دو دن قبل اخبارات میں یہ رُوح
فرسا خبر شائع ہوئی کہ بھارتی ریاست راجستھان کے شہر اجمیر میں خواجہ معین
الدین چشتی رحمت اللہ علیہ کے مزار پر نصب بڑی دیگ میں گر کر جنوبی ریاست
کیرالا سے تعلق رکھنے والی ماں بیٹی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں! اس واقعے نے
ہمیں 1980 کے زمانے میں پہنچا دیا۔
اپریل 1980 میں ہم رشتہ داروں سے ملنے احمد آباد گئے تو بڑے ماموں فرید
میاں شیخ نے اجمیر کے عرس میں جانے کا پروگرام بنایا اور ہمیں بھی لے گئے۔
کراچی میں لوگوں کو ویگن اور کوچ کی چھت پر سفر کرتے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے
کہ یہ لوگ اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالتے ہیں، مگر اِسے کیا کہیے کہ ہم نے
احمد آباد سے اجمیر تک کا سفر ٹرین کی چھت پر کیا تھا۔ انجن ڈرائیور کو
اچھی طرح اندازہ تھا کہ کہاں کہاں اوور ہیڈ برج آتے ہیں۔ جب بھی کوئی برج
آنے والا ہوتا وہ ٹرین کی رفتار کم کرتا تاکہ لوگ بوگی کی چھت پر لیٹ جائیں
یا دو بوگیوں کے درمیان جاکر لٹک جائیں! اجمیر میں ہم نے دونوں دیگیں
دیکھیں اور حیران رہ گئے۔ بڑی دیگ گویا چھوٹا موٹا کمرا تھی! عرس کا زمانہ
تھا اس لیے دیگ چڑھی ہوئی تھی یعنی لنگر پک رہا تھا۔ ہم نے لنگر لُٹنے کا
منظر بھی دیکھا اور خوب محظوظ ہوئے۔ یہ لنگر چونکہ فروخت ہوتا ہے اِس لیے
لوٹنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ہمیں والد محترم عبدالشکور خان مرحوم نے
یہ بتاکر زیادہ محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا کہ ایک بار اُن کے والد یعنی
ہمارے دادا نُور محمد مرحوم لنگر لُوٹنے کی رسم میں شریک ہوئے تھے! اجمیر
سے ہمارا آبائی تعلق یوں ہے کہ دادا نے خاصا طویل عرصہ وہاں گزارا۔ ہماری
پھوپھی، دونوں تایا اور والد وہیں پیدا ہوئے۔ دادی کے والد بابا اکرم شاہ
عرف اکو بابا مرکزی درگاہ سے متصل پھول گلی کی مسجد کے پیش امام تھے اور
امامت کے ساتھ ساتھ تعویذ گنڈے بھی کیا کرتے تھے۔ (مگر خدارا ہماری کالم
نگاری کو اکو بابا کے تعویذوں کی کرامات میں شمار نہ کیا جائے کہ یہ
”سعادت“ ہمارے اپنے ”زور قلم“ کا نتیجہ ہے! بعض بدخواہ شاید یہ سوچیں کہ
تعویذ کی ضرورت ہمارے قارئین کو پڑے! محترم سرور سُکھیرا نے لکھا ہے کہ آج
کل جس ٹائپ کے کالم شائع ہو رہے ہیں اُن پر قارئین کے لیے سر درد کی گولی
بھی چپکانی چاہیے۔ ہمارا خیال ہے کہ بعض کالموں کی مار سے بچنے کے لیے کسی
پہنچے ہوئے بزرگ کا تعویذ بھی قاری کے بازو پر بندھا ہوا ہونا چاہیے!)
خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ کا عرس اجمیر کے لوگوں کے لیے سال
بھر کی کمائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ عرس کے پندرہ بیس دنوں میں مکانات کے
کرایوں اور خرید و فروخت کی مد میں مقامی لوگ لاکھوں کمالیتے ہیں اور پھر
سال بھر اُنہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی! ہمارے ہاں بعض شخصیات بھی
اجمیر کی دیگ جیسی واقع ہوئی ہیں یعنی اِن کی زبان سے نکلنے والی باتیں لوگ
لے اُڑتے ہیں اور پھر کالموں میں ٹانک کر مال بناتے ہیں!
ویسے تو شخصیات بھی دیگ کا کردار ادا کر رہی ہیں مگر سیاست کے مزار پر نصب
بڑی دیگ کی بات کچھ اور ہے۔ بیانات اور ترکی بہ ترکی الزامات کے چولھے پر
حالات کی دیگ ایسی چڑھی ہے کہ اُس سے نکلنے والی ”خوشبو“ کی لپٹوں سے اہل
وطن کے دِل و دماغ معطّر کم اور ماؤف زیادہ ہوئے جاتے ہیں! نذرانے اور
چڑھاوے ہیں کہ کم ہونے میں نہیں آتے۔ اور بعض چڑھاوے تو انتہائی غیر متوقع
ہوتے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ چیف الیکشن کمشنر نے کئی دنوں کے صبر
آزما اور قدرے اعصاب شکن انتظار کے بعد کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق
کراچی میں گھر گھر جاکر ووٹرز کی تصدیق تو کی جاسکتی ہے، نئی حلقہ بندیاں
نہیں کی جاسکتیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ”فخرو بھائی“ بھی خیر سے ”حلقہ بگوش
تحفظات“ ہوگئے! اُن کے اِس بیان نے حالات کی دیگ میں پکنے والے سیاسی لنگر
کا مصالحہ کچھ تیز کردیا ہے۔ یہ بیان جن کی مرضی کا بیان ہے وہ تو بغلیں
بجائیں گے مگر مخالفین کی طرف سے چند تُند و تیز بیانات کا چڑھاوا غیر
متوقع نہیں!
چوہدری شجاعت نے دھرنے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے طاہرالقادری کو مبارک باد
دی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ متحدہ اور تحریک انصاف دھرنے کی بس میں
سوار نہ ہونے پر پچھتا رہی ہوں گی! چوہدری صاحب کی فراست بے مثال ہے۔ دو
اتحادی پچھتا رہے ہوں گے مگر خود چوہدری صاحب کی ق لیگ کو کوئی پچھتاوا
نہیں ہو رہا۔ کہیں اُنہوں نے مذاکرات میں شرکت کو بھی دھرنے میں شرکت سے تو
تعبیر نہیں کرلیا؟ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ طاہرالقادری کو سراہنے کے نام
پر چوہدری شجاعت شاید اُن سے تفریح لے رہے ہیں! شک کا پہلو اِس لیے نمایاں
ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ بہت آسانی سے قوم کی سمجھ میں آ رہا ہے!
سیاسی لنگر کی دیگ کا ذائقہ بڑھانے کے لیے چوہدری صاحب نے یہ بھی بتایا ہے
کہ اُن کے بھائی وجاہت حسین نے بھیس بدل کر دھرنے کا جائزہ لیا اور
شرکاءمیں بے مثال جذبہ دیکھا! اُن کے بقول وجاہت حسین نے رپورٹ دی کہ اگر
دھرنے کے شرکاءکو اسکردو بھی لے جایا جاتا تو اُن کا جذبہ سرد نہ پڑتا!
یعنی چوہدری شجاعت حسین کے لیے ”مٹی پاؤ“ کی طرز پر طاہرالقادری کے جاں
نثاروں نے یہ کہنے کی بھی گنجائش نہیں رہی تھی کہ ”چَھڈّو جی، برف پاؤ!“
دوسری طرف طاہرالقادری نے سیاسی لنگر کو مزید لذیذ بنانے کے لیے پریس
کانفرنسز کا تانتا ٹوٹنے نہیں دیا ہے۔ اِدھر ہم یومیہ کالم لکھ رہے ہیں اور
اُدھر وہ یومیہ پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم خود کو
ڈاکٹر طاہرالقادری کا ہم پَلّہ قرار دے رہے ہیں! ہم تو یہ بتانا چاہ رہے
ہیں کہ ہماری تو مجبوری ہے کہ روز کچھ نہ کچھ لکھنا ہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو
کیا ہوا ہے کہ کہنے کو کچھ نہ ہو تب بھی بولے ہی جا رہے ہیں؟ ویسے یہ بات
بھی ہم بس اُوپری من سے کہہ رہے ہیں ورنہ سچ تو یہ ہے کہ وہ لب کُشائی
فرماتے ہیں تو ہمارے ذہن میں کچھ ہلچل ہوتی ہے اور انگلیاں کی بورڈ پر
متحرک ہوتی ہیں! 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ”پیاسا“ کے آں جہانی سچن دیو
برمن نے ایک گانا کمپوز کیا تھا جس کے بول تھے۔۔ ”جانے کیا تونے کہی، جانے
کیا میں نے سُنی، بات کچھ بن ہی گئی!“ بس کچھ ایسا ہی معاملہ ڈاکٹر
طاہرالقادری اور اُن کے خوشہ چینوں کا ہے۔ وہ بلا ناغہ کچھ نہ کچھ فرماتے
ہیں اور اُن کی باتوں سے چند کام کے نکات چلتے ہوئے ہم تک پہنچ جاتے ہیں
اور پھر بات بن ہی جاتی ہے یعنی ہم کسی نہ کسی طرح کالم کی منزل تک پہنچ
جاتے ہیں! |