جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں

دُنیا کو تو بس کام کی پڑی ہے۔ جیسے اور کوئی کام ہی نہیں! کِسی بھی ملک میں، کِسی بھی خطے میں جا دیکھیے، لوگ کام کرتے ملیں گے۔ ہماری طرح آپ نے بھی سُنا ہی ہوگا کہ محنت میں عظمت ہے یعنی ہر وقت کام کرتے رہنا چاہیے۔ یہ بات ہمارے تو حلق سے کبھی نہیں اُتری۔ اُترے بھی کیسے؟ زندگی جیسی نعمت کیا صرف اِس لیے ملی ہے کہ کام، کام اور صرف کام میں انٹا غفیل کردی جائے، بے فضول(!) میں ضائع کردی جائے! کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کام کرتے کرتے زندگی بسر کرنا تو عالمگیر معمول ہے۔ اب اگر آپ خود کو ”غیر معمولی“ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو کام یعنی زمانے بھر کے ”معمول“ کو یکسر غیر تصور کرتے ہوئے ترک کردیجیے!

کیا آپ پسند کریں گے کہ دنیا آپ کو کسی نشے یا لَت کے حوالے سے پہچانے؟ کون چاہے گا کہ اُسے نشئی سمجھا جائے؟ یاد رکھیے، کام بھی ایک نشا ہے! جو لوگ کام کرتے رہتے ہیں وہ بالآخر کام کے ”دَھتّی“ یعنی عادی ہوکر رہ جاتے ہیں! ایسے لوگوں کو نفسیات کی زبان میں workaholic کہا جاتا ہے۔ دیکھیے، ہم نے آپ کو کتنے آسان الفاظ اور سادہ طریقے سے سمجھادیا کہ کام کرتے رہنا نفسیاتی عارضہ ہے! اب کیا آپ پسند کریں گے کہ کوئی آپ کو نشئی یا نفسیاتی مریض سمجھے؟ یقیناً نہیں۔

ہر مشترکہ گھرانے یعنی جوائنٹ فیملی میں چند ”بھولے بادشاہ“ اپنے جوائنٹس یعنی جوڑ جوڑ کو ہلا جلاکر گھر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِن احمقوں کے نصیب میں سُکھ نہیں ہوتا۔ اور جو گھر میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں وہ زندگی کو اُس کی پوری توانائی اور تابانی کے ساتھ انجوائے کر رہے ہوتے ہیں! عقل مند کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ زندگی جیسی نعمت کو کام دھندے میں ضائع کرنے کے بجائے اُس سے بھرپور لطف اُٹھانے کی کوشش میں جُتا رہتا ہے! مشترکہ گھرانوں میں چند افراد پیدا تو اللہ کے بندوں کی حیثیت سے ہوتے ہیں مگر رفتہ رفتہ ”کام کے بندے“ ہوکر رہ جاتے ہیں! مستقل کام کرتے رہنے سے یہ وہی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں جو ”کام والی“ کی ہوتی ہے! یہ کام والے ”اللہ لوگ“ دن رات کام کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ سارا رونق میلہ اُنہی کے دم سے ہے!
اِس سادگی پہ ”خود یہی مَر جائیں“ اے خُدا!

یہ ”کام کے بندے“ اگر کبھی سُکون سے ایک طرف بیٹھ کر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ گھر میں کچھ لوگ کام کرنے پر بالکل یقین نہیں رکھتے مگر اِس کے باوجود گزر بسر کے دریا کی روانی کم ہونے کا نام نہیں لیتی! کام کرنے والے ہی سوچتے رہتے ہیں کہ سب کچھ کیسے چلے گا یا اِسے کس طرح چلتا رکھا جائے! جو کام نہیں کرتے وہ کبھی اِن فضول باتوں کے بارے میں سوچنے پر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتے! جب کچھ لوگوں کے کام نہ کرنے سے بھی کام چلتا رہتا ہے تو کام کرنے والے یہ سوچ سوچ کر کیوں ہلکان ہوتے رہتے ہیں کہ وہ کام نہیں کریں گے تو کام نہیں چلے گا!

ذرا ماحول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ کچھ نہ کرکے کتنا کچھ کر جاتے ہیں! آپ کِسے مثال بنانا چاہیں گے؟ اگر بالی وڈ پر نظر ڈالیں تو سب سے بڑا نام یوسف صاحب یعنی دلیپ کمار کا ہے۔ یوسف صاحب نے 1943 میں فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ اِس شعبے میں اُنہیں 70 سال ہوچکے ہیں مگر اب تک صرف 53 فلموں میں کام کیا ہے۔ پھر بھی لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ خوب کام کیا ہے! سچ تو یہ ہے کہ یوسف صاحب نے اداکاری کے نام پر صرف ”اداکاری“ کی ہے! ہمارے سلطان راہی مرحوم نے 900 فلموں میں کام کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا مگر نتیجہ کیا نکلا؟ بس نام یاد رہ گیا ہے، کام وام کچھ یاد نہیں! سلطان راہی مرحوم نے اداکاری کو ایسی شدت سے اپنایا کہ شخصیت اور فن دونوں گِھس گئے! اُنہوں نے زندگی بھر اِس قدر اداکاری کی کہ آخر آخر میں تو کیمرے کے سامنے پیش کرنے کے لیے اُن کے پاس اداکاری بھی نہیں بچی تھی! ایسے میں اُنہوں نے یوسف صاحب والا نُسخہ آزمایا اور محض ”اداکاری“ کرتے رہے!

ایک فلموں پر کیا موقوف ہے، ہمارے ہاں تو بیشتر شعبوں میں بہت سے لوگ بظاہر بہت کچھ کرکے بھی در حقیقت کچھ نہیں کر رہے ہوتے! سلامت علی تقریباً چالیس سال سے گارہے ہیں اور اِس گمان میں مبتلا ہیں کہ وہ گارہے ہیں! اُن کے گمان تک تو معاملہ ٹھیک ہے، ہمارے یقین کو رہنے ہی دیجیے!

تدریس ہی کے شعبے کو لیجیے۔ بیشتر اساتذہ ایسے ہیں جو خیر سے تین چار عشروں تک پڑھاچکے ہیں مگر ہم (اپنے) سَر فخر سے بلند کرکے کہہ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے کچھ نہیں پڑھایا! ہمارے ہاں تدریس کا شعبہ گاڑی کے اُس ٹائر جیسا ہے جو گڑھے میں پھنسا ہوا ہو! ذرا کمال تو ملاحظہ فرمائیے کہ تعلیم کا شعبہ بخوبی چل رہا ہے، بچے کِسی نہ کِسی طرح تعلیم بھی پا رہے ہیں اور اساتذہ و حکام پر کوئی الزام بھی نہیں آرہا!

بہت کچھ کرکے کچھ نہ کرنے کی اداکاری ویسے تو ہر شعبے ہی میں جلوہ افروز اور کارفرما ہے مگر میڈیا کے شعبے میں تو اِس فن نے تکنیکی باریکیوں کا پوٹلا کھول کر رکھ دیا ہے! کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
اِس کاروبار شوق کا انجام کچھ نہیں
مصروفیت بہت ہے مگر کام کچھ نہیں!

تجزیے اور کالم لکھنے کے نام پر بہتوں نے ایسا نام کمایا ہے کہ خود اُنہیں بھی حیرت تو ہوتی ہوگی! یہ وہ باکمال افراد ہیں جو تیس چالیس سال سے لکھ بھی رہے ہیں اور لوگ اِن کا فن تلاش بھی کر رہے ہیں! اِن کے ہُنر نے سُلیمانی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے! کمال یہ ہے کہ کام بھی دِکھائی نہیں دیتا اور شہرت کا آفتاب بھی غروب ہونے میں نہیں آتا! گاڑی، گڑھے اور ٹائر والی مثال یہاں بھی چپساں کی جاسکتی ہے مگر خیر، گاڑی کو دھکیل کر گڑھے سے باہر نکالا جاسکتا ہے!

یہ تو ہوا پرنٹ میڈیا کا احوال۔ ایک قدم آگے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا پر نظر ڈالیے مگر تھوڑی احتیاط سے کہ کبھی کبھی نظر لَوٹ کر نہیں بھی آتی! منجن بیچنے یعنی ماورائے مفہوم رہتے ہوئے بولنے کا ہُنر ایف ایم ریڈیو اور ٹی وی چینلز دونوں پر ختم ہے! ٹی وی کے ٹاک شو میں بولنے کے لیے دِماغ کا ٹھکانے پر نہ ہونا لازم ہے اور ایف ایم پر بولنے کے لیے لازم ہے کہ دِماغ ہی نہ ہو! ویسے بھی ایف ایم اسٹیشنز پر رات بھر کی نشریات میں دِل ہی کی باتیں ہوتی رہتی ہیں، دِماغ تو ایک کونے میں کھڑا تماشا سُن رہا ہوتا ہے!

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا حوالہ دیکر ہم نے حجت تمام کردی۔ اگر اب بھی آپ کام کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو سزا یہ ہے کہ آپ کو کام کرتے رہنے دیا جائے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483416 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More