو جاتا ہے تو اچانک پوری بساط خاصے الل ٹپ انداز سے لپیٹ دی جاتی ہے! یعنی مزید خرابیوں کے لیے راہ آسان ہو جاتی ہے! اب ایک بار پھر وہی کچھ کیا جارہا ہے جس کے کرنے سے خرابیاں ہی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اللہ کرے کہ سب کچھ پہلے سے طے کرنے والے قوم کے لیے کچھ اچھا ہی طے کریں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483463 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More