پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اﷲ تعالیٰ ہر انسان کو اس کی استطاعت اور طاقت کے مطابق ذمہ داریاں سونپتا ہے اور انسان کو اتنا ہی بوجھ دیتا ہے جس کو برداشت کرنے کی سکت انسان میں ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ انسان کو اتنا لچک دار بنا دیا ہے کہ یہ کسی بھی حالات اور کسی بھی رنگ میں رنگ جاتا ہے ۔اس دنیا میں اﷲ تعالیٰ کا نائب ہونے کی وجہ سے اس انسان کو کچھ ذمہ داریاں بھی سونپ دیتا ہے جن کو احسن طریقہ سے انجام دینا اس فرد کے لیے لازم و ملزوم ہو جاتا ہے اور جب انسان اپنے مقصد سے یا اﷲ پاک کی طرف سے منتخب کیے گئے راستہ سے اِدھر اُدھر ہوتا ہے تو اﷲ پاک اس انسان کے لیے کوئی اشارہ کسی بھی ذریعہ سے اس تک پہنچا دیتے ہیں جسے دانا افراد سمجھ کر دوبارہ اپنے مقصد کی طرف آجاتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی معاملہ چند دن پہلے نواز شریف کی طرف سے بلائی جانے والی مشاورتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوا کہ جب اجلاس کے اختتام پر اچانک بجلی غائب ہوگئی بجلی جانے کے فوراً بعد فضل الرحمن نے وہ جملہ کہا جو ان سطور کا عنوان بنا۔

اس مشاورتی اجلاس میں بجلی جانے میں داناؤں کے لیے کیا دانش مندی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دانش مند اور عوامی راہنما جس ایشو پر مشاورت کر رہے تھے وہ ایشوان دانش مندوں کا مقصد نہیں اور نہ ہی اﷲ پاک نے ان دانش مندوں کو یہ ذمہ داری سونپی کہ یہ ایسے ایشوز پر مشاورت کریں جن کا براہ راست تعلق عوام سے نہیں ۔بجلی جانا اسی نقطہ کی طرف اشارہ تھا جو اﷲ پاک نے انہیں دیا ۔کیوں کہ یہ عوامی راہنما ہیں اور ان کا کام عوام کی فلاح و بہبودکرنے کے ساتھ ساتھ ان ایشوز پر مشاورت کرنا ہے جو عوام کے لیے فائدہ مند اور عوام کی راحت و سکون کا موجب ہوں ۔مگر افسوس کہ عوام پچھلے پانچ سال سے سسکتی ،لٹتی ، پٹتی اور مرتی رہی مگر یہ عوامی راہنما تب مشاورت کے لیے اپنی کدورتوں کو پس پشت نہ ڈال سکے اور اب جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا دیا تو انہوں نے اپنی کدورتوں کو بھلا کر مشاورت کرلی مگر اﷲ پاک نے اجلاس کے اختتام پر بجلی کے جانے میں جو حکمت رکھی وہ یہ دانش مند اور عوامی راہنما نہ سمجھ سکے۔

لاہور میں ہونے والے اس مشاورتی اجلاس میں شامل عوامی راہنما عوام کی خدمت تب سے کر رہے ہیں جب سے ملک میں ڈرون حملوں کا آغاز ہوا ، یہ راہنما تب بھی تھے جب شمالی علاقہ جات میں اپنوں نے اپنوں کو ہی مارا، یہ راہنما تب بھی تھے جب لال مسجد علماء اور حفاظ کے خون سے لال لال ہوئی ، یہ عوامی راہنما عوام کی خدمت کے لیے اس وقت بھی تھے جب زلزلہ نے اس ملک کی درودیوار کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، ریمنڈڈیوس کی دہشت گردی کے وقت بھی یہ عوامی راہنما پاکستان میں ہی تھے ، ملت اسلامیہ کی ماں ، بہن اور بیٹی عافیہ صدیقی کو بھیڑیوں کے حوالے کیا گیا تو یہ تب بھی موجود تھے اور یہ اب بھی موجود ہیں کہ جب ملک میں گرانی ، قتل و غارت، کرپشن ، لوڈشیڈنگ کا بازار گرم ہے مگر شاید کے ان عوامی راہنماؤں کے لیے یہ عوامی مسائل نہیں ہیں کیوں کہ اگر یہ عوامی مسائل ہوتے تو یقیناً یہ مشاورتی اجلاس بھی بلاتے ۔

ماضی قریب و بعید میں یہ عوامی راہنما ، عوام کے مسائل سے بے پرواہ تھے اور آج بھی یہی حال ہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ یہ راہنما ان پانچ سالوں میں پہلی مرتبہ باہمی کدورتوں کو مٹا کر یک جا ہوئے جس کاسارے کا سارا کریڈٹ تحریک منہاج القرآن کے قائد طاہر القادری کو جاتا ہے جن کی لانگ مارچ اور ان عوامی راہنماؤں کی بیٹھک یہ ثابت کرتی ہے کہ عوام کے مسائل ڈاکٹر صاحب کی لانگ مارچ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ساتھ ساتھ لمحہ فکریہ عوام کے لیے بھی ہے کہ ان کے عوامی راہنما آج تک کسی حقیقی عوامی مسئلہ پر باہم اکٹھے نہ ہوئے مگر اپنی سیاست بچانے کی خاطر یہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے اور ساتھ ساتھ دس نقاط پربھی متفق ہوئے۔

1۔پاکستان کے آئین کے مطابق اقتدار اﷲ کی امانت ہے اسے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لایا جائے گا،یہ اجلاس عہد کرتا ہے کہ سیاسی تبدیلی صرف منصفانہ انتخابات سے آئے گی۔2۔یہ اجلاس عہد کرتا ہے کہ کسی بھی غیر آئینی اقدام کو مسترد کر دیا جائے گاجو عوامی رائے کا راستہ روکے ، انتشار اور افراتفری کا سبب بنے، آئین اور جمہوریت پر حملہ آور ہونے والوں کی بھر پور مزاحمت کی جائے گی۔3۔بلا تاخیر عام انتخابات کے جامع اور دو ٹوک شیڈول اور نگران حکومت کا بھی اعلان کیاجائے۔4۔نگران حکومتوں کے حوالے سے آئینی کرداررکھنے والی شخصیات اپنا دائرہ کار دیگر سیاسی جماعتوں تک وسیع کریں ۔5۔موجودہ الیکشن کمیشن پر اعتراض کرنے سے بروقت انتخابات کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکے گا ،ان کوششوں پر تشویش ہے۔6۔انتخابی اصلاحات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے اور پارلیمانی ضابطہ کمیٹی کے متفقہ سفارشات کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں ۔7۔ہزارہ کمیونٹی کے قتل عام میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے ، بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور کراچی کے علاقوں میں حکومت جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے ۔8۔تمام قومی معاملات آئین کے دائرہ کار میں رہ کر طے کیے جائیں ، ایسے مطالبات اور سرگرمیوں سے اجتناب کیا جائے جو دستور کے منافی ہوں ۔9۔عوام کو درپیش مسائل ، اندرونی اور بیرونی خطرات اور آئین کی سربلندی کے لیے مشاورت کا یہ عمل جاری رہے گا۔10۔دہشت گردی ، جبر ، دباؤاور دھونس ہر شکل میں قابل مذمت ہیں ، چاہے یہ کسی شخص کی صور ت میں ہوں یا کسی گروہ کی۔

مذکورہ بالا نقاط میں سے 50فیصد نقاط بھی ایسے نہیں جن کا براہ راست تعلق عوام سے ہوں ۔ان نقاط سے بھی ان کی سیاسی چالاکی عیاں ہے اس کے باوجود بھی یہ راہنما عوام کے Representativeہیں جو باعث حیرت تو ہے ہی لیکن عوام کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے ۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78729 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.