گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حصہ آخر) ۔
قارئین کرام پم اپنی اس بحث کو اختتام کی طرف لاتے ہوئے یہاں پر دوبارہ
موصوف کی توجہ حاصل کرکے کچھ پوچھنا چاہیں گے۔ کہ آغاز اسلام میں یہ دستور
تھا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کی امامت کرارہے ہوتے اور
دوران نماز کوئی آجاتا تو وہ دوسرے صحابی سے پوچھ کر کہ کتنی رکعتیں ہوچکی
ہیں اُنتی رکعتیں پہلے پڑھ کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ
جماعت میں مل جاتا۔ ایک دن حضرت معاذ رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے “میں
تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (دوران نماز) جس حال میں پاؤں گا اسی
میں شامل ہوجاوں گا اور جو نماز چھوٹ گئی اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کر لوں گا۔ (المسند احمد بن حنبل ٢٤٦ : ٠٥ رقم
٢٢٤٧٥) ------------ چناچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے ایسا ہی
کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی باقی
رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
انہیں دیکھ کر فرمایا “انہ قد سن لکم معاذ فھکذا فاصنعو“ اس کا مفہوم کچھ
یوں بنا کہ “معاذ رضی اللہ عنہ نے تمھارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم
بھی اب یونہی کیا کرو۔“
اب اس واقعے کی روشنی میں یہاں پر ہم موصوف سے کچھ وضاحت چاہیں گے کہ
مذکورہ بالا واقعہ میں وہ لفظ “سن“ کو کس معنی میں استعمال کرنا پسند کریں
گے۔ کیا اس واقعے میں لوگ اس مخصوص “سنت“ سے غافل تھے یا ترک کرچکے تھے۔
چونکہ صحابی کا عمل “بدعت“ تو ہو نہیں سکتا اور ویسے بھی آپ کے نزدیک “ہر
بدعت گمراہی ہے“ جبکہ نہ ہی آپ اسے “سنت سیئتہ“ کہنے کی جرات کریں گے لہذا
“سنت حسنتہ“ کا قول ضرور فرمائیں گے۔ لہذا سنت حسنتہ ثابت کرنے کے لئے حضرت
معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے اس مخصوص “نئے عمل“ کو آپ اپنی پیش کردہ
تشریح “چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت حسنہ سے مراد کسی سنت پر عمل کرنا ہے،
خصوصاً اس وقت جب لوگ اس سے غافل ہوں یا اسے ترک کرچکے ہوں۔“ کو سامنے
رکھتے ہوئے دلائل سے ثابت کیجئے۔
باقی موصوف کا یہ فرمان کہ “بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “ ظاہر کرتا ہے کہ جناب کی طبعیت ان تمام صالحین کی جماعت
سے بیزار ہے جنہوں نے بدعت کو حسنتہ و سیئتہ کی تقسیم سے پرکھا ہے۔ لہذا
ہمیں بہتر محسوس ہوا کہ ان میں سے چند صلحاء امت اور موصوف کے ہم عقیدہ
افراد کے اسماء بھی سامنے رکھے جائیں اور اِن صلحاء یا اِن جیسے وہ تمام
صلحاء کہ جن کہ نام ہم یہاں پیش نہیں کرسکیں گے مگر انھوں نے بدعت کی اقسام
میں حسنتہ و سیئتہ کی تقسیم فرمائی، کے متعلق جناب کا واضح عقیدہ جان سکیں۔
١- امام محمد بن ادریس بن عباس الشافعی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
٢- امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد القربی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
٣- امام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
٤- اما ابو حامد محمد بن محمد الغزالی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
٥- امام مبارک بن محمد ابن اثیر الجزری رحمتہ اللہ تعالی عنہ
٦- امام ابو زکریا محی الدین بن شرف النووی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
٧- امام شہاب الدین احمد القرافی المالکی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
٨- شیخ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ
٩- شیخ حافظ عماد الدین ابوالفدا اسماعیل ابن کثیر
١٠- امام عبدالرحمن بن شہاب الدین ابن رجب الحنبلی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
١١- امام ابوالفضل احمد بن علی بن محمد ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ تعالی
عنہ
١٢- امام ابو محمد بدرالدین محمود العینی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
١٣- امام محمد بن عبد الرحمن شمس الدین محمود السخاوی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
١٤- امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابو ابکر السیوطی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
١٥- امام ابو العباس احمد بن محمد شہاب الدین القسطلانی رحمتہ اللہ تعالی
عنہ
١٦- امام احمد شہاب الدین ابن الحجر المکی الہیتنی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
١٧- امام ملا علی بن سلطان محمد القاری رحمتہ اللہ تعالی عنہ
١٨- شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ تعالی عنہ
١٩- شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی
٢٠- نواب صدیق حسن خان بوپالی
٢١- مولوی وحید الزمان
٢٢- شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز
٢٣- شیخ محمد بن علوی المالکی المکی وغیرہ وغیرہ
جیسے جیسے ہم موصوف کے مضمون پر تنقیدی نگاہ ڈالتے جا رہے تھے ہمیں جناب کا
“خود ساختہ اجتہادی“ طریقہء واردات نظر آتا رہا۔ لہذا ترمذی شریف کی ایک
حدیث کا بیان فرماکر لکھتے ہیں “مذکورہ حدیث سے استدلال اسلیئے درست نہیں
کیونکہ وہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف
المزنی ہے جو متروک ومجروح ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔“ یعنی
جناب کی زبان سے نکلنے والا لفظ حرف آخر اور اسی حدیث کے تحت بدعت کو حسنتہ
و سیئتہ کی تقسیم دینے والے علمائے کرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!! یہاں
بھی موصوف سے دلائل کے ساتھ وضاحت طلب ہے۔
موصوف کے مضمون کو مزید پڑھتے ہوئے کبھی ہمارے ذہن میں سوال آتا کہ کیا
صحابہ علیھم الرضوان کا کسی مماملے پر اجماع ہمارے لئے حجت نہیں ؟؟؟؟؟ اور
کبھی یہ سوال آتا کہ کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی
بیان کردہ حدیث پاک “جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا
ہے“ معاذاللہ ثم معاذاللہ دین میں کسی بری بات کا "چور دروازہ" ہے ؟؟؟ یعنی
صلحاء امت جس بات پر متفق ہوں وہ تو موصوف کو تسلیم نہیں بلکہ اپنے فہم میں
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریح میں لفظ “چور دروازہ“ کی
اصطلاح استعمال کریں۔ کیا ہم یہ پوچھنے کی جناب سے جسارت کرسکتے ہیں کہ
اپنے باطل نظرئیے کو صلحائے امت کے اقوال سے ثابت کریں۔ ؟؟؟ اور کیا صلحاء
کی جماعت نے اس حدیث پاک کے بیان میں لفظ چور دروازہ ، دو احادیث کا ٹکراو
یا قول نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قول صحابی رضی اللہ تعالی عنہ سے
ٹکراو قرار دیا۔ نوازش ہوگی اگر جناب کا قلم خود ساختہ “لفاظی“ کے بجائے
صلحائے امت کے اقوال پیش کردے۔
ایک اور جگہ جناب کا قلم جنبش میں اتا ہے اور کچھ یوں فرمان جاری ہوتا ہے
کہ
"معلوم ہونا چاہئے کہ وہ چیز بدعت نہیں ہے جس کے اللہ (عزوجل) اور اس کے
رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہونے کے بارے میں شرعی دلیل
موجود ہو۔"
اسی طرح اپنے مضمون کے آخر میں جناب یہ لکھتے ہوئے پائے گئے کہ
“بہر حال سلف کے وہ اعمال جن سے بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا گیا ہے،
یا تو وہ سنت کے وسیع مفہوم میں شامل اور داخل ہیں، یا تو کسی شرعی کام کی
انجام دہی کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں لہذا بدعت نہیں ہیں۔ یہاں پریہ بات ذہن
نشین رہے کہ یہ اختلاف لفظی ہے، ورنہ تمام معتبر اہل علم اس بات پر متفق
ہیں کہ تمام بدعات مذمومہ ضلالت ہیں جن کا خلاصہ بیان ہوچکا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی لفاظی کا ایسا جال کہ اللہ عزوجل کی پناہ !!!۔ بہرحال ہم یہاں موصوف
سے پھر کچھ سوالات پوچھنا چاہیں گے کہ جناب “سنت کا وسیع مفہوم“ سلف کے
اقوال کی روشنی میں بیان فرمادیں کہ جس میں “بدعت حسنہ“ کو “سنت حسنہ“ ثابت
کیا جائے اور وہ بھی لغوی اعتبار سے۔ دوسرے ان تمام "معتبر" اہل علم کا بھی
بیان فرمادیں جنہوں نے بدعت کو صرف ضلالت ہی تسلیم کیا ہو اور وہ قطعی طور
پر اسے حسنتہ تسلیم کرنے سے انکاری ہوں۔ امید ہے کہ جواب دیا جائے گا۔
حرف آخر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں لفظ شرک کی طرح بدعت کو بھی ظلم کی حد تک غلط طریقے سے استعمال
کیا جاتا ہے۔ اور اس لفظ کی منفی تعبیرات و تشریحات سے افرادِ امت کو ذہنی
اِفتراق و انتشار میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ احادیث رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اور آثار صحابہ علیھم الرضوان کے بغور مطالعے سے یہ حقیقت
واضح ہوجاتی ہے کہ لفظاٰ اِن اصطلاحات میں مطلقاٰ کوئی خرابی نہیں۔
دور صحابہ علیھم الرضوان کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ ادراک صاحل ہوتا ہے
کہ محاورہ عرب میں ان الفاظ کا مثبت استعمال بھی عام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ
صحابہ علیھم الرضوان نے بیشتر مقامات پر “بدعت“ لفظ“ کو مثبت معنی کے طور
بھی استعمال کیا۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ “بدعت“ ایسے کام کو کہا جاتا
تھا جو اصلاٰ “جائز“ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ امام بخاری علیہ الرحمہ
روایت کرتے ہیں کہ مجاھد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں “میں اور عروہبن
زبیر مسجد میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما
، حجرہ عاشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ مسجد
میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے (ابن عمررضی اللہ عنہ سے) اُن لوگوں
کی نماز کے متعلق پوچھا تو فرمایا “بدعت“ ہے۔ پھر اُن سے گزارش کی کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتنے عمرے کئے ؟ فرمایا چار۔“ (بخاری کتاب
العمرتہ ١٦٨٥ ، مسلم ١٢٥٥ ، ابن حبان ٣٩٤٥ ، المسند احمد بن حنبل ٦١٢٦ ،
ابن ابی شیبہ ٦١٦ ، فتح الباری ١١٢١)۔
اس روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے اسلوبِ بیان سے
واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک لفظ “بدعت“ کا استعمال اُس قبیح اور خراب معنی
میں نہیں ہوتا تھا جتنا کہ موصوف یا ان کے ہم عقیدہ افراد رٹ لگائے پھرتے
ہیں۔ اسی لئے جب آپ سے اس طرح مسجد میں نماز چاشت پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا
تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بغیر کسی تاٰمل کے بے ساختہ فرمایا “بدعتہ“
یعنی یہ بدعت (نیا طریقہ) ہے۔
قارئینِ کرام ! مقام غور ہے کہ اگر “کل بدعتہ ضلالتہ“ یعنی پر بدعت علی
الاطلاق ضلالت ہوتی تو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اس طریقے سے اجتماعی
نماز چاشت کی ادائیگی کو بند کروا کر فوراٰ انہیں مسجد سے نکلوادیتے اور
فرماتے کہ تم گمراہی کا کام کررہے ہو۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما
جیسے عظیم صحابی سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ان کے سامنے کسی خلاف شریعت
امر کا ارتکاب ہورہا ہو اور وہ خاموش رہیں۔ دوسری اہم بات کہ حضرت مجاھد و
عروہ بن زبیر رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی “لفظ“ بدعت سن کر پریشان نہیں
ہوئے بلکہ خاموش رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جماعت صحابہ علیھم الرضوان کے
نزدیک محض کسی طریقے کا بدعت یعنی “نیا ہونا“ اس کے مردود و ناجائز ہونے کو
مستلزم نہیں۔ مزید یہ کہ اس واقعہ میں بدعتہ کے ساتھ لفظ “نعم“ بھی نہیں
آیا لہذا یہیں سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان کسی بھی نئے کام
کے لئے بلا تکلف لفظ “بدعت“ استعمال کر لیتے تھے۔ اور اس بات پر نہ تو وہ
جھگڑتے تھے اور نہ ہی کفر و ضلالت کے فتوی صادر فرمانا ان کا معمول تھا۔ اس
کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کے ہاں لفظ بدعت ان معنی میں استعمال ہی نہیں ہوتا
تھا جن معنی میں آجکل کچھ متشدد اشخاص استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر ایسی
بات ہوتی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول پر کہ یہ “بدعت“ ہے ، دوسرے صحابہ
کرام علیھم الرضوان نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی “کل بدعتہ ضلالتہ“
والی حدیث پیش کرتے کیونکہ بقول موصوف کہ “حدیث بلکل عام فہم ہے“ لہذا
ماننا پڑے گا کہ شریعت کے فہم کی حقیقی معرفت صحابہ علیھم الرضوان کے پاس
ہے چہ جائیکہ کوئی آج ہماری ویب پر اپنے فہم و فلسفے کو جماعتِ صحابہ علیھم
الرضوان اور جماعتِ صلحائے امت سے برتر منوانے کی ناکام کوشش کرے۔
کاش لوگ نفس کی غلامی سے آزاد ہوکر ، حقیقی علم اور اہل علم و معرفت کی
صحبت سے فیوض و برکات حاصل کریں اور "خود ساختہ اجتہاد" سے بچ کر اُمت کو
انتشار سے محفوظ رکھیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیارے حبیب لبیب
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے و طفیل ہم سب کو ھدایت پر قائم رکھے اور
فتنہ پروروں اور ناعاقبت اندیشوں کی صحبت سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین یا رب
العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
حصہ اول کا لنک یہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=28783 |