بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
از: ڈاکٹر اقبال احمد اختر القادری‘کراچی
ہاں ‘ہاں تاجدار دوعالم ﷺ پر درودوسلام بھیجئے اور خوب بھیجئے ....اپنے دل
ودماغ کو معطر کیجیے ....مگر جس محبوب کریم ﷺ کا آپ نام نامی جپ رہے ہیں ،
اس کی سُنّت پر بھی عمل کیجیے ....اس کی سنت کو سینے سے لگا کر رکھیئے ....یہ
نہ ہو کہ زبان پر تو ان کا نام ہو اور قول وعمل سنت سے عاری ....اگر ایسا
ہوا توقیامت کے دن کیا منہ دکھا ئیں گے! ....جب یہ پو چھا جائے گا کہ
تو ہمارے حبیب (ﷺ) کا نام لیتا تھا مگرجو جی میں آتاتھا کرتا تھا، جو من
میں آتا تھا کہتا تھا ....تونے اپنی شکل وصورت اور زبان ودل کو ہمارے
محبوب (ﷺ )کے رنگ میں کیوں نہ رنگا ؟
تونے ہما رے محبوب (ﷺ) کے اسوہ حسنہ کی پیر وی کیوں نہ کی ؟
تجھے دیکھ کر‘ دیکھنے والوں کو ہما رے محبوب (ﷺ) کی یا دنہ آتی تھی ؟
افسوس‘ ہم کیا جواب دیں گے! ....سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجد دیہ کے قافلہ
سالا ر حضرت شیخ احمد سر ہند ی مجددالف ثانی رحمة اللہ علیہ نے سوتے ہوو ¿ں
کو جگا یا ہے ‘ان کو سنت کی بہاریں دکھا ئی ہیں ‘آپ کو اسلام کا سارا حسن
وجمال سنت ہی میں نظر آتا ہے ....حضرت شیخ عبد الحق محد ث دہلو ی رحمة اللہ
علیہ نے کیا خوب بات فرمائی ، فرمایا :
” ہر فرض پہلے سنت ہے کہ حضور انور ﷺ نے کر کے دکھا یا اور پھر فرض ہے کہ
کرنے کا حکم دیا “
سبحان اللہ سنت کی عظمت وشوکت اور حسن وجمال دیکھنا ہوتو اہل اللہ کی نظر
سے دیکھئے ....ہم نے سنت کو بہت معمولی سمجھا ہے ، یہ ہماری نظر کی کوتاہی
اور ہما رے دل کی سیاہی ہے ....ملت اسلامیہ کے درمیان افتر اق کی بڑی وجہ
سنت سے روگردانی ہے ....مباحا ت اور مستحبا ت ہر گزسنت سے بہتر نہیں(ہو
سکتے) ، سنت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ نا چا ہیے ....
سر کا ردوعالم ﷺ کی شان یہ ہے کہ اگر نماز میں بھی بلا ئیں توجانا ہی
جاناہے ....آپ کی بات سننی ہے ....آپ کا کام کرنا ہے ....یہ بات سننے والا
، یہ کام کرنے والا نماز ہی میں ہے ....جس کی شان یہ ہواس کی بات نہ سننا
اور اس کے عمل کو تر ک کرکے نئے نئے اعمال تراشنا کہاں تک درست ہوسکتا ہے
؟....یہ سوچنے کی بات ہے! ....سنت میں بلندیاں ہی بلند یاں ہیں....حضرت مجد
دالف ثانی علیہ الرحمة کے نز دیک سنت ہی شریعت ، طریقت اور حقیقت کی جامع
ہے ....آپ اس بات کو ایک آسان سی مثال دے کر واضح فرماتے ہیں ....آپ فرماتے
ہیں :
” زبان سے جھوٹ نہ بو لنا شریعت ہے اور دل سے جھوٹ کا انکا ر کرنا ، طریقت
وحقیقت ....اگر یہ انکا ر بہ تکلف ہے تو طریقت ہے اور اگر بغیر تکلف کے ہے
تو حقیقت ہے “....
یعنی جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر نہ بولنا ، شریعت ہے ....اگر یہ جھوٹ کو جھوٹ
جاننا شعوری ہے تو طریقت ہے اور جھوٹ کو جھوٹ سمجھنا اس کی طبیعت ثانیہ بن
گئی ہے تو حقیقت ہے یعنی وہ سنت کے سانچے میں ڈھل گیا ہے کہ وہ بغیر کسی
تکلف کے جھوٹ نہیں بولتا ....یوں سمجھئے کہ شر یعت کا تعلق زبان سے ہے ‘ طر
یقت کا تعلق دما غ سے اور حقیقت کا تعلق دل سے ....(انسان)کامل جب ہی ہوتا
ہے جب زبان ، دماغ کی ساتھی ہو اور دماغ ، دل کا ساتھی ....
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں بر یلوی رحمة اللہ علیہ کی زند گی کا بھی یہی
مشن تھا ، احیا ئے سنت کے لیے انہوں نے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دی
....سنت کے چراغ جلا کر دلوں کو منورکردیا ، فضاؤں کو روشن کر دیا ....بیشک
اتباع ِسنت میں عظمتیں ہیں، شو کتیں ہیں ....محبو بیت ومقبولیت ہے ....وہ
خود فرمارہا ہے :
قُل اِن کُنتُم تُحِبُّو نَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُونِی یُحبِبکُمُ اللّٰہ
” آپ کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیر وی کر واللہ تم کو
اپنا محبوب بنا لے گا “
اللہ اکبر! آپ کی اطا عت وفر ماں بر داری ، اللہ کا محبوب بنا رہی ہے‘ وہ
اگر چاہیں تو پھر کیا چا ہیے ؟ہاں محبوب رب العالمین ﷺ کے نقش قد م پر چلنے
والا ، اللہ کے قریب ہوتا چلا جاتاہے ....محبوبوں کے نقش قد م کی شان توملا
حظہ فرمائیں ....یہ نقش قد م بیت اللہ کی زینت بنایا گیا اور حکم دیاگیا :
وَا تَّخِذُوامَقَامِ اِ برٰ ھِیمَ مُصَلَّی
”اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ“
یہی نہیں ، اس نشان کو اپنی نشانی بنایا:
(ترجمہ آیت قرآنی)”اس میں کھلی نشانیاں ہیں، ابر اہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ
“
ہاں یہ امینِ نو رِ مصطفی ﷺ کا نشانِ قدم ہے ....تو پھر ان کے نشانِ قدم
کاکیا عالم ہوگا ! ....اسی لیے فرمایا ،ہما رے محبو ب کے پیچھے پیچھے چلو
....جس نے ان کی اطا عت کی اس نے ہما ری اطا عت کی :
مَن یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَد اَطَا عَ اللّٰہَ
”جس نے رسول کا حکم مانابے شک اس نے اللہ کا حکم مانا “
اللہ اللہ ! ان کا نقش قدم !
کھا ئی قرآں نے خاکِ گز ر کی قسم اُس کفِ پاکی حرمت پہ لاکھو ں سلام
اے اللہ!
ہم کو اس کف ِپاکی حر مت پر مر مٹنے کی تو فیق عطا فرما....
جب تک زند ہ رہیں ‘ اُسی کے ہو کر زند ہ رہیں ....
جب دنیا سے جائیں ، در ودوسلا م پڑھتے ہوئے جائیں ....
جب محشر میں اُٹھیں ، در ود وسلام پڑھتے ہو ئے اُٹھیں .... آمین ثم آمین !
....ہاں
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں‘ ”ہاںرضا!“
”مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام!“ |