مقام سنت رسول اللہ ﷺ :اعمال کے
بارے یہ جاننا لازمی ہے، اعمال کی بجا آوری میں ایک تقسیم کار استعمال کی
گئی ۔ کچھ کو فرائض قرار دیا گیا، کچھ کوواجبات، کچھ کو سنت کچھ کو مستحب
اور مباح کے درجوں رکھا گیا۔ بعض ناسمجھ سنت کا نام سنکر عمل میں مستعدی
نہیں دکھاتے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بعض کے نزدیک سنت کا مقام کوئی زیادہ
اہمیت کا حامل نہیں۔ حاشا و کلا میں کہتا ہوں حذر اے مسلمان۔ تجھے معلوم
نہیں کہ اسلام سارے کا سارا حبیب رب العالمین ﷺ کی سنت ہے۔ اوپر آیات الہی
سے یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی کہ اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہو، عمل ہو یا یا
آپ کسی کے کام پر نہی کا حکم نہ دیں یہی اسلام ہے، یہی نظام مصطفے ہے ، اسے
ہی شریعت کہتے ہیں۔ اس بارے میرے پاس لامحدود دلائل ہیں۔ قرآن کریم کو
الکتاب من اللہ ہم نے کیسے جانا ؟ نبی پاک ﷺ نے آیات پڑھ کر سنائیں ، آپ ﷺ
نے فرمایا کہ یہ قرآن ہے تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ قرآن ہے اوریہ اللہ کا کلا
م ہے۔جب توحید کی بات ہوئی توآپ ﷺ نے توحید الہی کے بارے بتایا اور ہم
ایمان لائے کہ اللہ ایک ہے۔قرآن کریم میں نماز کا حکم آیا، ارکان نماز کا
بھی ذکر آیا مگر نماز کے اوقات کی وضاحت، رکعتوں کی تعداد ، نما ز کے دیگر
قواعد و ضوابط کا ذکر صراحتا نہیں ملا۔یہ سبھی کچھ سنت سے معلوم ہوا۔ جیسا
کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صلواکما رائتمونی تم نماز ایسے پڑھو جیسے میں
پڑھتاہوں۔ وضو،غسل اور تیمم کے احکامات آئے مگر مکمل وضو سنت سے ثابت ہوا،
غسل اور تیمم کی تکمیل بھی سنت سے ہوئی۔ زکوة کا حکم ہے مگر اسکی ادائیگی
کے لیئے شرح زکوة، وجوب کی صورت، فصلوں ، مال مویشی اور مال تجارت میں سے
زکوة کی ادائیگی کا سارا نظام سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔گویا اسلام کا سارا نظام
زکوة آپ ﷺ کی سنت کے تابع ہے۔ اسی طرح حج اور عمرہ کی ادائیگی کا تمام
طریقہ سوائے چند بنیادی احکامات کے سبھی تو سنت رسول اللہ ﷺ ہے۔ پھر ہم
دیکھتے ہیں کہ روزہ کا نظام ،نماز تراویح اور راتوں کوعبادت الہی کے روح
پرور مناظر سبھی سنت رسول اللہ ﷺ ہیں۔
یہ سب کچھ تحریر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے اپنے پیارے آقا
ﷺ کے کامل و اکمل نظام سے روگردانی کررکھی ہے۔جشن ولادت منانے کے روح افزا
مناظر و مواقع دیکھیں تو لگتا ہے کہ محبوب پاک ﷺ کے سچے غلام یہی بانیاں
محافل ہیں۔ مگر دیکھتے ہیں کہ آج دنیا میں ایک ارب سے زائد مسلمان ہیں
مگریہودونصاری اور ہنود انپر مسلط ہیں۔بقول حضرت محمد اقبال رحمة اللہ علیہ
ہزاروں لالہ وگل ہیں ریاض ہستی میں ۔ وفا کی ہو جس میں بو، وہ کلی نہیں
ملتی ۔ کسی مسلمان ملک میں سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق اسلامی نظام نافذ نہیں۔
مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں تارک و مخالف سنت رسول اللہ ﷺ ہیں۔سنت
رسول ﷺ میں کیا خزانے پوشیدہ ہیں؟ دنیا اور آخرت کی کامیابیاں اور اللہ
تعالی کی ساری نعمتوں کے خزانے اسکے نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل میں پوشیدہ ہیں۔
لشکر اسلام ایران کی سرحدوں پر تین ماہ سے پڑاﺅ ڈالے ہوا ہے۔ امیرالمﺅمنین
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سالار لشکر کو تحریر فرماتے ہیں کہ تین ماہ
ہوگئے جنگ کاکوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔لگتا ہے تم لوگوں نے رسول
پاک ﷺ کی کسی سنت کو ترک کر رکھا ہے۔غور کرنے پر معلوم ہوا کہ جنگی حالات
کی وجہ سے مسواک کرنے پر عمل نہیں ہورہا۔ تمام عسکری مسواک کرنے میں مشغول
ہوئے اور ایرانی لشکر عمل مسواک کو دانت تیز کرنے کے مترادف سمجھا کہ
مسلمان دانت ہمارے لیئے تیز کررہے ہیں اور وہ خوفزدہ ہوکربھاگ کھڑے ہوئے۔
اس وقت پوری دنیا کے مسلمان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنے نبی ﷺ کی
سنتوں کوترک کرچکے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں ۔قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس
نہیں ۔ کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں۔
آزاد مملکت ، اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت نہ انفرادی طور پر
مسلمان مسلمان بنے اور نہ اجتماعی طورپر۔ مسلمانوں کی موجودہ کیفیت تو یوں
ہے ۔ بقول حضرت اقبال ۔ ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خوگر ہیں ۔ امتی
باعث رسوائی پیغمبر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر فرنگی کی
پیروی کون کررہا ہے، اپنے روز مرہ کے معمولات میں ، کھانے پینے ، اٹھنے
بیٹھنے، سونے جاگنے،لباس،وضع قطع، حصول علم، تلاش معاش، عدل وانصاف، معیشت
، نظام حکومت ، معاشرتی اقدار میں فرنگی کی خوشنودی کو ترجیح دی جاتی ہے۔
علامہ نے فرمایا وضع میں تم ہو نصاری، تو تمدن میں ہنود ۔ یہ مسلماں ہیں!
جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود!
جشن ولادت باسعادت کے مبارک موقع پر عہد کرلو کہ ہم اب مسلمان بنیں گے اور
صرف مسلمان ۔ ہم اپنے نبی ﷺ کے ساتھ وفادری کریں گئے۔ ہم انکی سنتوں پر عمل
کریں گے:
۱۔ پانچوں وقت نماز پابندی سے ادا کریں گے۔ہروضو سے قبل مسواک کریں گے اور
ٹوتھ برش وٹوتھ پیست خلاف سنت ہے اسے ترک کریں گے۔ ۲۔ حلال کمائیں گے، حلال
کھائیں گے، رشوت لینا حرام ہے ہمارے آقا ﷺ نے فرمایا الراشی والمرتشی
کلاھما فی النار۔ ہمیں جنت میں جانا ہے۔ رشوت دے کر اور لے کر ہم جہنم میں
اپنا دائمی ٹھکانہ نہیں بنائیں گے۔ ۳۔ ہم اپنی عورتوں کو پردہ کرائیں گے۔
بغیر برقعہ ، نقاب کے اب ہماری بیویاں، بیٹیاں بہنیں آرائش کرکے کے بازاروں
میں نہیں گھومیں گی۔ ۴۔ اب ہم خود اور ہمارے گھر والے مغرب کی طرف سے لائے
گئے لباس کے نئے نئے فیشنوں سے نفرت کرتے ہیں اور وہ لباس پہنیں گے جو شرم
و حیا والاہوگا۔ ۵۔ ہم اپنے نبی ﷺ کی محبت میں داڑھیا ںرکھیں گے۔سروں پر
انگریزی اور ہندو کی بودی نہیں رکھیں گے۔۶۔ ٹائی صلیب کا نشان ہے جو
عیسائیوں کے لیئے متبرک ہے ہم اسے اپنے گلے میں ڈالنے سے نفرت کریں گے اور
آئندہ ہم ٹائی نہیں باندھیں گے کیونکہ اس سے عیسائیوں کے ساتھ ہماری مشابہت
ہوتی ہے۔ ۷۔ اب ہم کھانا اپنے پیارے آقا ﷺ کی سنت کے مطابق کھائیں گے۔ بیٹھ
کر، ملکر، دائیں ہاتھ سے تسمیہ پڑھ کر کھائیں گے۔ کھانے کے بعد دعا مانگیں
گے۔ چھری کانٹے اور چمچ سے ہرگز نہ کھائیں گے کیونکہ انکا استعمال سنت کی
مخالفت ہے۔ سنت رسول کی مخالفت کرکے ہم جہنمی نہیں ہوناچاہتے ۔ آج کل
دعوتوں میں کھڑے ہوکر کھانے کارواج پڑگیا ہے ہم خود بیٹھ کر کھانے کی
دعوتوں کا اہتمام کریں گے اور کسی دعوت میں کھڑے ہوکر کھانا نہ کھائیں گے۔
کیونکہ سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں کھانے سے عبادت کا مزہ اور روح کی
تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ ۸۔ اب ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اور ہماری خواتین ایسا
لباس نہیں پہنیں گے کہ جس جسم کے خدو خال نمایاں ہوں، مثلا جینز اور خواتین
کا نیم عریان لباس۔ ۹۔ بے حیائی پھیلانے والی موسیقی حرام ہے ہم اور ہمارے
گھر والے اب حرام کی بجائے حلال اور روحانی موسیقی سنیں گے۔ 10۔ ہم برائی
کے خلاف آواز اٹھائیں گے اورلادینیت کی ہر طرح مخالفت کریں گے۔ نیکی کی
تبلیغ کرنے والوں کا ساتھ دیں گے۔۱۱۔ اب ہر روزبلاناغہ ہمارے گھروں سے قرآن
پاک کی تلاوت کی آوازیں سنی جاسکیں گی۔ 12۔قرآن اور سنت کی تعلیم خود اور
اپنے گھر والوں کو دیں گے۔ 13۔ ہمارے ملک میں مغربی جمہوری کافرانہ نظام
حکومت نافذ ہے اسے دفع کرکے قرآن و سنت کا نظام نافذ کریں گے۔ ۴۱۔ آج ہم
عہد کرتے ہیں کہ حکومت سازی کے لیئے انتخابات میں لٹیروں، دین سے نابلد،
سنت رسول کے مخالف چلنے والوں کو ہرگز ووٹ نہ دیں گے۔ کیونکہ ہم اپنے پیارے
رسول ﷺ سے بے وفائی نہیں کرسکتے۔ اگر انکے دیئے ہوئے نظام کے مدمقابل کسی
اور نظام کو تقویت دیں گے تو ہمارے پیارے نبی ﷺ ہم سے ناراض ہوجائیں گے اگر
وہ ناراض ہوئے تو اللہ ناراض ہوجائے گا ۔ پھر تو ہم کہں کے نہ رہے۔ ہمارے
یہ سردار ، بڑے اور حکمران قیامت کے دن خود قہر الہی کا شکار ہونگے ہمارے
کیا مدد کریں گے۔ اس وقت مدد کرنے والے تمام جہانوں کے سردار و مختار
سیدالعالمین ﷺ مقام محمود پر ہونگے اور اس روز صرف انہیں کی بات رب مانے گا۔
ہم کسی خبیث نافرمان کی پیروی کرکے اپنی عاقبت ہرگز برباد نہ کریں گے۔۵۱۔
ہم تو اپنے پیارے آقا ﷺ کے سچے غلاموں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانا چاہتے
ہیں۔ جبھی تو ہم جھنڈے جھنڈیاں لگا رہے ہیں ، نقش نعلین حضور ﷺ کے پرچم
لہرا رہے ہیں، اللہ کی رضا کے حصول کے لیئے ہم اس ذات والا کی نعتیں پڑھ
رہے ہیں کہ جن کی نعتیں خود خالق کائنات بیان فرما تا ہے ۔
میرے پیارے عاشقان رسول و غلامان رسول آج کے جشن ولادت صاحبِ قرآن و سنت
ہادی اعظم، مالکِ کوثر و سلسبیل، شافع یوم الحزن، صاحبِ نیابت و خلافت
الہیہ ، سیاح لامکاں رحمة للعلمین ﷺ کے ساتھ اوپر دیئے گئے اصولوں پرآج 12
ربیع النو ر کی نسبت سے پختہ عہد کے ساتھ عمل شروع کردیں ۔ اس دنیائے
ناپائدار سے کس وقت واپسی کا پروانہ لیکر حضرت عزرائیل علیہ السلام آجائیں۔
ہم بے خبری میں مارے نہ جائیں۔ جو اب تک خلاف سنت کیا اس پر سچے دل سے توبہ
کریں اللہ کریم معاف فرمائے گا اور آئندہ کے لیئے ان نکات پر عمل کریں۔
اللہ ورسول ﷺ آپکے حامی و ناصر ہوں۔آمین ثم آمین۔
دعاﺅں کا طالب خادم اسلام : پروفیسر اکبر حسین ھاشمی |