یہ خارزار بھی چمنستان میں بدلہ جاسکتا ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تحریر: حبیب اللہ

ربیع الاول رحمتوں و سعادتوں کا مہینہ ہے۔ اس ماہ ِ مبارک میں اللہ کی سب سے بڑی رحمت کا ظہور ہوا۔ اس ماہ میں نسل انسانی کو نعمت غیر مترقبہ سے نوازا گیا۔ جس کی وجہ سے ضلالت و گمراہی کے تاریک بادل چھٹ گئے اور سارا جہاں ایمان کے نورسے جگمگا اٹھا۔ اسی ماہِ مبارک میں دنیا کی عظیم ہستی کی ولادت باسعادت ہوئی جس کی لائی ہوئی ہدایت کی روشنی نے تمام عالم کو منور کردیا۔ بلاشبہ آپ تمام انبیاءعلیہم السلام کے سرتاج ہیں۔

جناب محمد کی حیات ِ مبارکہ کا کمال یہ ہے کہ بیک وقت تمام زندگی کے شعبوں میں انسان کی رہنمائی کرتی ہے جس کی حیاتِ طیبہ تمام انسانوں کی رہبری اور رہنمائی کرے وہی سارے عالم کے لئے رسول ہوتا ہے۔ آپ کا طُرہ امتیاز خُلق عظیم ہے۔ چونکہ آپ سارے عالم کے لئے رسول بناکر بھیجے گئے تھے۔ اس لئے آپ کی حیاتِ طیبہ کسی خاص جماعت، خاص قوم، خاص ملک یاخاص زمانے کے لئے نہ تھی۔

سرورکائنات جناب محمد کی سیرت مبارکہ کا کمال یہ ہے کہ دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ کی زندگی سے روشنی حاصل کرسکتا ہے اور پھر اپنی زندگی بہتر بنا سکتا ہے۔ اس لئے ادب و اخلاق کا کوئی سبق ایسا نہیں جو ہمیں آپ کی حیاتِ طیبہ سے نہ ملتا ہو۔ اب اجمالی طور پر جناب محمد کی سیرت طیبہ کے وہ روشن پہلو پیش کیے جاتے ہیں ۔ جن پر عمل پیرا ہو کر آج بگڑے حالات کو سنوارا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلے تجارت کو لیجئے ایک تاجر اور کاروباری انسان کی زندگی کا سب سے عمدہ وصف یہ ہے کہ وہ حسن معاملہ کا خوگر اور ایفائے عہد کا پابند ہو۔ ان دو صفات کے بغیر کوئی تاجر بھی اچھا نہیں بن سکتا ۔ نبی مکرم کے بارے میں کتب احادیث میں درج ہے کہ جب خدیجہ رضی اللہ عنہا کو آپ کی صدق گوئی، امانت داری اور اخلاقِ حسنہ کے بارے میں معلوم ہوا تو، انہوں نے آپ کو تجارت کی غرض سے اپنا مال دیا۔ تاکہ آپ اسے شام لے جائیں۔ آپ نے ان کی یہ بات قبول کرلی اور مال شام کی طرف لے کر چلے۔ راستے میں تجار سے جو معاملہ کیا وہ واپسی پر خدیجہ رضی اللہ عنہاکے غلام میسرہ نے جوکہ آپ کے ہمراہ تھا، خدیجہ رضی اللہ عنہا کوبتا دیا ۔ وہ آپ سے بہت متا ثر ہوئیں اور نفع بھی دُگنا ہوا۔ اسی طرح ایک حاکم اور عہدے دار کی زندگی میں سب سے بڑا جوہر انصاف ہے۔ جو اس کے او ر اس کے ماتحتوں کے درمیان تعلقات کو شگفتہ بناسکتا تھا۔ انصاف میں جب اپنے محسنوں ، امرا ءاور اپنی ذات کے خلاف معاملہ پیش آجائے تو یہ مرحلہ بہت مشکل ہوتا ہے۔لیکن نبی مکرم اس میں بھی پورے اُترے ۔

خاندان بنو مخزوم کے امیر گھرانے کی عورت نے چوری کرلی۔ تو اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اب اس کے خاندان والوں نے حد سے بچانے کے لئے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو سفارش کرنے کا کہا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس معاملے میں سفارش کی ۔ تو نبی مکرم غصے میں آگئے اور فرمایااگر آج فاطمہ بن محمد بھی چوری کرلیتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔(بخاری:6290)

یہ انصاف کا وہ مرحلہ ہے جہاں بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ مگر آپ نے اس نازک ترین مرحلے سے گزر کر دنیا کے حاکموں کے لئے قابل تقلید نمونہ چھوڑا۔

اسی طرح دوستی و تعلقات کی دنیا میں نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا۔ اس کی بنیادیں خلوص، باہمی ربط اور آپس میں ہمدردی سے مستحکم ہوتی ہیں۔ آپ بحیثیت ایک دوست صحابہ میں کیسے گھل مل کر رہتے تھے۔ ملاحظہ ہو، جب مسجد نبوی کی تعمیر کی جارہی تھی تو نبی اپنے صحابہ کے ساتھ گارا اور اینٹیں اٹھا کر دے رہے تھے۔ صحابہ نے عرض کی کہ ہم خود یہ کام کرلیتے ہیں آپ رہنے دیں۔ لیکن محمد نے انکار کردیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ ( بخاری:3616)

دشمنوں کے ساتھ بھی آپ نے اخلاق و کردار کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس پر عمل پیرا ہوکربڑے سے بڑا دشمن بھی دوست بنایا جاسکتا ہے۔آپ کی سیرت مبارکہ یہ ہے کہ جو بڑھیا روز انہ کچرا ڈالتی اس کے بیمار ہونے پر عیادت کرنے پہنچ گئے۔ جنہوں نے پتھر برسا کر لہولہان کیا ان کے لئے ہدایت کی دعا کی۔ جو ساری زندگی ظلم کے پہاڑ ڈھاتے رہے۔ فتحمکہ کے موقع پر انہیں معاف کر کے ایک ایسی مثال قائم کردی جو ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ لیکن آج نام نہاد مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ جو ایک مارے اسے دو سے جواب دیا جائے۔ ان کے لئے بھی اس سیرت میں عمدہ نمونہ ہے۔ اسی طرح اگر مالدار ہونے کی حیثیت سے دنیا والے کسی اچھے معاشرتی نظام کورائج کرنا چاہتے ہیں تو انہیں رسول اللہ کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ آپ کی سیرت تو یہ ہے کہ مال آتے ہی تقسیم فرمادیتے اپنی ذات کی فکر نہ کرتے ہوئے ۔ جب رمضان کا مہینہ آتا تو سخاوت ایسے کرتے گویا سخاوت کی آندھیاں چل پڑی ہیں۔(بخاری:1769)

اس طرح آپ نے خواہش کی کہ اگر مجھے احد پہاڑ سونے کا بنا کر دے دیا جائے تو تین دن میں تقسیم فرما کر ختم کردوں گا۔(مسنداحمد:70607)

آج کل کے سرمایا یہ داروں کی سوچ یہ ہے کہ روپے جمع کیے جائیں انسانوں کے وسائل پر قبضہ کرکے ان کو اپنے پاس روک کر رکھا جائے تاکہ مہنگائی کا بحران قائم کرکے فائدہ اٹھایا جائے۔اس نظریہ نے معیشت کو تباہ کر کے چند لوگوں کو سارے مال کا مالک بنادیا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں فاقہ کش، مزدور،قرض دار پیدا ہوئے۔ اور وہ دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے زکوٰة کا عملی نظام نافذ کرکے اور مال کو صدقات کی صورت میں بہا کر عمدہ نمونہ پیش کیا۔ اسی طرح آپ نے یہ حکم بھی ارشاد فرمایا کہ مزدورکو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دی جائے۔ (سن ابن ماجة:2434)

آج کے دور میں خود غرض اور نفس پرست سرمایہ داروں نے جن مصائب کو انسانوں پر مسلط کیا وہ غریبوں کے لئے عذاب الیم سے کم نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ! جو شخص ذخیرہ اندوزی اس نیت سے کرے کہ مہنگائی کابحران پیدا کرکے پھر نفع کمائے گا تو فرمایا وہ بڑا گنہگار ہے۔( مسنداحمد:8263)

اسی طرح مال کے بارے میں یہ بھی تعلیمات ملتی ہیں کہ بچی جانے والی چیز کی خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی سامنے لائی جائیں ۔ایک بارآپﷺ غلہ کے ڈھیر سے گزرنے لگے اور اس میں ہاتھ داخل کیاتو اوپر سے خشک اور اندر سے نم تھا۔آپ نے اس کی خرابی کو واضح کرنے کا حکم دیا۔

آپ ﷺ نے اس تفوق و برتری کو مٹادیاجوہزار سال سے انسان کی فطرت میں جاگزیں تھی۔ آپ نے اسے مٹا کر دنیا کو احترام انسانیت کے درس اور مساوات کی نعمت سے سرفرازفرمایا۔ آپﷺ نے اس کی حقیقت کوآشکار کیا، آقا و غلام ،شاہ و گدا،اللہ کہ عدالت میں سب برابر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاﺅ“

اور فرمایا کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔آپ نے خطبہ حجة الوداع میں یہ بھی فرمایا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر اور کسی عجمی پر عربی کو کوئی فضلیت نہیں اللہ کے ہاں بلند وہ ہے جو زیادہ خوف و الٰہی تقویٰ کی دولت سے دامن کو مالامال کیے ہوئے ہے۔(بخاری:4051) اور اسی طرح آپ ﷺ نے یہ روشن تعلیمات بھی لوگوں کے لئے عام کردیں” تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔“(ترمذی:1847)

بظاہر تو اس مختصر تحریر میں جناب محمد ﷺ کی سیرت طیبہ کی اس قدر بھی جھلک نہیں دکائی گئی جیسے آفتاب کے سامنے شرارہ ہوتا ہے۔
دفتر تمام گشت و بہ پایاںرسید عمر
ماہ ہمچناں درِ اول وصف تو ماندہ ایم

اگر ہم آپ ﷺکی حیات مبارکہ کے ان گوشوں پر عمل پیرا ہوجائیں ۔ تو آج ہم اس خار زارِ جہاں کو چمنستان میں بدل سکتے ہیں۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
Farooq Azam
About the Author: Farooq Azam Read More Articles by Farooq Azam: 3 Articles with 1589 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.