پرنالے وہیں بہتے رہیں گے

جس طرح بہت سے لوگ کھانے کی میز پر ہر سطح کے شرم و لحاظ سے پرہیز کرتے ہیں بالکل اُسی طرح ہم، من حیث القوم، تبدیل ہونے سے گریز کرتے ہیں! یہ گریز اِس قدر دیرپا ہے کہ تمام پرنالے وہیں بہتے رہتے ہیں جہاں زمانوں سے بہتے آئے ہیں۔ یہ بھی ایک اچھی روایت ہے کہ لوگوں کو حیرانی سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔

آج کل ”گلی گلی، تھاں تھاں“ انتخابات پر بحث کا بازار گرم ہے۔ ہر شخص اٹکل کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ حکومت نے اپنی پوری مدت کے دوران جو کچھ کیا ہے وہی کر رہی ہے یعنی کسی معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی!

وعدوں، دعووں، یقین دہانیوں، بیانات، الزامات اور جوابی الزامات کے پرنالے اپنے مقررہ مقامات ہی پر بہہ رہے ہیں۔ اس قدر ”قطعیت“ تو مغرب کے جدید ترین ہتھیاروں میں بھی نہیں پائی جاتی! ٹی وی کی آواز بند بھی کردیں تو کسی بھی حکومتی یا غیر حکومتی شخصیت کا صرف چہرہ دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیا بول رہی ہوگی! وہی گھسٹے پٹے جملے ہیں، وہی فرسودہ باتیں ہیں۔ یعنی ایک ہی منجن مستقل بنیاد پر بیچا جارہا ہے!

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض انتظامیہ نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ ایٹمی جنگ کے لیے تیار رہیں۔ ہدایت نامہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اِس خبر سے آزاد کشمیر میں تو کھلبلی مچ گئی ہوگی۔ آپ کی سادگی پر بھی قربان جائیے! آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب نے رسمی طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے مگر قانون ساز زیادہ متاثر دکھائی نہیں دیتے! بدھ کو آزاد کشمیر اسمبلی میں وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ دھینگا مُشتی، اور کیا؟ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ چوتھی عالمی جنگ دست بہ دست اور پتھروں سے ہوگی! ایٹمی جنگ سے متعلق بھارتی وارننگ پر آزاد کشمیر اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق اور حال ہی میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے محمد حسین سرگلہ کو شاید آئن اسٹائن یاد آگئے اور اُنہوں نے دست بہ دست لڑ کر دیکھ لیا! زبانی پتھراؤ¿ اِس پر مستزاد تھا! اُنہیں الگ کرنے پر ساتھیوں کو خاصی محنت کرنا پڑی!

یہ تو ہوا آزاد کشمیر کا پرنالہ۔ اب چلتے ہیں قومی اسمبلی کی طرف۔ بھارتی انتباہ کی باز گشت تو خیر سے سُنائی نہیں دی۔ ہاں، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے عوام کا دل بہلانے والی چند باتیں ضرور کہیں۔ ہنسی ضبط کرتے ہوئے کائرہ صاحب کا یہ جملہ پڑھیے کہ سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے سے گریز کرنا چاہیے! کائرہ صاحب ہی بتائیں کہ اب کیا قومی اسمبلی کے ارکان کارروائی کے دوران مُنہ میں گھنگھنیاں دے کر بیٹھے رہیں گے؟ اگر سیاست دان ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالیں گے تو کیا ہم اُن کے بے داغ، کلف لگے کاٹن سُوٹ کی فضیلت پر کالم لکھا کریں گے؟ وزیر موصوف نے یہ بھی کہا کہ حقائق مسخ نہ کئے جائیں۔ یہ گزارش اُنہوں نے کسی رکن کے اِس جملے پر کی کہ حکومت سو رہی ہے! بہت خوب۔ حقائق مسخ نہ کرنے کی گزارش کی جارہی ہے اور حقیقت کے بیان سے روکا بھی جارہا ہے! کائرہ صاحب نے ایوان میں یہ بھی کہا کہ اگر کسی نے ماضی میں وفاداری (پارٹی) تبدیل کی ہے تو اُس کا نام لیا جائے۔ ابھی تین دن قبل ہی تو پنجاب کے گورنر مخدوم سید احمد محمود نے گورنر شپ کے شُکرانے کے طور پر اپنے تین بیٹوں کی وفاداری پیپلز پارٹی کے حق میں تبدیل کروائی ہے! بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں مخدوم احمد محمود نے یہ بھی کہا کہ اُن کے بیٹوں نے مریم نواز، حمزہ شریف اور مونس الٰہی کے مقابل بلاول بھٹو زرداری کو بہترین آپشن کی حیثیت سے قبول کیا ہے! اِس بیان نے ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ملک میں کہیں بھی کوئی تبدیلی رُونما نہیں ہو رہی۔ حیرت و عبرت کا مقام ہے کہ جَدّی پُشتی مخدوم بھی اپنے لیے مخدوم کا انتخاب کر رہے ہیں! مزید تبدیلی یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سردار ذوالفقار کھوسہ کے صاحبزادے سیف الدین کھوسہ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ آپ شاید اِسے تبدیلی سمجھیں مگر قومی سیاست کا مزاج ذہن نشین رکھیے تو گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ تختہ وہی ہے اور تیزی سے گھوم بھی رہا ہے۔ تختے پر نصب گھوڑے بھی وہی ہیں۔ بس اِتنا ہے کہ لوگ گھوڑے بدل رہے ہیں! سیاسی وفاداری بدلنا اگر تبدیلی ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ تبدیلی کے معاملے میں کوئی ملک ہمارا ہمسر نہیں ہوسکتا!

بھارت کے وزیر داخلہ سُشیل کمار شِندے اور سیکریٹری داخلہ آر کے سنگھ نے انتہا پسند گروپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر دہشت گردی کے تربیتی کیمپ چلانے اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرکے ساری دنیا کو حیران کردیا ہے۔ حیرت اگر کسی کو نہیں ہوئی تو وہ بس ہم ہیں۔ بھارت کے مرکزی وزیر اور سیکریٹری داخلہ کے انکشافات پر ہمارے ہاں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں گرما گرم بحث ہونی چاہیے تھی۔ مگر شاید یہ معاملہ اِس قابل ہی نہیں کہ ہمارے قانون ساز متوجہ ہوں! فی الحال وہ ایک دوسرے کی ٹانگ گھسیٹ کر ”القانون فی السیاست“ کے تقاضے پورے کر رہے ہیں!

امریکی اخبار کرسچین سائنس مانیٹر نے (یقیناً ہمیں ہنسانے کی نیت سے) دعوٰی کیا ہے کہ پاکستان میں بڑی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ بیشتر معاملات میں ”نہیں“ پر زور دیتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ قیادت میں تبدیلی آئے گی مگر اِسے قبول نہ کرنا اور پرتشدد واقعات کا رونما ہونا خارج از امکان نہیں۔ فوجی بغاوت اور اسلامی شدت پسندوں کے اقتدار میں آنے کا بھی امکان نہیں۔ ”گلوبل سیکیورٹی فورکاسٹ“ کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں اخبار اِس نکتے پر زور دیتا ہے کہ پاکستان میں کسی سیاسی رہنما کو عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل نہیں! اِس آخری جملے کا کیا مطلب لیا جائے؟ امریکیوں کا ”نہیں“ اب تک ”ہاں“ ثابت ہوتا آیا ہے!

اور صاحب! جب تبدیلی لانے والے خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں تو قوم کیوں خود کو بدلے؟ وفاقی ادارہ ¿ شماریات نے جولائی سے دسمبر تک کے جائزے میں بتایا ہے کہ قوم نے چھ ماہ میں 64 ہزار ٹن سے زائد چائے پی۔ 33 ارب روپے موبائل فونز پر خرچ ہوئے۔ 97 ارب روپے کا پام آئل اور 10 ارب 65 کروڑ روپے کا سونا درآمد کیا گیا۔ رپورٹ میں درج ہے کہ گزرے ہوئے چھ ماہ میں پاکستانی خوب کھاتے پیتے اور موج اُڑاتے رہے۔ یہ جملے بازی قوم سے سراسر زیادتی ہے۔ حکومت کی پوری ٹیم قومی خزانے میں دانت گاڑے ہوئے ہے۔ مفاہمت کے نام پر اپوزیشن بھی سرکاری گھاٹ پر اشنان کر رہی ہے۔ اور طنز و تشنیع کے لیے قوم رہ گئی ہے! جب تمام پرنالے اپنے اپنے مقام پر کامیابی سے بہہ رہے ہیں تو قوم نے کیا بگاڑا ہے کہ اُس کے مزاج کی نہر رواں کو روکا اور ٹوکا جائے؟
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483480 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More