میلاد منانا کیسا؟

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

تحریر: مولانا محمود علی مسعودی

نحمدہ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم

وَسَلَا م عَلَیہِ یَومَ وُلِدَ وَیَومَ یَمُوتُ وَیَومَ یُبعَثُ حَیًّا (سورہ مریم:15)
” اور سلام ہو اُن کے میلاد کے دن پر اور اُن کی وفات کے دن اور جس دن زندہ اُٹھا ئے جائیں گے “

انبیاءکرام کی ولا دت فی نفسہ اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہے اورہر نبی کی ولا دت کی نعمت کے طفیل اُس کی اُمت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں ۔ اگر ولادت کا دن قرآن و حدیث اور شریعت کے نقطہ ءنظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تواس دن کو بطور خاص سلا م بھیجنے کا بیان بے معنی ہوتا‘ اس کی خاص اہمیت کے پیش نظر رب کائنات نے قرآن مجید میں بہت سے انبیا ءکرام کے میلاد کا ذکر فرمایا جس سے اس دن کی خاص اہمیت کا پتا چلتا ہے ....جیسے جمعہ کے دن کو خاص اہمیت حاصل ہے اسے” سید الایام“ کہتے ہیں۔ ایک مقا م پر فرمایا: جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو بخش دیتا ہے چنانچہ مسند اما م احمد بن حنبل میں ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا: میں تمہیںوہ خوشخبری نہ دوں جس کی بشارت مجھے حضرت جبرئیل نے دی!، صحابہ نے عر ض کیا‘ فرمائیے یا رسول اللہ! فرمایا: اللہ تعالیٰ ہرشب جمعہ 70ہز ار گہنہ گا روں کو دوزخ سے آزاد فرماتاہے۔دوسر ی جگہ فر ما یا: ہر جمعہ کی شب کو باری تعالیٰ ۹۹مرتبہ میری اُمت پر نظر رحمت فرماتاہے ۔ اسی طرح کے دیگر فضا ئل بھی بیان کیے گئے جس سے جمعہ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے ۔ (سنن ابو داﺅد،جلد:۱،ص:275)

جمعہ کو یہ اہمیت کیوں حاصل ہے؟ حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دنوں میں افضل دن جمعہ کا ہے کیونکہ اس دن حضرت آدم کو پید ا کیا ۔ پتا چلا کہ جمعہ کی اہمیت و عظمت کی وجہ حضر ت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہے اور آپ ابوالبشر کے ساتھ نبی بھی تو تھے اوربعد میں آنے والے انبیاءکا اللہ نے اُن کے میلادکا دن خود منایااور قرآن پاک میں اسکا تفصیل سے ذکر بھی کیا جیسے: (۱)حضرت آدم علیہ السلام کے میلا د کا ذکرسورہ بقرہ میں(۲ /30)، (۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے میلاد کاذکر سورہ قصص میں(28 /14)،(۳)حضرت مریم علیہا السلام کے میلا د کا ذکر سورہ العمر ان میں (۳ /۳۳)، ( ۴) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سورہ مر یم میں(19/15)، (۵)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سورہ العمر ان میں(۳/38) ۔اللہ نے ان تمام محبو بوں کے میلا د کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا اور پھر ان کی آمد کا ذکر جا بجا مقامات پر فرمایا۔

پیغمبر ، نبی اور رسو ل دراصل اللہ کے رابطے کا نا م ہے ، جس طرح رب کائنات نے سورہ الشورٰی (42/51)میں فر ما یا”بشر کی یہ شان نہیں کہ اللہ اس سے کلا م کر ے“ ۔نبی کی پیدائش و میلا د کا مطلب یہ ہے کہ اے بند و آج تمہا رے اور رب کے درمیان رابطہ پیدا ہوگیا ہے ۔ اگرکوئی یہ کہے کہ پیدائش تو ٹھیک ہے مگر وفا ت کا دن کیسے افضل ہے؟ تو بات یہ ہے کہ رابطہ جسم کا نہیں‘ روح کا ہوتا ہے اور جب زندگی ختم ہوجاتی ہے تو روح باقی رہ جاتی ہے اور پھر اسکا رابطہ او ر قو ی ہوجاتا ہے ، کیونکہ آپ ﷺنے فرمایا ”میراتم میں رہنا بھی اور چلے جانا بھی خیر ہے“۔ پھر فرمایا” میری اُمت کے اعما ل ہر پیراور جمعرا ت کے دن مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں“ ۔ جس اُمتی کے اعمال اچھے ہو ں تو خوش ہوتے ہیں اور اعمال میںکمی ہوتو دعا فرماتے ہیں۔ اللہ اکبر! جو نبی ﷺ اپنی امت پر اتنا مہربان ہو کہ قبر انور میں بھی اپنے اُمتی کا خیا ل رکھے اورامتی جب اُن کے میلاد کا دن آئے تو اسکے لیے قرآن وحدیث میں حجتیں تلا ش کر ے! یہ کتنا ظلم ہے، ارے میلا دالنبی ﷺ توسب سے بڑی خوشی ہے اور خوشی منانے کا حکم رب کا ئنات نے قرآن مجید میں فرمایا (سورہ یو نس: 10/58) ”فرما دیجیے یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت کے با عث ہے پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیا ں منائیں“۔اس آیت مبا رکہ میں دو چیز وں کا ذکر ہوا، (۱)اللہ کا فضل(۲) اللہ کی رحمت ۔یہاں یہ وضاحت بھی کر دی کہ کہیں اللہ کے فضل اور رحمت کو کسی اور سمت تلاش نہ کرتے رہنا بلکہ اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ کافضل بھی اور رحمت بھی یہی ہستی ہے یعنی فضل ورحمت حقیقت میں ایک ہی ذات میں جمع ہوگئے لہٰذا اس مبارک ہستی کے سبب تم شکر بجالاﺅاور خوشیاں مناﺅ، چنانچہ ماہ ربیع الاول کا آغاز ہوتے ہی مسلمانان عالم آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں دیوانہ وارمگن ہوجاتے ہیں ،ہر طرف جشن کاسماں ہوجاتاہے، ایساکیوں نہ ہو کہ کائنات کی ساری خوشیا ں جملہ مسرتیں اور شادمیانیاں اس ایک خوشی پر قربان ہوجائیںپھر بھی اس یو م سعید منانے کا حق اد ا نہیں ہو سکتا۔ خود رب العزت نے اس خوشی کے منانے کانہ صرف اہتمام کیابلکہ پیش کی گئی قرآنی آیت کی روسے ہمیں بھی اس نعمت پر خوشی منانے کاحکم دیا ہے۔یہی نہیں بلکہ سورہ یونس(10 /58 )میں مزید فر ما یا” خوشی منانابہتر ہے اس چیز سے جو جمع کرکے رکھتے ہیں“۔ یعنی اللہ کے فضل اور رحمت پرخرچ کرنا‘جمع کرکے رکھنے سے افضل ہے۔

انسان دوہی طرح کی چیزیں جمع کرسکتاہے (۱) دنیا کے حوالے سے مال واسباب اور دولت وغیرہ (۲) آخرت کے حوالے سے اعمال صالحہ مثلاً نماز ،روزہ، حج، زکوٰة، صدقات وغیرہ۔ مگریہاں نہ مال ودولت کی تخصیص کی اور نہ ہی اعمال صالحہ، تقویٰ وغیر ہ کی نشاندہی کی، گو یااس آیت سے مرادیہ ہے کہ لو گوں اگر تم دنیا کے مال ودولت جمع کرتے رہو، جائیدادیں مال بناتے رہو یا سونے چاندی کے ڈھیروں کا ذخیرہ کرتے رہو اور انواع واقسام کی دولت خواہ نقدی میں ہو یاکسی جنس میں مگر میرے محبوب کی آمد اورولادت پر خوشی مناناتمہارے اس قدر مال ودولت جمع کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ اور آخرت کے حوالے سے عمل صالح سجدوں، رکوع ، قیام کا ذخیرہ کرلو، نفلی عبادتوں کو جمع کر لو، فرائض کی بجاآوری سے اجر وثواب کا ذخیرہ کرلو، نیکی کے تصو ر سے جو چا ہو کر تے رہو لیکن اس نعمت پر شکرانہ کے لیے جشن منانااور اس پر اپنا مال ودولت خرچ کرنا، یہ تمہا رے سارے دنیوی و دینی اعمال کے ذخیرہ سے زیادہ بہتر ہے۔ جب اُمتی جشن میلادالنبی ﷺکے موقع پر چراغاں کے لیے قمقمے لگاتے ،جلسے،جلوس اوراجتماعات کااہتمام کرتے ،لنگر پکاتے ہیں، دھوم دھام سے اپنی خوشی کے اظہار کے لیے جو کچھ انتظامات کرتے ہیں وہ ان کی عبادات نوافل اور دیگر نیکیاں جو وہ اپنے نامہ اعمال میں جمع کرتے ہیں‘ سے اَجر میں زیادہ ہیں، اسی لیے فرما یاگیاکہ میلادا لنبی ﷺپر خرچ کرنے والی دولت جمع شدہ دولت ومال سے بہتر ہے۔

یہ عمل مبارک‘ میلادالنبیﷺ کے حوالے سے قرون اولیٰ سے چلاآرہاہے ،ماہ ربیع الاول کاآغاز ہو تے ہی پورے عالم اسلام میں میلاد مصطفیﷺ کی خوشیاں شروع کردی جاتی ہیں، ہر اسلامی ملک اپنی ثقافت اور رسم ورواج کے مطابق محبت آمیز جذبات کے ساتھ یہ دن مناتا ہے،اور ان شا ءاللہ قیامت تک اُمت میں یہ عمل جاری وساری رہے گا۔ اسکے ساتھ ہی بعض بد بخت ایسے بھی ہیں کہ ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی اُن کی تنگ نظری سامنے آجاتی ہے اوروہ اس خوشی کے موقع پربھی حرام و کفر، شرک و بدعت اور نہ جانے کیاکیا کچھ کہتے دکھائی دیتے ہیں ....ایسے لوگوں کویہی کہتے ہیں:
دل بینا بھی کر خد ا سے طلب ....آنکھ کانور دل کانور نہیں ہوتا

کیسے بدبخت ہیں کہ میلاد النبی ﷺجیسی عظیم نعمت پر شکرانے کے لیے ثبوت طلب کرتے ہیں! انھوںنے زندگی میں دنیاوی خوشیاں مناتے وقت کبھی قرآن وحدیث کواُٹھا کردیکھا کہ اس کاثبوت ہے یا نہیں! جب کسی کے ہاں (بیٹا) اولاد کی ولادت ہو تو مٹھائی تقسیم کرتاہے ، کبھی معلوم کیاکہ حضوراکرم ﷺاور صحابہ کرام نے بچوں کی پیدا ئش پر مٹھائی تقسیم کی تھی! اسی طرح سالگرہ بھی مناتے ہیں اس کا ثبوت کبھی تلاش کیا ؟ 14 اگست یوم آزادی پر پو را ملک دلہن کی طرح سجایاجاتا ہے کسی نے کبھی یہ معلوم کیاکہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب ملک در ملک فتو حات جاری تھیں،کیا کسی نے کسی ملک کا سال گزرنے پر اسطرح خوشی منائی !کوئی ثبوت ہے! نہیں مگر آج یوم آزادی منانااس دورکی ضرورت ہے کیونکہ یہ طریقہ خوشی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے ۔اسی طرح سب سے بڑی خوشی میلادالنبی ﷺہے اسکے لیے کیوں ثبوت تلاش کیا جاتا ہے! ذرا سوچنا توچاہیے؟ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاعلیہ الر حمة نے ایسے ہی لوگوں کی توجہ کے لیے فر ما یا تھا
اور تم پر میرے آقاکی عنایت نہ سہی.... منکروکلمہ پڑھانے کابھی احسان گیا!

پیدائش انبیاءیعنی میلاد النبی پر سلام بھیجنا خودرب العزت کا طریقہ ہے ،جیسا کہ خود فرما تا ہے:وَسَلَا م عَلَیہِ یَومَ وُلِدَ وَیَومَ یَمُوتُ وَیَومَ یُبعَثُ حَیًّا (سورہ مریم:15)” اور سلام ہو اُن کے میلاد کے دن پر اور اُن کی وفات کے دن اور جس دن زندہ اُٹھا ئے جائیں گے “۔جشن میلاد کے موقع پر محافل منعقد کرنااور صدقہ و خیرات کرنا،اسکے لیے جانی ومالی، علمی وفکر ی ہر قسم کی قربانی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسکے محبوب سے اظہار محبت کا بہترین طریقہ ہے،میلاد منانا شرک ہر گز نہیں یہ تو عشق رسولﷺ کا سب سے بڑا ذریعہ اور تریاق ہے۔اللہ رب العزت اپنے حبیب ﷺکی سچی محبت اور ان کی خوشی منانے کی سب مسلمانوں کو توفیق و سعادت عطافرمائے۔آمین
نثار تیری چہل پہل پر ہزار عیدیں ربیع الاول
Muhammad Ahmed
About the Author: Muhammad Ahmed Read More Articles by Muhammad Ahmed : 30 Articles with 42650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.